فقراء ومساکین کارُتبہ
فقراء ومساکین کارُتبہ
حضرت سیدناابراہیم بن بشا ر خراسانی قدّس سرہ الربانی سے مروی ہے، ایک مرتبہ مَیں ، حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم ، ابو یو سف غسولی اور ابوعبداللہ سنجاری رحمہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اسکندریہ کی طرف روانہ ہوا۔ جب ہم اردن کی نہر کے قریب پہنچے توآرام کی خاطر بیٹھ گئے ۔حضرت سیدنا ابو یوسف رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس خشک روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے انہوں نے وہ ہمارے سامنے رکھ دیئے، ہم نے وہ کھائے اور اللہ عزوجل کا شکر ادا کیا ، پھرمیں جلدی سے نہر کی جانب بڑھا تاکہ پینے کے لئے پانی لاؤں مگر حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم مجھ سے پہلے نہرمیں داخل ہوگئے۔ پانی ان کے گھٹنوں تک پہنچ گیا انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر
اپنی ہتھیلیوں سے پانی پیا ۔ پانی پینے کے بعد اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہہ کرنہر سے باہر تشریف لائے پھر پاؤں پھیلا کر بیٹھ گئے اورفرمایا: ”اے ابو یوسف رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ! اگر بادشاہ اور ان کے شہزادے ہماری نعمتوں اور سکون کو جان لیں تو وہ ہمیں تلواروں کے ساتھ مارنے لگیں۔میں نے عرض کی:” حضور! لوگ نعمتوں اورراحت وسکون کے توطالب ہیں مگر انہوں نے سیدھے راستے کو چھوڑ دیا ہے ۔” میری اس بات پرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ مسکرا دیئے۔
حضرت سیدنا ابراہیم بن بشار علیہ رحمۃاللہ الغفار مزید فرماتے ہیں:” ایک شام ہم نے حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظمکے ساتھ گزاری ۔ ہم روزے سے تھے لیکن افطاری کے لئے ہمارے پاس کوئی چیز نہ تھی ۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے جب مجھے غم وحزن کے عالم میں دیکھاتو فرمایا :” اے ابن بشار علیہ رحمۃاللہ الغفار ! دیکھو!اللہ عزوجل نے فقراء ومساکین پر نعمتوں اور راحتوں کی کیسی چھماچھم برسات فرمائی ہے کہ کل بروزِقیامت ان سے زکوٰۃ اور حج و صدقہ کے متعلق سوال نہیں فرمائے گا ۔ بلکہ فقرا ء و مساکین کے بارے میں ان لوگوں سے سوال کیا جائے گا جودنیا میں امیر ہیں لیکن آخرت میں فقیر ہوں گے،او ر جودنیا میں معزز ہیں مگر آخرت میں ذلیل و رسوا ہو ں گے ۔ لہٰذا تم غم نہ کر و، جس رزق کااللہ عزوجل نے ذمہ لیا ہے وہ عنقریب تجھے مل کر رہے گا۔ اللہ عزوجل کی قسم! بادشاہ اور غنی تو ہم ہیں۔ ہم ہی تو ہیں جنہیں دنیا میں ہی بہت جلد راحت وسرور میسر ہے ،جب ہم اللہ عزوجل کی اطاعت میں ہوں تو ہمیں کچھ پرواہ نہیں ہوتی کہ ہم کس حال میں صبح وشام کر رہے ہیں۔ ہم ہر حال میں اللہ عزوجل کے شکر گزار ہیں۔”
پھر آپ رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ نماز کے لئے کھڑے ہوگئے ۔ میں بھی اپنی نماز ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوگیا ۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک آدمی آٹھ روٹیاں اور بہت ساری کھجوریں لے کر ہمارے پاس آ یا۔ اس نے سلام کیا او رکہا ـ:”اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے، یہ کچھ کھانا حاضرِ خدمت ہے، تناول فرمائیے ۔” حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم نے مجھ سے فرمایا:” اے مغموم! کھا نا کھاؤ۔”
ابھی ہم کھانا کھانے بیٹھے ہی تھے کہ ایک سائل آگیا اس نے کہا:”مجھے کچھ کھانا کھلاؤ ۔”آپ رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ نے تین روٹیاں اورکچھ کھجوریں سائل کودے دیں تین روٹیاں مجھے عطافرمائیں اوردوروٹیاں خودتناول فرمائیں۔ پھرارشادفرمایا: ”مؤاسات (یعنی غمخواری ) مؤمنین کے اخلاق میں سے ہے ۔”
ابن بشار علیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں:” ایک مرتبہ میں ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاعظم کے ساتھ طرابلس روانہ ہوا۔ میرے پاس دو روٹیوں کے علاوہ او رکوئی شے نہ تھی ۔راستے میں ایک سائل نے سوال کیا توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے فرمایا: ”جو کچھ تیرے پاس ہے وہ اس سائل کودے دے” اس معاملہ میں مَیں نے تھوڑی سی سستی کی، توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے مجھ سے
فرمایا :” کیا بات ہے ،سائل کو روٹی دینے میں تم سستی کیوں کر رہے ہو؟”یہ سن کر میں نے دونوں روٹیاں توسائل کو دے دیں لیکن میں پریشان تھا ۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ”کل تو اس ذات سے ملاقات کریگا جس کے ساتھ اس سے پہلے تو شرف ِملاقات حاصل نہیں کرسکا ۔ اور توان تمام چیزوں کااجر بھی پائے گا جنہیں تو آگے بھیجتا رہا ۔اور جو چیزیں تو دنیا میں چھوڑ جائے گاوہ تجھے کوئی فائدہ نہ دیں گی۔ لہٰذا اپنے لئے آگے کچھ مہیا کر ، تو نہیں جانتا کہ کب اچانک تجھے اپنے رب عزوجل کی طر ف سے بلاوا آجائے ۔ ”
آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی اس گفتگونے مجھے رُلا دیا ۔ اور میری نظر وں میں دنیا کی قدرو قیمت بہت کم کردی ۔ جب انہوں نے مجھے روتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا:” ہاں اسی طر ح زندگی بسر کرو۔”
ابن بشار علیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں کہ” ایک مرتبہ میں ، حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم ، ابویوسف غسولی اور ابو عبداللہ سنجاری رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے ساتھ سفر پرتھا، ہم ایک قبر ستان کے پاس سے گزرے تو حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم ایک قبر کے پاس آئے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور فرمایا :” اے فلاں ! اللہ عزوجل تجھ پر رحم فرمائے ۔” پھر دو سری قبر کے پاس آئے اور اسی طرح کہا۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے سات قبروں کے پاس جا کر اسی طر ح کہا۔ پھران قبروں کے درمیان کھڑے ہوگئے اور باآواز بلند اس طرح ندا کی:” اے فلاں بن فلاں! اے اہل قبور!تم فو ت ہو گئے اور ہمیں پیچھے چھوڑ آئے ۔ ہم بھی جلد ہی تم سے ملنے والے ہیں ۔” پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہرونے لگے اور کسی گہری سوچ میں گم ہوگئے کچھ دیر اسی طرح بیٹھے رہے پھر آنسوؤں سے تربتر چہرے کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :” اے میرے بھائیو!آخرت کی تیاری کے لئے تم پر جدّو جہد اور جلدی لازم ہے،جلد ی کرو اور آخرت کی تیاری میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرو،بے شک تیز رفتاری میں اپنے مدِّ مقابل پر وہی سبقت لے جاتا ہے جو تیز چلتا ہے۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبیالامین صلی اللہ تعالی علی وسلم)