islam
مدار ومصدر کے اعتبار سے حدیث کی اقسام
اس اعتبار سے حدیث کی چار اقسام ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔حدیث قدسی (۲)۔۔۔۔۔۔حدیث مرفوع
(۳)۔۔۔۔۔۔حدیث موقوف (۴)۔۔۔۔۔۔حدیث مقطوع
(۱)۔۔۔۔۔۔حدیث قدسی: (۱)
وہ حدیث جس کے راوی سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ہوں اور نسبت اللہ تعالی کی طرف ہو۔
مثال:
سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ”مَنْ عَادَ لِيْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہ، بِالْحَرْبِ”
ترجمہ:جس نے میرے کسی ولی(دوست)سے عداوت کی میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتاہوں۔
(۲)۔۔۔۔۔۔حدیث مرفوع:
وہ قول، فعل، تقریر یا صفت جس کی نسبت سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی طرف کی جائے۔
مثال: ”عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ” امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ”
حکم: حدیث مرفوع کبھی متصل ،منقطع و مرسل وغیرہ ہوتی ہے لہذا یہ جس قسم کے تحت آئے گی اسی کا حکم اختیار کرے گی۔
(۳)۔۔۔۔۔۔حدیث موقوف:
وہ قول فعل یا تقریر جس کی نسبت صحابی کی طرف کی جائے۔
مثال:’ ‘قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ لَا خَیْرَ فِيْ عِبَادَۃٍ لَا عِلْمَ فِیْہَا” یعنی اس عبادت میں کوئی خیر نہیں جس میں علم نہ ہو۔”(تاریخ الخلفاء، عربی ص۱۴۷)
(۴)۔۔۔۔۔۔حدیث مقطوع:
وہ قول یا فعل جو کسی تابعی کی طرف منسوب ہو۔
مثال: ” قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ: اَلصَّبْرُ کَنْزٌ مِّنْ کُنُوْزِ الْجَنَّۃِ”
ترجمہ:حضرت حسن بصری (تابعی)رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ (تفسیر الحسن البصری عربی،۱/ ۲۱۱(
مقطوع اور منقطِع میں فرق:
حدیث مقطوع کا تعلق متن سے ہے یعنی وہ متن جو تابعی کی طرف منسوب ہو وہ حدیث مقطوع ہے جبکہ حدیث منقطع کا تعلق سند سے ہے یعنی وہ حدیث جس کی سند میں سے کوئی راوی ساقط ہو جائے متن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(مشق)
سوال نمبر (1):حدیث قدسی کی تعریف ومثال بیان کریں۔
سوال نمبر (2):حدیث مرفوع کی تعریف ومثال بیان فرمائیں۔
سوال نمبر (3):حدیث موقوف کی تعریف ومثال بیان فرمائیں۔
سوال نمبر (4):حدیث مقطوع کی تعریف ومثال بیان فرمائیں۔
سوال نمبر (5):مقطوع و منقطع کا فرق بیان فرمائیں۔
سوال نمبر (6):حدیث کی مندرجہ بالا تقسیم کس اعتبار سے کی گئی ہے؟
1۔۔۔۔۔۔(i)یاد رہے کہ قرآن کریم کے الفاظ ومعانی دونوں من جانب اللہ ہوتے ہیں بخلاف حدیث قدسی کے کہ اس میں معانی اللہ عزوجل کی جانب سے اور الفاظ سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی طرف سے ہوتے ہیں۔(ii) حدیث قدسی کی تعداد دو سو(200) سے زائد ہے۔