تنقیدنعت وقت کی اہم ضرورتغلام ربانی فداؔ مدیراعلیٰ جہان نعت ہیرورجب نعت نے ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کا تاج اپنے سر کی زینت بنایا تو اس کے عظمت و انفرادیت و شعریت کے چرچے ہر سُو پھیل گئے۔ لفظوں نے جب نعت کالباس زیب تن کیاتو اس کے حسن کے چرچے چہارسو پھیل گئے جیسے جیسے شوق تحقیق و جستجونے ہردور کوکھنگالا تو ایک ہی حقیقت سامنے آئی کہ سیّدنا حسان بن ثابت ص سے لے کر آج تک ہردوردورِ نعت تھا۔ بحمداللہ حضرت سیّدنا حسان، سیدنا کعب، سیّدنا عبداللہ بن رواحہ ث، قدسی، جامیؔ ، عرفیؔ ، رومیؔ ، احمد رضاؔ خان،حفیظ تائب ،ماہرالقادری،الطاف حسین حالی کے سفرنعت تاریخ ادب نعت فراموش نہیں کرسکتی۔ جب نعت کہنے والوں تعداد زیادہ ہوئی تو تنقیدِ نعت کا مسئلہ وقت کا تقاضا بن کر اُبھرا۔ اگرتنقید اپنے بانہیں نہ پھیلائی ہوتی تونعت میں عقیدت کے نام پر افراط وتفریط کاشکارہوکررہ جاتی جوکسی بھی صاحب ایمان یاعاشق رسول ،عالم دین کوگوارہ نہ ہوتیں۔ تنقید نعت کامطلب یہ نہیں کسی کی تنقیص کی جائے بلکہ سفیران نعت کی رہنامئی اور رہبری ہے۔ فروعِ ادب نعت کے لیے ماہ نامہ ’’نوائے وقت‘‘، ماہ نامہ ’’شام و سحر‘‘، ماہ نامہ ’’نعت‘‘، ماہ نامہ ’’حمد و نعت‘‘ ’’نعت رنگ‘‘ اور ہندوستان میں’’جہان نعت‘‘راقم الحروف کی ادارت میں آسمان نعت میں روشن ستارے بن کر ابھرے۔اللہ کریم نے ذکررسول کوبلندفرماکر ہمارے دلوں اوردماغوں میں یہ نقش فرمادیا کہ ہر دور دورِ نعت ہے پہلی صدی ہجری ہو یا چودھویں اور پندرھویں صدی ہجری ہو یہ اوربات ہے کہ یہ صدی نعت کے حوالے سے کافی بیداری کے ساتھ جلوہ افروزہے کچھ محققین کا خیال ہے کہ ادبی طورپر یہ صدی نعت کی صدی ہے اگر مقصد یہ ہے کہ اس صدی میں لاتعداد مجموعہائے نعوت اورنعتیہ ادبی رسالے اورمقالہ جات منظرعام پرآئے توٹھیک ۔اگر ماضی وحال سے مقابلہ کرناہے تو پھر قول خدا’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کامطلب ہوگا ؟کیا منشائے خداوندی اپنے طریقہ کار بدل دے گی؟میراخیال ہے کہ ہرصدی کے اختتام پر محققین نعت یہ کہہ اٹھے کہ ہماری صدی نعت کی صدی ہے اور یہ سچ بھی اس صدی میں نعت کے حوالے سے جوبیداری جنم لی شائد ہی کسی اور صدی کو یہ امتیاز حاصل ہوگانیز ہم یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتے یہی اس صدی میں ہم نے نعت کے حوالے سے مطمئن ہیں بلکہ ابھی تک بے شمار موضوعات ہماری دسترس سے بہت دورہیں اور ہمارے نامعلومات کے پردوں میں ہیں اس صدی کے محققین اور تحقیق کے حوالے سے آنے والے صدی مورخین ومحقیقن نعت ہی فیصلہ فرمائیں گے۔( حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:حضرت جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا آپ کا ربّ کریم پوچھتا ہے کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کے ذکر کو کیسے سر بلند کیا؟ میں نے جواب دیا اس بات کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ کے رفعِ ذکر کی کیفیت یہ ہے کہ جہاں میرا ذکر کیا جائے گاوہاں آپ کا ذکر بھی میرے ساتھ کیا جائے گا۔عہدحاضر کویہ فخرحاصل ہے اس عہدمیں بے شمارنعتیہ دیوان اور ادب نعت پر کتابیں منظرعام پر آئیں لاکھ کوشش کے باوجود ہم ان کا شما ر نہیں کرسکتے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کتب کی کثرت سے معیار متاثرہوتاہے یہ کوچۂ ہوس نہیں گلستان نعت ہے جہاں معمولی لغزش بھی شاعر کو جہنم کا مستحق بناسکتی ہے۔جیسے کہ ایک مشہور صوفی صاحب کا یہجوکبھی مستئ عرش تھا خدا بن کر اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی بن کر(اس کی تشریح علمائے دین اور ناقدین نعت ہی کریں تو بہتر ۔مجھ سا طالب علم اس خامہ فرسائی کرنے سے رہا۔)یاجدیدیت کی رومیں بہہ کراگر بادحوادث ریزہ ریزہ کرکے بکھرادےتوبن کر خاک میں جم جاؤں ترے روضے کی جالی پر(ناقدین نعت ہی بتائیں یہ خیال کہاں تک درست ہے جبکہ علمائے دین فرماتے ہیں دررسول پر باادب رہناچاہئے۔یہ بات عیاں ؔ صاحبہ کی واضح کردیں تو بہتر)میں عرض کررہاتھا کہ جب نعتیہ کتب کی اشاعت کثرت سے ہونے لگی توپھر نقدنعت نے بھی اپنی ضرورت محسوس کرائی اور ہوشمند ناقدین اس سفرکے راہی بن گئے۔ایک سوال یہ یداہوتاہے کہ جب ماضی میں نعیہ دیوان شائع ہوتے تھے جس کی مثال ہمیں آسانی سے مل سکتی ہے تو پھر اس وقت نقدنعت کی ضرورت کیوں نہ محسوس ہوئی؟۔میرے خیال میں اس کا جواب یہ ہوگا ماضی کے شعراء علم عروض و ادب کے ساتھ ساتھ علم دین سے بھی واقف ہوتے تھے اور آج کے نئی نسل کی علم دین سے ناآشنائی اورشعرا نعت کو عبادت کے بجائے فن کے طورپر بتنے لگے جیساکہ کچھ شعرا کی فطرت بن گئی کے نعتیہ مشاعرے میں ایک نعت پڑھتے اور بہاریہ مشاعرے میں اسی نعت کو الفاظ کی ہیراپھیری کے بعد اپنے مجازی محبوب کی نذر کردیتے۔(اللہ ہمیں محفوظ رکھے) شعراکی علم دین سے دوری اور نعتیہ مجموعہائے کلام کی تیزی سے اشاعت دوسری اصنافِ شعر و ادب کی طرح میدانِ نعت میں بھی تنقید وقت کا اہم تقاضہ بن کر سامنے آئی۔ فرق صرف اتناہے دوسرے اصناف سخن ادب کاقصاب جس طرح چاہے تنقیدی چاقو چلاسکتاتھا مگر نعت کا تقدس نقادوں پرپاندیاں عائدکرتاہے بیجا کسی کی تنقیص نہیں کرسکتے اور نیز کمال ہوش مندی کے ساتھ تنقید کی اجازت ملتی ہے گویا جس طرح نعت گوئی ہرکس وناکس کی بس کی بات نہیں ایسے ہی نقدنعت بھی۔بہرحال تنقیدِ نعت وقت کا تقاضا اہم ہے۔پاکستان میں اس تقاضے کو سنجیدگی کے ساتھ اپنایاگیامگر ہندوستان میں ابھی تک اطمینان بخش پیش رفت نہیں ہوئی۔