(26)۔۔۔۔۔۔سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”ميت کو زندہ لوگوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے،وہ میت کتنی بُری ہے جب رونے والی عورت کہتی ہے:” ہائے ہمارے بازو! ہائے ہمارے تن ڈھانپنے والے! ہائے ہمارے مددگار!” تواس سے پوچھا جاتا ہے:”کيا تو ہی اس کا مددگار تھا؟کيا تو ہی اس کا تن ڈھانپتا تھا؟”
( المستدرک،کتاب التفسیر ، باب الاسلام ثلاثون سھما۔۔۔۔۔۔ الخ ، الحدیث: ۳۸۰۷،ج۳ ،ص۲۷۸)
(27)۔۔۔۔۔۔سیدناامام اوزاعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بيان فرماتے ہيں کہ امير المؤمنين حضرت سيدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک گھرسے رونے کی آواز سنی تو اس ميں داخل ہو گئے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو ہٹاتے ہٹاتے اس نوحہ کرنے والی عورت کے پاس پہنچ گئے اور اسے اتنا مارا کہ اس کا دوپٹہ گر گيا،پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمايا:”اسے مارو کيونکہ يہ نائحہ (يعنی نوحہ کر نے والی ) ہے اور اس کی کوئی حرمت یا لحاظ نہيں، يہ تمہارے غم کی وجہ سے نہيں روتی بلکہ تم سے درہم بٹورنے کے لئے روتی ہے، يہ تمہارے مُردوں کو قبروں ميں اور زندوں کو گھروں ميں ايذاء پہنچاتی ہے، يہ صبر سے روکتی ہے حالانکہ اللہ عزوجل نے صبر کا حکم ديا ہے اور سوگ کی ترغيب ديتی ہے حالانکہ اللہ عزوجل نے اس سے منع فرمايا ہے۔” (کتاب الکبائر،الکبیرۃ التاسعۃ والأربعون،ص۲۱۲)
ہماری بيان کردہ ان احاديثِ مبارکہ اور ان کے لعنت پر مشتمل ہونے اور کفر کا سبب ہونے يا اسے حلال جاننے کی صورت ميں کفر ہونے يا نعمتوں کی ناشکری وغيرہ وعيدوں سے متعدد علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے قول کی صحت ثابت ہو گئی کہ” يہ سب کبيرہ گناہ ہيں اور ان سے ملتے جلتے افعال بھی انہی سے ملحق ہيں۔” جبکہ شيخين کا صَاحِبُ الْعُدَّۃکے اس قول کو برقرار رکھنا مردودہے کہ”مصائب پرنوحہ،چيخ و پکار اور گريبان چاک کرنا صغيرہ گناہ ہيں۔”
سیدنااذرعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں :”ميں نے کسی اور کو يہ بات کہتے ہوئے نہيں ديکھا جبکہ صحيح احاديث اس بات کا تقاضا کرتی ہيں کہ يہ افعال کبيرہ گناہوں ميں سے ہيں کيونکہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ايساکرنے والے سے برأت کا اظہار فرمايا اور ارشاد فرمايا:”جو رخسار پيٹے اور گريبان پھاڑے وہ ہم ميں سے نہيں۔”
اور مزيد ارشاد فرمايا:”لوگوں ميں دو کام کفرکے مترادف ہيں: (۱)نسب پر طعن کرنا اور (۲)ميت پر نوحہ کرنا۔” ( صحیح مسلم ،کتاب الایمان ، اطلاق اسم الکفر علی۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۲۲۷ ، ص۶۹۱)
سیدناامام نووی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مسلم شریف کی شرح ميں ارشاد فرماتے ہيں :”يہ حدیثِ پاک نسب پر طعن کرنے اور نوحہ کرنے کی حرمت کے سخت ہونے پر دلالت کرتی ہے اس کے بارے ميں چار اقوال منقول ہيں: (۱)سب سے صحيح تر قول يہ ہے کہ يہ کفار کے اعمال اور جاہليت کی عادات ميں سے ہيں (۲)يہ اعمال کفر کی طرف لے جانے والے ہيں (۳)يہ نعمت و احسان کی ناشکری ہے اور (۴)يہ وعيد انہيں حلال جاننے والے کے لئے ہے۔” (شرح النووی علی صحیح مسلم،تحت الحدیث:۲۲۷)
