islam
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی کے جلیل القدر اساتذہ کرام
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
کے جلیل القدر اساتذہ کرام
بقلم: مولانا حافظ و قاری قاسم صدیقی تسخیر ، استاذ جامعہ نظامیہ
حضرت عبدالحلیم فرنگی محلی
حضرت عبدالحلیم فرنگی محلی بن ملا امین اللہ بن ملا اکبر بن ملا ابی الرحم بن ملا یعقوب بن ملا عبدالعزیز بن ملا سعید آپ ۲۱۔ شعبان المعظم ۱۲۳۹ہجری میں پیدا ہوئے اور کتب درسیہ اپنے والد اور مفتی محمد ظہور اللہ اور مفتی محمد اصغر اور مفتی محمد یوسف اور مولانا نعمت اللہ سے تحصیل کیں اور حدیث مرزا حسن علی محدث اور مولوی حسین احمد محدث اور دیگر شیوخ مکہ و مدینہ سے حاصل کی۔ ایک مدت تک درس و تدریس میں مشغول رہے کچھ دنوں باندے وجونپور میں مدرس رہے پھر ریاست حیدرآباد و دکن میں جاکر عدالت قضامین حاکم ہوئے آپ کثیر التصانیف ہوئے جو حسب ذیل ہیں۔
(۱) رسالہ فی الاشارۃ فی التشہید
(۲) حل المعاقد فی شرح العقائد
(۳) نظم الدرر فی سلک شق القمر
(۴) التحلیہ شرح التسویہ
(۵) ونور الایمان فی آثار حبیب الرحمن
(۶) برکات الحرمین
(۷) والا ملا فی تحقیق الدعا وانعقاد
(۸) المصابیح فی صلوٰۃ التروایح
(۹) غایۃ الکلام فی مسائل الحلال والحرم
(۱۰) خیرالکلام فی مسائل الصیام
(۱۱) القول الحسن فیما یتعلق بالنوافل والسنن
(۱۲) عمدۃ التحریر فی مسائل اللون واللباس والحریر
(۱۳) السقایۃ لعطشان الہدایۃ
(۱۴) قمرالاقمار حاشیہ نور الانوار
(۱۵) التعلیق الفاضل حاشیۃ الطہر المتخلل
(۱۶) رسالہ فی احوال سفر الحرمین
(۱۷) التحقیقات المرضیہ لحل حاشیۃ الزاہد علی الرسالۃ القطبیہ
(۱۸)القول الاسلم لحل شرح السلم
(۱۹)الاقوال الاربعہ
(۲۰) کشف المکتوم فی حاشیۃ بحرالعلوم
(۲۱) القول المحیط فیما یتعلق بالجعل المؤلف والبسیط
(۲۲) معین الغائصین فی ردالمغالطین
(۲۳) والایضاحات لمبحث المختلطات
(۲۴) کشف الاشتباہ فی حل شرح السلم لمولوی حمد اللہ
(۲۵) البیان العجیب شرح ضابطۃ التہذیب
(۲۶) کاشف الظلمۃ فی بیان اقسام الحکمۃ
(۲۷) العرفان حاشیۃ بدیع المیزان
(۲۸) حواشی الحاشیۃ القدیمہ
(۲۹) حل النفیسی
مفصل احوال آپ کے ’’حسرۃ العالم وفاۃ مرجع العالم‘‘ میں حضرت مولانا عبدالحی قدس اللہ سرہ العزیز نے تحریر فرمائے ہیں آپ کا عقد دختر مولوی ظہور علی بن ملاحیدر سے ہوا ایک صاحبزادے مولانا عبدالحی صاحب کو چھوڑ کر ۱۲۸۵ہجری میں وفات فرمائی اور پائین مزار حضرت شاہ یوسف قادری قدس اللہ سرہ العزیز ریاست حیدرآباد دکن میں مدفون ہوئے۔
(احوال علماء فرنگی محلی ص ۶۲۔۶۳؍مولوی شیخ الطاف الرحمن، مطبع مجتبائی لکھنو ۱۳۲۴ھ)
حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلیؒ
آپ ۱۲۶۵ہجری میں پیدا ہوئے۔ افراد عالم اور اجلہ مشاہیر علماء میں ہوئے جن کا ذکر مشارق و مغارب میں پھیلا ہوا ہے۔ آپ نے اپنے والد بزرگوار اور مولانا نعمت اللہ سے کتب درسیہ تمام کیے اور مشائخ حرمین شریفین سے سند احادیث حاصل کی۔ آپ صاحب تصانیف کثیرہ مفیدہ اور حواشی عدیدہ ہوئے عرب اور عجم نے آپ کی ذات سے فیض پایا اور خلق کثیر آپ کے تلمذ سے شرف اندوزی ہوئی۔ تصانیف آپ کے حسب ذیل ہیں۔