آپ ہندوستان میں نعت اور نقدنعت کی فضاؤں کی کیفیت ایک ناقد نعت کے جملے میں دیکھیں تو انکارنہیں کریں گےڈاکٹر صابر سنبھلی رقمطراز ہیںنعت پر پاکستان میں بہت کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ میرا اپنا خیال یہ ہے (جو بعض شعراے ہند کو ناگوار بھی ہوسکتا ہے) کہ پاکستان کی نعتیہ شاعری بھارت سے موضوعات اور طرزِاظہار دونوں حیثیتوں سے کم سے کم پچاس برس آگے ہے۔ پاکستان میں ہی نعت کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ اور ’’سفیرِنعت‘‘ جیسے مجلے بھی جاری ہوئے۔ (نعت رنگ شمارہ ۲۰)ایک سوال یہ پیداہوتا ہے کیا نعت جیسا مقدس و محترم موضوع تنقید کامتحمل ہوسکتا ہے۔ تنقید نگار نعت کے شایانِ شان تنقید کرسکتا۔تنقیدنعت کے لئے ماضی اور حال، مستقبل کے تمام نعتیہ دیون کو پیش نظر رکھ کراور فرامین خداواحادیث رسول کی روشنی میں اوردل سے بغض وعناد نکال کر تنقید کرناہرناقد کاحق ہے اس میدان میں بڑے ناموں سے نہیں بلکہ صلاحیت سے آزمائی جاتے ہیں۔; میدان نعت میں گروہی بندی نہیں ہونی چاہئے۔ جیسے ماضی میں غزل، مرثیہ اور دوسری اصناف میں گروہ بندی کا میدان گرم ہونے کی بنا پر ہوتاآیا ہے ویساکچھ معاملہ نعت کے حوالے سے مشاعروں کے بارے میں ہونے لگا۔ اپنے گروہ کے مبتدی شعرا کے لیے بھی ضرورت سے زیادہ داد اور دوسرے گروہ کے بہترین نعتیہ کلام پرصرف خاموشی پراکتفا۔ بڑی معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ نعتیہ محافل ومشاعروں کے نام پر اپنے اپنے پسندیدہ نعت خواں یا نعت گو کوبڑے بڑے خطابات کے ساتھ نمائش کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت نقدنعت کا مطالبہ کررہی ہےہمیں تنقیدنعت کا بہت ہی صبروضبط کے ساتھ استقبال کرناچاہئے اور اس معاملے کوئی کوتاہی نہیں ثابت کرنی چاہئے۔ اور اوریہ خوف بھی دامن گیر نہ رہے کہ تنقید نعت کے نام پرتنقیص نعت ہوگی ۔ کام نیاہے یہ ضروری بھی ہے نئے کام کے ساتھ خوف وخدشات بھی دامن دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں مگر رضائے خدا اور خدمت نعت کے لئے کمربستہ ہوناہی ہر محقق کا فریضہ ہے۔ اوراس امید کے ساتھ نقدنعت سے نئے اسالیب وموضوعات کی کہکشاں سجے گی اور ادب نعت کو تازگی ملے گی اور ہرمحقق کا دینی واخلاقی فریضہ ہوگاکہ وہ تنقیدنعت کے نام پر کسی کی تنقیص نہ کرے۔ہاں یہ بھی ایک فطری عمل ہے کہ اچھا کام کرنے والے کی بے انتہا تعریف کرنے کے بعد اُس کی ایک چھوٹی سی لغزش پر بھی ہاتھ رکھ وتو وہ تمام تعریفیں بھول کر مرنے مارنے پہ آجائے ۔ جب تعریف وتوصیف گوارہ ہے تو کوتاہی بیان کرنے پر یہ غصہ کیوں؟ ہوناتویہ چاہئے کہ اس ناقد کا احسان مان لیں کیوں کہ وہ بروز حشرآپ کو رب کی پکڑسے بچارہاہے خیرمیراایک سوال ہے آپ نعت کیوں کہتے ہیں؟تو ہرشاعر کا یہی جواب ہوگا کہ رسول کریم ﷺ کے مداحوں کی صف میں آخرمیں سہی کہیں ایک پیر پر بھی کھڑنے کے لئے جگہ مل جائے۔اپنی عاقبت سنور جائے۔جب آپ اپنی عاقبت سنوارناچاہتے ہیں تو پھر اتنا چراغ پا کیوں ہو رہے ہیں؟