اوریقینی طورپریہ بات لازم ہے کہ جس نے حرمت کا علم ہونے، نہی ياد ہونے اور اس ميں وارد سخت وعيدوں کے باوجود نوحہ کرنے، گريبان چاک کرنے اور چيخ و پکار کے افعال کاجان بوجھ کر ارتکاب کيا تو وہ ان قبيح کاموں کو جمع کرنے اور ان کے ذريعے ميت کو ايذاء پہنچانے کی وجہ سے عدالت(یعنی گواہی دینے کی صلاحیت)سے نکل گياجيسا کہ احاديثِ مبارکہ اس پر گواہ ہيں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
سیدنا اذرعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمايا:”نوحہ گری اور ديگر افعال اگر تقدير پر ناراضگی اور عدمِ رضا کی وجہ سے ہوں تب تو ظاہر ہے کہ يہ کبيرہ گناہ ہيں اور اگر ناراضگی کی نيت کے بغير شدتِ غم اور مصيبت کا صدمہ برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے ہو تو اس ميں احتمال ہے، اور کيا اس معاملہ ميں جاہل کا عذر قبول ہو سکتا ہے؟ یہ محلِ نظر ہے، پھر خود ہی اَلْخَادِم ميں ارشاد فرماتے ہیں:” حدیثِ پاک میں مذکور وعيد کے تقاضا کی بناء پرنوحہ گری اور ديگر افعال کبيرہ گناہ ہيں۔”
نُدْبَہ يعنی ميت کے محاسن شمار کرنا اور نَوْحَہ يعنی بلند آواز سے رونا حرام ہے۔ اسی طرح روتے ہوئے آواز کو بلند کرنے ميں افراط سے کام لينایوں کہ مردے کی خوبیاں بیان کرنا، نوحہ کرنا، رخسار پيٹنا، گريبان چاک کرنا، بال پھيلا دينا، سر منڈوا دينا، بال اکھيڑ ڈالنا، چہرہ کالا کرلينا، سر پر مٹی ڈالنا اور اپنی ہلاکت کی دعا کرنا نيز ہر ايسا کام کرنا جس سے حليہ بگڑ جائے مثلاًايسا لباس پہننا جو عادتاً نہ پہنا جاتا ہو يا اس طريقے سے نہ پہنا جاتا ہويا لباس ميں سے کوئی چيز کم کر دینا اور اس کے بغير نکلنا خلافِ عادت ہو(سب حرام ہے)،اوربہت سے لوگ (کسی کے مرنے پر)اپناحلیہ بگاڑلیتے ہیں حالانکہ ان کاحرام ہونابلکہ بیان کردہ امورپرقیاس کرتے ہوئے کبیرہ گناہ اورفسق ہوناثابت ہوچکاکیوں کہ علماءِ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کی جووجہ بیان فرمائی ہے وہ مذکورہ ہر گناہ کو شامل ہے، اور وہ اس بات کاواضح طورپر شعور دلاتی ہے کہ یہ افعال اللہ عزوجل کی ناراضگی اورقضائے الٰہی عزوجل سے راضی نہ ہونے کوظاہرکرتے ہیں۔
ان تمام خرافات سے بچتے ہوئے رونا موت سے پہلے اور بعد دونوں صورتوں ميں جائز ہے جیساکہ حضورنبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے شہزادے (حضرت سیدناابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کے انتقال پر آنسو بہائے ہيں۔مگر جہاں تک ممکن ہو موت کے بعد اس کا ترک کرنا مناسب ہے، ايک جماعت کہتی ہے :”موت کے بعد رونا مکروہ ہے۔چنانچہ، (28)۔۔۔۔۔۔ سرکارِمدینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جب موت واجب يعنی واقع ہو جائے تو کوئی رونے والی نہ روئے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( سنن ابی داؤد،کتاب الجنائز،باب فی فضل من مات باالطاعون ، الحدیث:۳۱۱۱،ص۱۴۵۷)
(29)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ايک جماعت کے ہمراہ حضرت سيدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عيادت کے لئے تشريف لائے توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم رونے لگے، صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی حضورنبئ کریم،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا گريہ ديکھ کر رونے لگے، تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا : ”کيا تم نہيں سنتے کہ اللہ عزوجل آنکھ کے آنسو اور دل کے غم پر عذاب نہيں ديتا بلکہ” اس” کی وجہ سے عذاب دیتا ہے یارحم فرماتا ہے ۔” اور یہ فرماکر اپنی زبانِ اقدس کی جانب اشارہ فرمایا۔
( صحیح مسلم ،کتاب الجنائز،باب البکاء علی المیت،الحدیث:۲۱۳۷،ص۸۲۲)