علم صرف (۵)
چارگل‘ امتحان الطلبہ‘ تبیان شرح میزان‘ تکملہ میزان‘ شرح میزان
نحو (۲)
ازالہ الحمید، خیر الکلام
مناظرہ (۱)
الہدیۃ المختاریہ
منطق و حکمۃ (۱۷)
ہدایۃ الوری حاشیہ قدیمہ علی حاشیۃ المحقق غلام یحییٰ البہاری ، مصباح الدجی حاشیہ جدیدہ علی حاشیہ المحقق غلام یحییٰ البہاری، نور الہدیٰ حاشیہ اجد علی حاشیہ المحقق غلام یحییٰ البہاری، علم الہدی حاشیہ اجد علی حاشیۃ المحقق غلام یحییٰ البہاری، تعلیق العجیب لحل حاشیۃ الجلال لمنطق التہذیب، حل المغلق فی بحث مجہول المطلق، میسر العسیر، الافادۃ الخطیرۃ، مفید الخائفین، التعلیق النفیس، تکملہ حل النفیسی، المعارف بما فی حواشی شرح المواقف، تعلیق الحمائل علی تعلیق، سید الزاہد المتعلق بشرح الہیاکل، دفع الکلال، حاشیہ بدیع المیزان، الکلام الوہبی، الکلام المتین۔
تاریخ (۱۵)
حسرۃ الکلام، الفوائد البہیہ، الیتعلقات السنیہ، ابراز الغی، تذکرۃ الراشد، النافع الکبیر، مقدمۃ التعلیق الممجد، مقدمہ عمدۃ الرعایہ، مقدمۃ السعایہ مقدمۃ الہدایہ، مذیلہ الدرایہ، طرب الاماثل، فرحۃ المدرسین، خیر العمل، النصیب الاوفرفی تراجم علماء الائمۃ الثالثۃ عشر، رسالہ فی ذکر تراجم السابقین من علماء الہند۔
فقہ۔ حدیث ۔سیر (۵۵)
حسن الولایہ۔ عمدۃ الرعایہ۔ السعایۃ۔ الفلک المشحون۔ القول الجازم۔ الفلک الدوار۔ الافصاح تحفۃ النبلاء۔ الکلام الجلیل۔ ترویح الجنان۔ زجر ارباب الریان۔ روع الاخوان۔ دافع الوسواس۔ زجر الناس۔ الآیات البینات۔ الانصاف فی حکم الاعتکاف۔ نفع المفتی والسائل۔ تحفۃ الطلبہ۔ اقامۃ الحجہ۔ افادۃ الخیر۔ التحقیق العجیب۔ رفع الستر۔ سباحۃ الفکر۔ خیر الخبر۔ امام الکلام۔ غیث الغمام۔ آثار المرفوعہ۔ نزہۃ الفکر۔ زجر الشیبان والشیبہ۔ عمدۃ النصائح اللطائف المستحسنۃ الہسہسہ۔ القول المنثور۔ القول المنشور۔ آکام النفائس۔ الرفع والتکمیل۔ ظفر الامانی۔ الکلام المبرم۔ الکلام المبرور۔ السعی المشکور۔ قوت المغتدین۔ القول الاشرف۔ تحفۃ الاخیار۔ نخبۃ الانظار۔ التعلیق الممجد۔ تبصرۃ البصائر۔ تحفۃ الثقات۔ جمع الغرر۔ احکام الفطرہ۔ غایۃ المقال۔ ظفر الانفال۔ تدویر الفلک۔ درک المآرب فی شان ابی طالب، تحفۃ الامجادبذکر خیر الاعداد۔ آپ کے مفصل احوال ’’حسرۃ الفحول لوفاۃ نائب الرسول ‘‘میں جناب مولانا عبدالباقی صاحب مدظلہ نے تحریر فرمائے ہیں آپ کا عقد دختر مولوی مہدی بن ملامفتی محمد یوسف رحمۃ اللہ علیہماسے ہوا۔ ایک دختر زوجہ مفتی محمد یوسف بن مولوی محمد قاسم صاحب کو چھوڑ کر ۲۹ ربیع الاول یوم دوشنبہ ۱۳۰۴ہجری میں بعمر ۳۹ سال وفات فرمائی اور باغ میں حضرت مولانا احمد انوار الحق قدس اللہ سرہ العزیز کے مدفون ہوئے۔
(ماخوذ احوال علماء فرنگی محل ص ۶۳ تا ۶۴؍مولوی شیخ الطاف الرحمن صاحب ؍ مطبع مجتبائی لکھنو 1324ھ)
حضرت بدیع الدین رفاعی رحمۃ اللہ علیہ
پیدایش ۱۲۲۹ھ قندھار شریف،وفات ۱۳۰۹ھ م۱۸۹۱ء بلدہ حیدرآباد
