Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

فضائلِ اولیاء رحمہم اللہ تعالٰی کا بیان

فضائلِ اولیاء رحمہم اللہ تعالٰی کا بیان

حمدِ باری تعالیٰ:

تمام تعریفیں اس اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے جس نے اپنے بندوں میں سے ان کوچُنا جو عبادت کے قابل تھے اور ان کو خدمت گار بنایا، ان کے کئی گروہ بنائے، انہیں اپنی خاص نظرِعنایت سے نوازا، ان سے پختہ عہد لیا،ان کو صاف کیا اور انہیں چن لیا، ان کو بلاکر قریب کیااور ان کو وصل اور لقاء کے ساتھ زندگی بخشی، ان کو نفس کی پستی سے بارگاہ اُنْسِیَّت میں بلند کیا، تسبیح و تقدیس کے جام میں شرا بِ طہور(یعنی پاکیزہ شراب) سے انہیں سیراب کیا تو ان میں سے ہر ایک اُس شراب کے سرور میں خوش اور اس کا خطاب سننے میں مدہوش ہے اور ان میں سے ہرایک اپنے حلقۂ احباب میں بلند رتبہ ہوا اور اس نے اپنے پیاروں کے لئے سحری کے وقت تَجَلِّی فرمائی پس محب نے زندگی کا مزا اٹھایا اور دیدار کرنے میں کامیاب ہوگیاجبکہ ان میں سے وجد کا زخمی کیا ہوا کانپ کر زمین پر تشریف لے آیا، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کے ظاہری وجود کو فناکیا اور ہمیشہ کی بقا سے نوازا، اور انہوں نے آخری سانس بھی اس کے نام پر قربان کر دیا، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کو اپنی محبت کے راز عطا کئے تو انہوں نے اس کی غیرت سے خوف کھاتے ہوئے اپنے اوپر غیر کے دروازے بند کر دیئے ،پس اس کی مشک دلوں کے مشام کی طرف سے مہکی تو دلوں نے اپنے محبوب کی طرف سے اس مشک کو سونگھ لیا،اورایک خفی راز اور اس کی پاکیزہ مہک حضرتِ سیدنا سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے راز کی طرف سے گزر گئی تو وہ اس کے آثار پر سیدھے چلتے گئے،اورحضرتِ سیدنا شبلی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی طرف سے گزری تو وہ محبت کی دلہنوں کی طرح آراستہ ہو کر رات گزارنے لگے ،حضرتِ سیدنا ابویزیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید کی طرف سے گزری تو انہوں نے مزید کی صدا لگائی اور ان کی حرارت بڑھ گئی اور حضرت سیدنا جنید بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی کی طرف سے گزری تو وہ محبتِ الہٰی کی قیدمیں مزید پختہ ہوگئے اور حضرتِ سیدنا فضیل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف سے گزری توپوری رات ڈاکہ زنی کے بعد توفیق کے گھوڑوں پر سوار ہوگئے اور انہوں نے اپنی تمام تر کوشش عبادتِ الہٰی میں لگا دی، اور حضرتِ سیدنا خواص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کی طرف سے گزری تو وہ اخلاص کے سمندروں میں غوطہ زن ہوکر خالص جواہر چننے لگے، حضرتِ سیدنا سمنون علیہ رحمۃ اللہ القدوس کی طرف سے گزری تو ان پر محبت اور وجد کے طریقے ظاہر ہوگئے اور وہ پہاڑ میں دیوانوں کی طرح پھرنے لگے اورمحبتِ الٰہی عزوجل میں آوازیں لگانے اور سسکیاں لے کر مسلسل آنسو بہانے لگے۔شاعر اللہ عَزَّوَجَلّ کے سچے محبین کو مخاطب کرکے کہتا ہے۔

اَطْعَمْتُمُوْنِیْ فِی الْوِصَالِ وَفِی اللِّقَا وَھَجَرْتُمُوْنِی فَالْتَہَبْتُ تَحَرُّقَا

