اسلاف کا اندازِ تجارت
اسلاف کا اندازِ تجارت (1)
دُرود شریف کی فضیلت
رسولِ پاک،صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عظمت نشان ہے: جس نے دن اوررات میں میری طرف شوق ومحبت کی وجہ سے تین تین مرتبہ درودِ پاک پڑھااللہ عَزَّوَجَلَّ پرحق ہے کہ وہ اُس کے اُس دن اور رات کے گُناہ بخش دے۔(2)
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
دورِ اسلاف اور طرزِ تجارت
منقول ہے کہ ایک بُزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جو ’’واسط‘‘(3)کے مقام پر
تھے انہوں نے گندم سے بھری ایک کشتی بصرہ(1)شہرکی طرف بھیجی اور اپنے وکیل کو لکھا:جس دن یہ کھانا بصرہ پہنچے اُسی دن اسے بیچ دینا،اگلے دن تک تاخیر نہ کرنا۔چونکہ وہاں بھاؤ (Rate)بڑھنے کے امکانات تھے تو تاجروں نے وکیل کو مشورہ دیاکہ اگر اسے جمعہ کے دن تک مُؤخَّر کر لو تو دُ گنا نفع ہو گا۔چنانچہ اس نے جمعہ تک وہ گندم فروخت نہ کی جس کی وجہ سے اسے کئی گُنا فائدہ ہوگیا۔جب وکیل نے خوشی خوشی یہ واقعہ مالک کو لکھ کر بھیجا تو انہوں نےاسے جواب لکھا:اے شخص!ہم اپنے دین کی سلامتی کے ساتھ تھوڑے نفع پر ہی قناعت کر لیا کرتے ہیں مگرتم نے اس کے برخِلاف کِیا۔ ہمیں یہ پسند نہیں کہ اس میں کئی گُنا(دُنیوی)نفع ہو اور اس کے بدلے ہمیں دینی و اُخروی نُقصان پہنچے۔لہٰذا جیسے ہی تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو فوراً وہ تمام مال بصرہ کے فقرا پر صدقہ کر دینا۔ شاید ایسا کرنے سے میں ذخیرہ اندوزی کے گُناہ سے برابر برابر نَجات پا سکوں یعنی نہ تو میرا (اُخروی)نقصان ہو اور نہ ہی (دُنیوی) فائدہ۔(2)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مذکورہ بالا حکایت پاکیزہ تجارت اور اسلامی مَعاشی اَقْدار کی جو خوبصورت تصویرپیش کر رہی ہےاس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے اسلاف کا اندازِ تجارت اور طرزِ معیشت کس قدر اعلیٰ تھا۔اسلامی تاریخ کے صفحات ایسے باکردار لوگوں کے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں جو نہ
صرف اپنے ذاتی مُعاملات بلکہ تجارتی مصروفیات میں بھی صدق و امانت، عدل و انصاف تقویٰ و احسان، ایثار و بھلائی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کو اپناتے ہوئے اسلام کے مَعاشی اصولوں پر کاربند رہے شاید اسی وجہ سے ان کے دور کی مَعاشی خوشحالی اپنی مثال آپ تھی،مگر افسوس!جیسے جیسے ان خوبیوں کی جگہ ظلم و جبر،فسق و فجور، ناانصافی،دروغ گوئی(جھوٹ)،فریب دہی (دھوکا)،مَفادپرستی،سُود خوری اور بدخواہی جیسی بُرائیاں مُسلمانوں کے کردار میں پیدا ہوتی گئیں ان کی مَعِیْشت دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی اور بالآخر تباہی کے اندھے کنویں میں جاپڑی۔اگر آج بھی ہم قرآن و حدیث میں بیان کردہ حُصُولِ رزق کے مدنی پھولوں پر عمل کریں اور کسب وتجارت کے مُعاملے میں اپنے اسلاف کا طرزِعمل اختیار کریں تو اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ پورے مُعاشرے میں ایک شاندار خوشحالی لا سکتے ہیں اور مَعِیْشت کو ایک بار پھر عروج و اِسْتِحکام نصیب ہوسکتا ہے۔
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
…مبلغِ دعوتِ اسلامی و نگرانِ مرکزی مجلسِ شورٰی حضرت مولانا حاجی ابو حامد محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ الْعَالِی نے ۱۳ جمادی الثانی۱۴۳۰ ہجری بمطابق 7 جون 2009 عیسوی بروزاتوار عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں’’معاشی بحران اور اس کا حل‘‘کے نام سے بیان فرمایا۔مگر بعد میں انہی کی تجویز پرضروری ترمیم واضافےکےبعد”اسلاف کا اندازِ تجارت“کے نام سے 9 رمضانُ المبارک ۱۴۳۵ ہجری بمطابق8 جولائی2014 عیسوی کو تحریری صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔ (شعبہ رسائلِ دعوتِ اسلامی مجلس المدینۃ العلمیۃ)
2…الترغیب والترھیب،۲/۳۲۸،حدیث:۲۳
3…عراق کے مشرقی حصے میں واقع ایک شہر۔