یہ بزرگ قندہا ر ضلع ناندیڑ(ریاست مہاراشٹرا) کے مشہور صاحب علم صوفی اور حضرت سید علی سانگڑ ے سلطان مشکل آسان رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۸۴۶ھ) کی اولاد سے تھے ، سلسلہ نسب اس طرح ہے، سیدشاہ بدیع الدین رفاعی قندہاری بن سید شاہ محمد بن سید شاہ جلال الدین رفاعی خاں بن سید شاہ نجم الدین رفاعی بن سید شاہ سالار ثانی بن سید شاہ احمدثانی بن سید شاہ سالار بن سید شاہ میرانجی بن سید معین الدین بن سید احمد منجھلے چلہ داربن سیدعلی سانگڑے سلطان مشکل آسان قندہاری رحمۃ اللہ علیہ ۔
خاندانی سلسلہ میں اپنے ہم جد سید شاہ برہان اللہ حسینی سروری (متوفی۱۲۷۰ھ) سجادہ درگاہ سانگڑے سلطانؒ کے مرید او رخلیفہ تھے ، مولانا انواراللہ خاں(بہادر) فضیلت جنگ مرحوم استاد رئیس دکن نواب میرعثمان علی خاں آصفجاہ سابع ان ہی کے شاگرد تھے شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے فرزند حضرت سید شاہ عنایت اللہ حسینی شہید ؒ (۱۲۷۳ھ تا ۱۳۲۶ھ) تھے جو علامہ محی الدین قادری زورؔ کے حقیقی دادا ہوتے تھے۔
آخری زمانے میں شاہ صاحبؒ اپنے فرزندصاحب عالم سیدشاہ عنایت اللہ حسینی شہیدؒ کے یہاں حیدرآبادچلے آئے تھے او راپنی تمام عمر کے آخری پندرہ سال یہیں گزارے اسی (80)سال کی عمرمیں بعارضہ بخار وپیچش بتاریخ ۸؍محرم الحرام ۱۳۰۹ھ م ۱۸۹۱ء آپ کا وصال ہوا او رمحی الدین صاحب کے تکیہ میں واقع محلہ چمپا دروازہ جہاںاب سٹی کالج کی عمارت ہے دفن ہوئے چونکہ طغیانی رود موسیٰ کے باعث حضرت ؒ کے مزار کا نشان باقی نہ رہا تھا ، اس لئے درگاہ حضرت مشکل آسان ثانی ؒ میں حضرت شاہ صاحب سے متعلق ایک کتبہ قطعہ تاریخ بطور یادگار سنگ مزار نصب کیا گیا ہے۔ (دیکھئے : مشاہیر قندھار دکن؍ پروفیسر اکبر الدین صدیقی ص ۳۹، مشکل آسان ثانی ص ۳۳تا ۴۹)
کتبہ : یہ کتبہ حضرت مشکل آسان ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے گنبد کے اندر مزار شریف کے سرہانے کی دیوار میں درمیانی کمان کے بائیں جانب نصب ہے کتبہ نہایت ہی خوش وضع طریقے پر مستطیل و مصفا سنگ سیلو میں کندہ ہے اور نہایت خوش خط اورشاندار ہے ۔
الحمد للہ علی کل حال
اسی گنبد شریف یا اس کے قرب و جوارمیں حضرت سید شاہ غلام محمد ابوالبرکات قدس سرہٗ کے حقیقی داد ا حضرت سید شاہ بدیع الدین رفاعی القندہاری دفن ہیں جو حضرت فضیلت جنگ مولانا انوار اللہ قادری الچشتی القندہاریؒ کے استاد تھے اور جن کاوصال اپنے فرزند حضرت صاحب عالم سیدشاہ عنایت اللہ حسینی شہیدؒ کے مکان میںواقع محلہ چمپا دروازہ جہاں اب سٹی کالج کی عمارت ہے ۸؍محرم الحرام ۱۳۰۹ھ کو ہوا تھا او رجسکا مادہ تاریخ محمدقطب الدین مرحوم خطیب قندہارنے داغ شد۱۳۰۹ھ نکالاتھاجس کو حضرت ابوالبرکات زعمؔ قدس سرہٗ نے ایک قطعہ میں منظوم کرکے اپنے سوانح حیات میں درج فرمایا۔ چونکہ طغیانی رو دِ موسیٰ کے باعث حضرت کے مزار کا نشان باقی نہ رہا تھا اس لئے یہ قطعہ تاریخ بطور یاد گارسنگِ مزار یہاں نصب کیاگیا ۔
حضرت بدیع دیں کہ جدّ حقیقی ام
زیں رہگذر چوں راہی فردوس باغ شد
ازبہرِ فاتحہ بہ مزارش چو رفتہ ایم
آوازایں زغیب برآمدکہ داغ شد
(۱۳۰۹ھ)
(تلخیص تذکرہ اولیائے حیدرآباد، حصہ چہارم ص ۵ تا ۷
تالیف مراد علی طالعؔ؍ ناشر مینار بک ڈپو حیدرآباد (اے ۔پی) ۱۹۷۵ء)
µµµ