(30)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار،بِاذنِ پروردگارعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ايک نواسے کو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ ميں حاضرکيا گيا جس پر نزع کا عالم طاری تھا، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی آنکھيں نم ہو گئيں، تو حضرت سيدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:”يا رسولَ اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! يہ کيا؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”يہ رحمت ہے جسے اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کے دلوں ميں پيدا کيا ہے اور اللہ عزوجل اپنے رحم دل بندوں پر ہی رحم فرماتا ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(صحیح البخاری ،کتاب الجنائز،باب قول النبی علیہ السلام۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۱۲۸۴،ص۱۰۰)
(31)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اپنے شہزادے حضرت سيدنا ابراہيم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشريف لائے جبکہ حضرت سيدنا ابراہيم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نزع کے عالم ميں تھے، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی چشمانِ کرم نم ہو گئيں ،تو حضرت سيدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم بھی روتے ہيں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا: ”اے عوف کے بيٹے !يہ رحمت ہے۔” انہوں نے دوبارہ عرض کی تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشادفرمايا:”آنکھيں بہہ رہی ہيں اور دل غمگين ہے حالانکہ ہم وہی کہہ رہے ہيں جو ہمارے رب عزوجل کو پسند ہے اور یقینا اے ابراہيم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)!ہم تمہاری جدائی سے غمزدہ ہيں۔”
(صحیح البخاری ،کتاب الجنائز،باب قول النبی علیہ السلام انا بک لمحزونون،الحدیث:۱۳۰۳،ص۱۰۲)
ہمارے شافعی اصحابِ رحمہم اللہ تعالیٰ نے ان احاديثِ مبارکہ سے يہ استدلال کيا ہے کہ”بے آواز آنسو بہنا مکروہ نہيں بلکہ مباح ہے۔” اور گذشتہ صفحات ميں جو يہ بات بيان ہوئی کہ”ميت پر اس کے اہلِ خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔”
اس ميں اختلاف ہے کہ اسے کس صورت پر محمول کيا جائے۔”
ہمارے نزديک صحيح يہ ہے کہہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ“یہ حکم نوحہ کی وصیت کر کے مرنے کی صورت پر محمول ہے اور اگر اس نے اس کے بارے میں کوئی بات نہ کی، نہ ہی حکم دیا اور نہ ہی منع کیا (اور مرنے کے بعد اس پر نوحہ کیا گیا) تو اس صورت میں اسے عذاب نہ ہوگا، البتہ اگر اس نے نوحہ کا حکم دیا تو اسے حکم دینے اور لوگوں کو حکم کی تعمیل کرنے کی وجہ سے عذاب ہوگا، کيونکہ جو برا طريقہ جاری کرے اس پر اس کا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی گناہ ہو گا، لہٰذااس کے گناہ ميں اضافہ ہوتا جائے گا جب تک اس پر عمل ہو گا اور اگر عمل نہ ہو تو گناہ بھی نہ ہو گا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ايک قول يہ ہے کہ”اگر وہ(بوقت موت یامرضِ موت میں) خاموش رہا اور انہيں نوحہ خوانی سے منع نہ کيا تب بھی اسے اس سبب سے عذاب ہو گا کيونکہ اس کا انہيں منع کرنے سے خاموش رہنا ان کے اس فعل پر رضا مندی ہے، لہٰذا اسے اس کے سبب اسی طرح عذاب ہو گا جس طرح اگر وہ اس چيز کاحکم ديتا،توجو اس قول کی پکڑ سے بچنا چاہتا ہے اسے چاهئے کہ جب وہ بيمار ہو تو اپنے اہلِ خانہ کو بدعات اور ديگر حرام اور برے کاموں سے منع کر دے ۔”
