کبيرہ نمبر207: مطا لبہ کے باوجودغنی کابلاعذ رقرض اداکرنے میں ٹال مٹول کرنا
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”قرض کی ادائیگی میں مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم ميں سے کسی کو مال دار شخص کا حوالہ ديا جائے تووہ اسی سے مانگے۔”
( صحیح مسلم ،کتاب المساقاۃ ، باب تحریم مطل الغنی ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۴۴۰۲ ، ص ۹۵۰)
(2)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”قدرت رکھنے والے کا ٹال مٹول کرنا اس کے مال اور سزا کو جائز کر ديتا ہے۔”
(صحیح ابن حبان ،کتاب الدعوی،باب عقوبۃ الماکل،الحدیث: ۵۰۶۶،ج۷،ص۲۷۳)
يعنی لوگوں سے اس کی ٹال مٹول اور برے معاملے کا ذکر کرنا جائز ہے کيونکہ مظلوم کے لئے صرف ظالم کے اس ظلم کا ذکر کرنا جائز ہے جو ظالم نے اس کے ساتھ کيا ہے اور اسے قيد کرنا يا مارنا بھی جائز ہے۔
(3)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اللہ عزوجل ظلم کر نے والے امير، بوڑھے جاہل اور تکبر کرنے والے فقير کو ناپسند فرماتا ہے۔”
( المعجم الاوسط ، الحدیث: ۵۴۵۸ ، ج۴ ،ص ۱۳۰)
(4)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”اللہ عزوجل اس قوم کو پاک نہيں کرتا جس کا کمزور طاقتور سے پريشان ہوئے بغير اپنا حق وصول نہيں کر سکتا۔” مزید ارشاد فرمايا:”جو قرض دينے والے سے اس حال ميں جدا ہوا کہ وہ اس سے راضی تھا تو اس کے لئے زمين کے چوپائے اور پانی کی مچھلیاں دعا کرتی ہيں۔” ( المعجم الکبیر ، الحدیث: ۵۹۱ ، ج۲۴ ، ص ۲۳۳)
(5)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کيتاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جو بندہ قدرت کے باوجود اپنے قرض دينے والے سے ٹال مٹول کرتا ہيتو ہر دن، رات، جمعہ اور مہينہ ميں اس کا ظلم لکھا جاتا ہے۔”
(المعجم الکبیر ، الحدیث: ۵۹۲ ، ج۲۴ ، ص ۲۳۴،بتغیر قلیل)
(6)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدتنا خولہ زوجہ حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے:”ايک آدمی کی سیدعالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم پرایک وسق (60 صاع )کھجوريں قرض تھيں، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ايک انصاری کو حکم ديا کہ اسے ادا کرے، اس نے کم کھجوريں ادا کيں تو اس شخص نے لينے سے انکار کر ديا، انصاری نے کہا:”کيا تو اب سرکارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس جائے گا؟” اس نے کہا:”کيوں نہيں، اور کون شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے زيادہ عادل ہو سکتا ہے۔” يہ سن کر حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کيتاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی آنکھيں اشکبار ہو گئيں، پھر ارشاد فرمايا:”اس نے سچ کہا، مجھ سے زيادہ کون عدل کرنے کا حق دار ہے، اللہ عزوجل اس قوم کو پاک نہيں کرتا جس کا کمزور طاقتور سے اپنا حق پريشان ہوئے بغير وصول نہيں کر سکتا۔” پھر ارشاد فرمايا:”اے خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! شما ر کرو اور اسے پورا ادا کرو، جو قرض دينے والے سے اس حال ميں جدا ہوا کہ وہ اس سے راضی تھا تو اس کے لئے زمين کے چوپائے اور سمندر کی مچھلیاں دعا کرتی ہيں، نیز جو بندہ قدرت کے باوجود اپنے قرض دينے والے سے ٹال مٹول کرتا ہيتو اللہ عزوجل ہر دن اور رات اس کا گناہ لکھتا ہے۔” (المعجم الاوسط ، الحدیث: ۵۰۲۹ ، ج ۴ ،ص ۱۰)
(7)۔۔۔۔۔۔سرکار ابد قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”وہ قوم پاک نہيں ہو سکتی جس کے کمزور کو اس کا حق پريشان کئے بغير نہ ديا جائے۔”
( المرجع السابق، الحدیث: ۵۸۵۰ ، ج ۴ ، ص ۲۴۰)
(8)۔۔۔۔۔۔ايک اعرابی کا سرکارِمدینہ،راحتِ قلب وسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر قرض تھا، اس نے شديد تقاضا کيايہاں تک کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم سے کہا ميں آپ سے جھگڑا کروں گا مگر يہ کہ آپ( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)ادا کر ديں۔” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسے جھڑکا اور کہا تيرا برا ہو جانتا نہيں کس سے بات کر رہا ہے؟” تو رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”صاحبِ حق کے ساتھ تمہيں کياہے؟” پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے حضرت سیدتنا خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو بلا بھيجا اور اُن سے فرمایا:”اگر تمہارے پاس کھجوريں ہيں تو ہميں قرض دے دے جب ہمارے پاس آئيں گی تو تمہيں ادا کر ديں گے۔” انہوں نے عرض کی:”جی ہاں، يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ميرے ماں باپ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر قربان ہوں۔”پس انہوں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کو کھجوريں قرض ديں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے اعرابی کاقرض بھی ادا کيا اور اسے کھلايا بھی تو اس نے کہا:”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے مجھے پورا بدلہ عطافرمايا ، اللہ عزوجل آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کو پورا بدلہ دے۔”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”یہی نیک لوگ ہیں کیونکہ وہ قوم پاک نہيں ہو سکتی جس ميں کمزور اپنا حق پريشان ہوئے بغير نہيں لے سکتا۔”
( سنن ابن ماجۃ،ابواب الصدقات ، باب لصاحب الحق سلطان ،الحدیث: ۲۴۲۶، ص ۲۶۲۲)
تنبیہ:
اسے بھی کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گيا ہے کيونکہ ظلم، عزت کا حلال ہونا اور سزا بڑی وعيدوں ميں سے ہے بلکہ ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی ايک جماعت نيتصريح کی ہے اور کہاہے کہ”اس ميں اتفاق ہے کہ جس نے حاکم کے حکم کے بعد قدرت کے باوجود قرض ادا نہ کيا تو حاکم کو اختيار ہے کہ اسے سخت سزا دے اور لوہے کے ساتھ سزا دے یہاں تک کہ وہ ادا کرے يا مر جائے۔جیساکہ نماز چھوڑنے والے کے بارے میں کہاگیاہے۔