islam
راوی میں طعن کے اعتبار سے خبرِ مردود کی اقسام
طعن سے مراد راوی میں ایسی نامناسب صفات کا ہونا ہے جس کی وجہ سے حدیث مردود ہوجائے اس اعتبار سے خبرِ مردود کی چار قسمیں ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔موضوع (۲)۔۔۔۔۔۔متروک(۳)۔۔۔۔۔۔منکر(۴)۔۔۔۔۔۔معلل
(۱)۔۔۔۔۔۔موضوع:
جو جھوٹی بات گھڑ کر سرکا رصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی طرف بطورِ حدیث منسوب کردی گئی ہو اسے موضوع حدیث کہتے ہیں۔(۱)
نوٹ:
کسی حدیث پرموضوع ہونے کا حکم ظنِ غالب سے لگایا جاتاہے
قطعیت کے ساتھ کسی حدیث کو موضوع نہیں کہاجاسکتا، موضوع حدیث کو بیان کرنا جائز نہیں مگر یہ کہ اس کا موضوع ہونابیان کردیا جائے۔
مثال:
”اَلْبَاذِنْجَانُ شِفَاءٌ مِّنْ کُلِّ دَاءٍ” بینگن ہر بیماری کیلئے شفا ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔متروک:
وہ حدیث جس کی سند میں کوئی ایسا راوی آجائے جس پر کذب کی تہمت ہو۔تہمت کذب کے دو اسباب ہیں:(۱) وہ حدیث صرف اسی راوی سے مروی ہواور قواعد معلومہ کے خلاف ہو۔(۲) اس شخص کا عادۃ جھوٹ بولنا مشہورومعروف ہو لیکن حدیث نبوی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم میں اس کا جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو۔
مثال:
”عمرو بن شمر جعفی جابر سے وہ ابو طفیل سے اور وہ حضرت علی اور حضرت عمار رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے اور نویں ذی الحجہ کے دن صبح کی نماز سے تکبیرات تشریق شروع فرماتے اور ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز پر تکبیرات ختم کرتے تھے۔”امام نسائی اور دار قطنی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں راوی عمرو بن شمر متروک الحدیث ہے۔
نوٹ:
متروک میں موضوع کی بہ نسبت ضعف کم ہوتاہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔مُنْکَر:
وہ حدیث جس کا راوی فحش غلطی کرنے یاکثرتِ غفلت یا فسق کے ساتھ مطعون ہو۔(حدیث منکر کی ایک اور تعریف کی جاتی ہے جوکہ گذرچکی ہے)
مثال:
ترجمہ:
ابوزکیر یحیی بن محمد بن قیس مذکورہ سند سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کچی کھجور کو چھواروں کے ساتھ اور پرانی کھجور کونئی کے ساتھ ملا کر کھاؤ کیونکہ شیطان غضبناک ہوتاہے کہ ابن آدم اتنا عرصہ زندہ رہا یہاں تک کہ پرانی کھجور کو تازہ کے ساتھ ملا کر کھانے لگا۔”
امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا: کہ یہ حدیث منکر ہے کیونکہ اسے روایت کرنے میں یحیی بن محمد بن قیس منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔
(۴)۔۔۔۔۔۔مُعَلَّل:(۱)
وہ حدیث جس کے راوی میں طعن اس کے وہم کی وجہ سے ہو۔یعنی راوی وہم کے سبب ایک حدیث کو دودسری میں داخل کردے ،یامرفوع کو موقوف یا موقوف کو مرفوع قرار دے دے وغیرہ۔
نوٹ:
جب قرائن کو جمع کیا جائے تو حدیثِ معلل کا پتہ چلتاہے۔
مثال:
یعلی بن عبید سفیان ثوری سے وہ عمرو بن دینار سے اور وہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے اور وہ سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”بائع اور مشتری کو خیار ہے۔”اس سند میں یعلی بن عبید نے غلطی سے عمرو بن دینار کو سند میں ذکر کیا ہے حالانکہ سفیان ثوری عمرو بن دینار سے نہیں بلکہ عبد اللہ بن دینار سے روایت کرتے ہیں کیونکہ سفیان کے تمام اصحاب (شاگرد) اس حدیث کو عبد اللہ بن دینار سے روایت کرتے ہیں۔
ان کا حکم:
یہ خبر مردود کی اقسام میں سے ہیں اور خبرِمردود کا حکم گذرچکا ہے۔ (1) …..حدیث معلول كے لیے ضعیف راوی ضروری نہیں (فتاوی رضویہ 206/5)
(مشق)
سوال نمبر (1):موضوع حدیث کی تعریف ومثال بیان کریں۔
سوال نمبر (2):متروک کی تعریف ومثال بیان کریں۔
سوال نمبر (3):منکر کی تعریف و مثال بیان فرمائیں۔
سوال نمبر (4):معلل کی تعریف ومثال بیان فرمائیں۔
سوال نمبر (5):ان سب کا حکم بیان فرمائیں۔
سوال نمبر (6):خبرمردودکی مندرجہ بالا تقسیم کس اعتبار سے کی گئی ہے؟
1۔۔۔۔۔۔٭ضعفِ راویان کے باعث حدیث کو موضوع کہہ دینا ظلم و جزاف ہے۔
(فتاوی رضویہ ۵/۴۵۳)
٭بارہا موضوع یا ضعیف کہہ دینا ایک سند کے اعتبار سے ہوتا ہے نہ کہ اصل حدیث کے اعتبار سے۔ (فتاوی رضویہ ۵/۴۶۸)
٭ابن جوزی نے جس جس حدیث کو غیر صحیح کہا اس کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔
(فتاوی رضویہ ۵/۴۴۱)
٭حدیث موضوع بالاجماع ناقابلِ انجبار، نہ فضائل وغیرہ کسی باب میں لائقِ اعتبار۔ (فتاوی رضویہ ۵/۴۴۰)