اورناقدین سے بھی کہناچاہوں گا کہ یہاں کوئی شمالی اور جنوبی،دکنی ،مراٹھی اور فاروقی اور نارنگی نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ مدح خواں ہیں یہاں صرف خالص تنقید چاہئے اور وہ تنقیص نہیں جو کسی خلاف قلم اٹھاؤتو میدان ادب سے بھاگنے پر مجبور کردو۔اپنی مختصر ادبی حیات سہی مگر میں نے ہمیشہ سے یہ پایاہے کہ ناقد کی بات غورسے سنو!اگردرست کہہ رہاہے تو اس کا مشورہ قبول کرلو کیوں ملک الموت کسی کو وقت نہیں دیتے۔یہاں تک احتیاط ہونی چاہئے اگر آپ کا نعتیہ شعر بہت خوبصورت ہے اور کوئی مشورہ دے یا آپ کو لگے کہ اس کے دومطلب نکلتے ہیں ایک رسول کریم ﷺ کی تعریف اور دوسرا کچھ اور مطلب بیان کرتاہے تو اس سے آپ فوراًعوام الناس کی دادودہش سے بے نیاز ہوکر اس مطلب کو اجاگر کرو مدحِ رسول کی نمائندگی کر رہاہے اوراگر شعر بدل سکتے ہوتو فوراً بدل لو۔اگرشعری صلاحیت اس قابل نہیں تو فوراً شعرہی سے رجوع کرلو۔یہ حضرت غالب ؔ کا دیوان نہیں ہے جس کے ایک شعر سولہ سترہ مطالب ہوںیہاں بس ایک مطلب ہوناچاہئے کہ آپ اس شخصیت کی مدحت کہہ رہے ہیں جس کی مدحت خود رب کریم فرماتاہےحضرت کعب بن زہیر عرب مشہورشاعر تھے۔حضرت کعب کے والد زہیر بن ابی سلمیٰ کا شمار خود نامور شاعروں میں ہوتا تھا۔نعت گوصحابی رسولﷺ حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کااسلام لانے سے پہلے اسلام کے خلاف منظومات لکھتے اوردشمنان اسلام سے خوب داد پاتے۔ نبی کریمﷺ نے کعب کے ایمان لانے سے قبل ان کے خون کو مباح قرار دے دیاتھا۔جب دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے توحضرت کعب نے مدینہ منورہ آکر معافی اور امان طلب کی تورسول کریم ﷺنے معاف فرما دیا۔ اسی موقعہ پر جب کعب بن زہیر نے ’’قصیدہ بانت سعاد‘‘ سنایا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بڑے ذوق اور محویت کے ساتھ قیصدہ سماعت فرمارہے تھے ان الرسول لسیف لسیضا بہمھند من سیوف الہند مسلولن کے اس شعر کا ترجمہ یوں تھا:’’رسول اللہﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور وہ بے نیام ہندی تلواروں کی طرح تیز اور فیصلہ کن ہیں۔‘‘ ۔ جب وہ مذکورہ بالا شعر تک پہنچے تو آپ نے اس شعر کے دوسرے مصرعے کی یوں اصلاح فرمائی کہ ’’سیوف الہند‘‘ کی جگہ ’’سیوف اللہ‘‘ لگانے کو کہا۔ اس ایک لفظی اصلاح سے شعر کے معانی ومفاہیم ہی بدل گئے۔ شاعر و شعر دونوں کو ہی اونچا مقام مل گیا۔ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشارہ پاتے ہی اس شعر کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اصلاح کے ساتھ دہرایا۔یعنی ’’رسول اللہﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ آپ اللہ کی تلواروں میں سے ایک کھینچی ہوئی تلوار ہیں۔‘‘اس قصیدہ کے ۵۸؍ اشعار ہیں ۔ رسول کریم ﷺ نے خوش ہوکر اپنے دوشِ مبارک سے اپنی نوری چادر اُتاری اور جناب کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انعام میں عطا کردی اس طو ر اس قصیدہ کا دوسرا نام قصیدہ بردہ شریف مشہور ہوا چھوٹے چھوٹے شعرا تنقیدکواپنے لئے توہین تصور کرتے ہیں جب کہ بڑے بڑے لوگ تنقید کے ہرہرلفظ ہیرے موتی سمجھ کر دامن میں سمیٹ لیتے ہیں۔ ایک اورماضی قریب کاواقعہ ہے مولانا احمد رضا خاں کے زمانے میں اطہرہاپوڑی معروف شاعر تھے جو کبھی کبھی اپنا کلام سنانے کے لیے خود آجاتے اور کبھی ڈاک سے بھیج دیتے۔ انھوں نے ایک مرتبہ ایک نعت لکھ کر آپ کی خدمت میں بھیجی جس کا مطلع تھا کب ہیں درخت حضرتِ والا کے سامنےمجنوں کھڑے ہیں خیمۂ لیلیٰ کے سامنےمولانا احمد رضا خان نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ دوسرا مصرعہ مقامِ نبوت کے لائق نہیں ہے۔ آپ نے قلم برداشتہ اصلاح فرمائی کب ہیں درخت حضرتِ والا کے سامنےقدسی کھڑے ہیں عرشِ معلیٰ کے سامنےفاضلِ بریلوی کی اس اصلاح سے اطہر ہاپوڑی کی نعت کی مضمون آفرینی اور حقیقت تخیل کو چار چاند لگ گئے۔(شمائم النعت)موجودہ زمانے کے نعت نگاروں کے لئے ایک اور مثال پیشِ نظر ہے۔ ایک صاحب نے مولانا احمدرضا خاں کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنے اشعار سنانے کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا میں اپنے چھوٹے بھائی حسن میاں (حسن رضا خان شاگرد داغؔ ) یا حضرت کافیؔ مرادآبادی کا کلام سنتا ہوں۔ اس لیے کہ اُن کا کلام میزانِ شریعت پر تلا ہوتا ہے۔ پھر ان صاحب کے اصرار پر آپ نے نعت سنانے کی اجازت عطا کردی۔ ان کا ایک مصرع یوں تھا:شانِ یوسف جو گھٹی ہے تو اسی در سے گھٹیآپ نے فوراً اس شاعر کو ٹوک دیا اور فرمایا:حضور اکرمﷺ کسی نبی کی شان کو گھٹا نے کے لیے نہیں بلکہ انبیائے کرام علیہم السلام کی شان و شوکت کو سربلند سے سر بلند کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ مصرع یوں بدل دیا جائے:شانِ یوسف جو بڑھی ہے تو اسی در سے بڑھی(امام احمدرضاکی نعتیہ شاعری)ایک وہ دورتھا جب کوئی کسی کی اصلاح کردیتا توخوش دلی کے ساتھ قبول کرلیتے اورنعت نگاربھی خوش اورتنقیدنگاربھی خوش۔مگر آج کاحال ملاحظہ کیجئے اگر کسی رسالے یا اخبار کے مدیرنے کسی پرتنقیدی مضمون شائع کردے تو وہ مجلس ادارت کے لائق نہیں بلکہ اسے نائی کادکان کھول لینا چاہئے اورایک شاعر کے درجنوں شعری مجموعے شائع ہورہے ہیں اور نہ کسی استاد کو سنانے کی خواہش نہ تنقیدکاخوف۔اور اگر کوئی خامی رہ جائے تو اپنی شان میں ایک تقریب منقعد کر کے خوشامدیوں کی جھرمٹ میں پوری کرلی جائیں گی۔اس دور خود پسندی میں وہ ناقدین لائق تعریف ہیں جو صلے اورستائش سے بے پرواہ اصلاح ادب کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔آج وقت کاتقاضہ ہے کہ محققین اورناقدین نعت کی جانب متوجہ ہوجائی
Post Views: 701