ہمارے اصحابِ شوافع رحمہم اللہ تعالیٰ اور دیگر علماء کرام علیہم الرضوان فرماتے ہيں :” جو ميت يا اپنی ذات، اہل يا مال کی مصيبت ميں گرفتار ہو اگرچہ وہ مصیبت کم ہی کيوں نہ ہو تو اسے چاهئے کہ ”اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَيہ رَاجِعُوْنَ ،اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِيبتِیْ وَ أَخْلِفْ لِیْ خَيرا مِّنْھَا ترجمہ:بے شک ہم اللہ کے لئے ہیں اوراسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ،اے اللہ عزوجل مجھے اس مصیبت میں صبر اور اس سے بہتربدل عطافرما۔” کثرت کرے، کيونکہ مسلم شریف کی ایک روایت میں ایساکہنے والے کے بارے میں فرمایاگیا ہے کہ”جو ايسا کریگا اللہ عزوجل اسے اس مصيبت سے نجات عطا فرمائے گا اور اس سے بہتر بدلہ عطا فرمائے گا۔”
(صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب مایقال عندالمصیبۃ،الحدیث:۲۱۲۶،ص۸۲۲)
اور اللہ عزوجل نے ايسا کہنے والوں کے ساتھ وعدہ فرمايا ہے کہ ان پر ان کے رب عزوجل کی طرف سے رحمت اور مغفرت ہو اور انہی کو ترجيع(یعنی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَيہ رَاجِعُوْنَ )کہنے يا ثواب اور جنت کی ہدايت ملتی ہے۔
(32)۔۔۔۔۔۔حضرت ابن جبير رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں :”اس امت کو مصيبت کے وقت پڑھنے کے لئے ايک ايسی دعا ملی ہے جو دوسری امتوں کو عطانہ ہوئی اور وہ ” اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَيہ رَاجِعُوْنَ ہے۔ اگر يہ پچھلی امتوں کو ملی ہوتی تو حضرت سيدنا يعقوب علیہ السلام يٰآۤاَسَفٰی عَلٰی يوسُفَ(پ۱۳، يوسف:۸۴)ترجمۂ کنز الایمان:”ہائے افسوس يوسف کی جدائی پر۔”کہنے کے بجائے يہی دعا پڑھتے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(فیض القدیر،حرف الہمزۃ،تحت الحدیث:۱۱۷۶،ج۲،ص۳)
(33)۔۔۔۔۔۔سرکار ابدِ قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بندہ جب کسی مصيبت ميں مبتلا ہوتا ہے تو اس کا سبب يا تو کوئی ايسا گناہ ہوتا ہے جس کی بخشش اس مصيبت ميں مبتلا ہونے پر موقوف ہوتی ہے يا پھر اس کی وجہ وہ درجہ ہوتا ہے جو اس مصيبت ميں مبتلا ہوئے بغير نہيں مل سکتا۔”
( کنزالعمال،کتاب الاخلاق ،قسم الاقوال ،باب الصبر علی انواع۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث:۶۸۳۰،ج۳،ص۱۳۷ملخصاً)
(34)۔۔۔۔۔۔شاہِ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”مسلمان کو جو بھی پريشانی يا مصيبت پہنچتی ہے اگرچہ کانٹا ہی چبھے،وہ دومیں سے کسی ایک فائدے کے لئے پہنچتی ہے : (۱)اللہ عزوجل اس کا کوئی ايسا گناہ معاف فرما ديتا ہے جس کی مغفرت اس جيسی مصيبت پر موقوف ہوتی ہے یا (۲) بندے کو اس کی وجہ سے ايسی بزرگی عطا ہوتی ہے جو اس کے بغير حاصل نہيں ہو سکتی تھی۔”
(الترغیب والترھیب،کتاب الجنائز،باب الترغیب فی الصبرسیما۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث:۵۲۳۰،ج۴،ص۶ ۱۳)
( 35 )۔۔۔۔۔۔رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ايک شہزادی نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت ميں پيغام بھيجا کہ ”ميرا بيٹا نزع کے عالم ميں ہے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نےپیغام لانے والے سے فرمايا:”اسے جا کر بتا دوکہ یقیناوہ سب کچھ اللہ عزوجل ہی کا ہے جو وہ واپس لے اور وہ سب کچھ بھی اسی کا ہے جو وہ عطا فرمائے، اس کے پاس ہر چيز کی موت کا وقت مقرر ہے لہٰذااس سے کہو کہ صبر کرے اور اَجر کی اُميد رکھے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( صحیح مسلم ،کتاب الجنائز،باب البکاء علی المیت ، الحدیث: ۲۱۳۵ ، ص ۸۲۲)