یَا مَالِکِیْ رِقِّیْ وَغَایَۃَ مَطْلَبِیْ رِفْقًا فَقَدْذَابَ الفُؤَادُ تَشَوُّقَا
حَاشَاکُمُوْ اَنْ تَطْرُدُوْنِیْ سَادَتِیْ وَبِحُبِّکُمْ قَلْبِیْ غَدَا مُتَعَلِّقَا
یَا سَادَتِیْ لَمْ یَہِنْ لِیْ مِنْ بَعْدِکُمْ عَیْشٌ وَلَا عَایَنْتُ شَیْئًا مُوْنِقَا
اِنْ مِتُّ مِنْ وَجْدِیْ وَفَرْطِ صَبَابَتِیْ شَوْقًا اِلٰی رُؤْیَاکُمْ لَکُمْ الْبَقَا
یَا نَفْسُ قَدْ زَالَ الْعَنَا فَتَمَتَّعِیْ بِوِصَالِ مَنْ تَھْوِی فَقَدْ زَالَ الشِّقَا
وَجَلَا الْحَبِیْبُ جَمَالَہٗ فَلِاَجْلِ ذَا اَصْبَحْتُ مِنْ وَجْدِیْ بِہِ مُتَمَزِّقَا
ھَاکُمْ فُؤَادِیْ فَتَشُوْہ، فَاِنْ تَرَوْا فِیْہِ لِغَیْرِکُمُوْ ھَوٰی وَتَشَوُّقَا
فَتَحَکَّمُوْا فِیْہِ بِمَا یَرْضِیْکُمُو یَا مَنَیَّتِیْ اِنْ خَانَ یَوْمًا مُوْثِقَا
وَاِذَا فَنَیْتُ بِحُبِّکُمْ فَیَحِقُّ لِیْ اِنَّ الْفَنَاءَ بِحُبِّکُمْ عَیْن الْبَقَا

ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔تم نے مجھے وصال اور ملاقات کا شرف بخشا پھر مجھے چھوڑ دیا تو میں محبت کی آگ میں جلنے لگا۔
(۲)۔۔۔۔۔۔اے میرے مالکو اور میرے مقصد کی انتہا! مہربانی فرماؤکیونکہ میرا دل شوقِ دیدار سے پِگھل رہا ہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔اے میرے سردارو! میں اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم مجھے دُھتکار دو کیونکہ میرے دل کو تم سے محبت ہو چکی ہے۔
(۴)۔۔۔۔۔۔اے میرے سردارو! تمہارے بعد میرے لئے کوئی مزا نہیں اور نہ ہی مجھے کوئی چیز دلکش لگی۔
(۵)۔۔۔۔۔۔اگر میں تیرے دیدار کی شدیدمحبت اوراپنے وجد سے مر جاؤں تو یہ تیرے لئے بقا ہے۔
(۶)۔۔۔۔۔۔اے نفس! اب مشقت اور شقاوت زائل ہوچکی ہے اس لئے تو اپنے محبوب کے وصال سے لطف اٹھا لے۔
(۷)۔۔۔۔۔۔حبیب نے اپنا جمال ظاہر کیا تو اس جمال کو دیکھ کرمیں اس کی محبت کی وجہ سے تار تار ہوگیا۔
(۸)۔۔۔۔۔۔(اے محبوبو!) یہ میرا دل حاضرہے، اگر اس میں اپنے غیر کی محبت پاؤ تو جلا ڈالو۔
(۹)۔۔۔۔۔۔اور اگر اس میں کسی اور کی محبت پاؤتواپنی مرضی کے مطابق جو چاہوسزا دو۔ ہائے کاش! میں مر جاؤں اگر میرا دل کسی دن(محبت کے) پختہ وعدے میں خیانت کرے۔
(۱0)۔۔۔۔۔۔اگر میں تمہاری محبت میں فنا ہو جاؤں تو میں اس کا سزاوار ہوں کیونکہ تمہاری محبت میں فنا ہونا حقیقت میں بقا ہے۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!