islam
زمین
بنو نضیر، فدک، خیبر کی زمینوں کے باغات وغیرہ کی آمدنیاں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے ا ور اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے سال بھر کے اخراجات اور فقراء و مساکین اور عام مسلمانوں کی حاجات میں صرف فرماتے تھے۔ (1)
(مدارج النبوۃ ج۲ ص۴۴۵ و ابو داؤد ج۲ ص۴۱۲ باب فی صفایا رسول اﷲ)
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد حضرت عباس اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور بعض ازواج مطہرات رضی اﷲ تعالیٰ عنہن چاہتی تھیں کہ ان جائیدادوں کو میراث کے طور پر وارثوں کے درمیان تقسیم ہو جانا چاہیے۔ چنانچہ حضرت امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان لوگوں نے اس کی درخواست پیش کی مگر آپ اور حضرت عمر وغیرہ اکابر صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے ان لوگوں کو یہ حدیث سنا دی کہ لَانُوْرَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ (2) (ابو داؤد ج۲ ص۴۱۳ و بخاری ج۱ ص۴۳۶ (باب فرض الخمس) ہم (انبیاء) کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم نے جو کچھ چھوڑا وہ مسلمانوں پر صدقہ ہے۔
اور اس حدیث کی روشنی میں صاف صاف کہہ دیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی وصیت کے بموجب یہ جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں۔ لہٰذا حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی مقدس زندگی میں جن مدآت و مصارف میں ان کی آمدنیاں خرچ فرمایا کرتے تھے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت عباس و حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے اصرار سے بنو نضیر کی جائیداد کا ان دونوں کو اس شرط پر متولی بنا دیا تھا کہ اس جائیداد کی آمدنیاں انہیں مصارف میں خرچ کرتے رہیں گے جن میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم خرچ فرمایا کرتے تھے۔ پھر ان دونوں میں کچھ ان بن ہو گئی اور ان دونوں حضرات نے یہ خواہش ظاہر کی کہ بنو نضیر کی جائیداد تقسیم کرکے آدھی حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تولیت میں دے دی جائے اور آدھی کے متولی حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رہیں مگر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس دخواست کو نا منظور فرما دیا۔(1)
(ابو داؤد ج۲ ص۴۱۳ باب فی وصایا رسول اﷲ و بخاری ج۱ ص۴۳۶ باب فرض الخمس)
لیکن خیبر اور فدک کی زمینیں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک خلفاء ہی کے ہاتھوں میں رہیں حاکم مدینہ مروان بن الحکم نے اس کو اپنی جاگیر بنا لی تھی مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں پھر وہی عملدرآمد جاری کر دیا جو حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے دور خلافت میں تھا۔
(2)(ابو داؤد ج۲ ص۴۱۷ باب فی وصایا رسول اﷲ مطبوعہ نامی پریس)