Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

تنبیہ:

اس گناہ کے بارے میں آنے والی شدید وعید کی بناپراسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیاہے، بلکہ حدیثِ مبارکہ میں اسے اکبر الکبائر(یعنی سب سے بڑا) گناہ کہا گیا ہے۔
(10)۔۔۔۔۔۔ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے دریافت کیا گیا کبیرہ گناہ کون سے ہیں ؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”اللہ عزوجل کا شریک ٹھہرانا، اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس ہونا اور اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیرسے بے خوف ہونا اور یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔”
    (المعجم الکبیر،الحدیث:۸۷۸۴،ج۹،ص۱۵۶)
    اس روایت کے بارے میں زیادہ شبہ تو یہ ہے کہ یہ موقوف ہے کیونکہ اسی گناہ کے اکبر الکبائر ہونے کی صراحت حضرت سیدناابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے جیسا کہ امام عبد الرزاق اور امام طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہمانے ان سے حدیث روایت کرتے ہوئے نقل کیاہے۔
فائدہ: ان آیات میں اللہ عزوجل کے لئے ”مکر” کا لفظ استعمال ہوا ہے، حالانکہ اس کا حقیقی معنی اللہ عزوجل کے لئے محال ہے، جبکہ اللہ عزوجل کایہ فرمان عالیشان تقابل کے باب سے ہے یعنی
 (1) وَمَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللہُ ؕ وَاللہُ خَیۡرُ الْمٰکِرِیۡنَ ﴿٪54﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اور کافروں نے مکرکیااور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیرفرمائی اور اللہ سب سے بہترچھپی تدبیر والا ہے۔ (پ3، اٰل عمران:54)
(2) وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا ۚ
ترجمۂ کنزالایمان: اور برائی کابدلہ اسی کی برابربرائی ہے۔(پ25، الشورٰی: 40)
(3) تَعْلَمُ مَا فِیۡ نَفْسِیۡ وَلَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیۡ نَفْسِکَ ؕ (پ7، المائدۃ:116)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ترجمۂ کنزالایمان:تو جانتاہے جو میرے جی میں ہے اورمیں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔
    ایک قول یہ ہے کہ تقابل کا معنی یہ ہے کہ اللہ عزوجل کو مَکْرسے موصوف کرنااسی وقت جائز ہے جب اس کے ساتھ دوسرا ایسا لفظ آئے جسے مَکْرسے موصوف کرنا درست ہو، مگر اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے اس فرمان عالیشان:
ترجمۂ کنزالایمان:کیااللہ کی خفی تدبیرسے بے خبرہیں تو اللہ کی خفی تدبیر سے نڈرنہیں ہوتے۔(پ9، الاعراف:99)
میں مکرکالفظ کسی مقابل کے بغیر آیا ہے، کیونکہ بسا اوقات اللہ عزوجل کو مَکْر کے ساتھ متصف کرنا درست بھی ہوتا ہے، کیونکہ مَکْرکا لغوی معنی پردہ ڈالنا یا چھپا دینا ہے جیسا کہ کہتے ہیں ” مَکَرَاللَّیْلُ اَیْ سَتَرَ بِظُلْمَتِہٖ مَاھُوَ فِیْہٖ” یعنی رات نے مکر کیا مطلب یہ کہ رات نے اپنے اندھیرے سے اسے چھپا ديا اور کبھی مکر کا لفظ حیلہ بازی، دھوکا دینے اور شرارت پر بھی بولا جاتا ہے، 


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اسی وجہ سے بعض لغویوں نے اسے فساد ڈالنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے، جبکہ بعض نے حیلہ کے ذریعے غیر کو اپنے مقصد سے پھیر دینے سے تعبیر کیا اور یہ آخرالذکرمعنی کبھی قابلِ تعریف ہوتا ہے جیسے برائی سے ہٹا کر خیر کی طرف پھیر دینا اور اللہ عزوجل کایہ فرمان وَاللہُ خَیْرُالْمَاکِرِیْنَ اسی معنی پر محمول ہے اور کبھی یہ تعبیر مذموم ہوتی ہے، جیسے کسی کو خیر سے ہٹا کر شر کی طرف پھیر دینا اور اللہ عزوجل کے اس فرمانِ عالیشان میں اسی معنی کاذکرہے:

 وَ لَا یَحِیۡقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ ؕ
ترجمۂ کنزالایمان:اوربُر اداؤ (فریب )اپنے چلنے والے ہی پرپڑتا ہے۔(پ22، فاطر:43)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!