سیدناامام نووی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہيں :”يہ حدیثِ پاک اسلام کے ان عظيم قواعد ميں سے ہے جو دين کے تمام مصائب، غم و الم، بيماری و پريشانی پر صبر جيسے بيشتر اہم امور کے اصول و فروع اور آداب پر مشتمل ہيں۔(حدیثِ پاک میں وارد اس فرمان) ”اِنَّ لِلّٰہِ مَآ اَخَذَ” کے معنی يہ ہيں کہ پوری کائنات اس کی ملک ہے وہ تم سے جو کچھ بھی ليتا ہے وہ تمہارے پاس عاريتاً ہوتاہے اور ”وَلَہٗ مَآ اَعْطٰی” کا مطلب يہ ہے کہ اس نے جو کچھ تمہيں عطا فرمايا ہے وہ بھی اسی کا ہی ہے کيونکہ وہ اس کی ملک سے خارج نہيں ہوتا، لہٰذاوہ جو چاہے کرے اور ”وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی” کا مطلب يہ ہے کہ وہ چيز اس کے مقررکردہ وقت سے مقدم يا مؤخر نہيں ہوتی،توجس شخص نے اس بات پر يقين کر ليا يہ اسے صبر و اَجر کی اُميد کی طرف لے جائے گی۔”
(36)۔۔۔۔۔۔ايک شخص پر بيٹے کی موت گراں گزری تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے دلاسہ ديتے ہوئے ارشاد فرمايا: ”تمہيں ان دو باتوں ميں سے کون سی بات پسند ہے کہ (۱)تم اپنی زندگی ميں اس سے نفع اٹھاؤیا(۲) جنت کے جس دروازے پر بھی آؤ وہ پہلے ہی سے وہاں موجود ہو اور تمہارے لئے جنت کا دروازہ کھولے۔” اس نے عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! يہ دوسری بات مجھے زيادہ پسندہے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”تمہارے لئے ايسا ہی ہے۔” تو عرض کی گئی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کيا يہ خوشخبری صرف انہی کے لئے خاص ہے يا تمام مسلمانوں کے لئے ہے؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔”
( سنن النسائی،کتاب الجنائز،باب فی التعزیۃ ،الحدیث:۲۰۹۰،ص۲۲۲۴)
(سنن الدارقطنی،کتاب البیوع ، الحدیث:۲۹۶۵،ج۳،ص۵۷)
(37)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ معظم ہے :” مؤمن کو جو بھی مصيبت پہنچتی ہے يہاں تک کہ کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کے بدلے اس کے گناہ مٹا دئيے جاتے ہيں۔”
(صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃ والادب،باب ثواب المومن فیما۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۶۵۶۵،ص۱۱۲۸)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(38)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشادفرمایا:”جسے کوئی مصيبت پہنچے تو وہ ميری مصيبت کو ياد کر ليا کرے کيونکہ وہ سب سے بڑی مصيبت ہے۔”
( عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، باب مایقول اذا اصیب بولدہ،الحدیث: ۵۸۲ ، ص۱۷۸)
ہمارے اکابر ائمہ ميں سے سیدنا قاضی حسين رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیثِ پاک کی شرح ميں فرمايا :”ہر مؤمن پر واجب ہے کہ اسے حضور نبئ کريم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی دنيا سے جدائی کا غم اپنے والدين کی دنيا سے رخصتی سے بھی زيادہ ہو جيسا کہ اس پر رسولِ اکرم، شفيع معظَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کو اپنی جان و مال اور اہل و عيال سے زيادہ محبوب رکھنا واجب ہے۔”