islam
ساس،سسر کو کیسا ہونا چاہیے؟
ساس،سسر کو کیسا ہونا چاہیے؟
شادی کے بعد لڑکی کیلئے سُسرال کا ماحول اور وہاں کے افراد اجنبی ہوتے ہیں ، اگر رشتہ داروں میں شادی ہوئی ہو تب بھی رہن سہن کے معاملات میں کسی حد تک اُسے اجنبیت ہی محسوس ہوتی ہے اس لئے ساس سُسر کو چاہئے کہ اُس کے ساتھ بُزرگانہ برتاؤ کریں اور چند باتوں کا خُصُوصِیَّت کے ساتھ خیال رکھیں ۔
٭ساس سُسر کو چاہئے کہ وہ اپنی شفقتوں کے ذریعے بہو کی اجنبیت اور وحشت کو جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کریں اور اسے اُنسیّت (محبت) کا احساس دلائیں تاکہ اُسے کام کاج وغیرہ میں دُشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
٭ساس کو چاہئے کہ وہ اپنی بہو کو نرمی اور اچھے انداز سے گھر یلو کام کاج کے ڈھنگ سکھائے اور اپنے یہاں کے طور طریقے بتائے۔
٭کبھی غلطی کر بیٹھے تو اُسے ڈانٹنےیا اُس کی ماں کی تَرْبِیَت پر منفی تبصرہ کرنے کے بجائے اسے اپنی بیٹی سمجھتے ہوئے درگزر سے کام لے۔ البتہ اگر ساس سُسر کبھی ڈانٹ دیں تو بہو کو چاہئے کہ یہ سوچ کر نظر انداز کردے کہ میرے والدین بھی تو کبھی مجھے ڈانٹ دیتے تھے ، ساس سُسر نے ڈانٹ دیا تو کیا ہوا یہ بھی ماں باپ کی جگہ ہیں ۔
٭ ساس سُسر کو چاہئے کہ وہ اپنی بہو کی عزّتِ نَفْس کا خیال رکھیں ، مہمانوں ، رشتے داروں یا گھر کے دیگر افراد کے سامنے اُسے جِھڑکنے یا اُس پر غُصّہ کرنے سے گُریز کریں بلکہ بہو کے سامنے اُس کے شوہر پر بھی غُصّہ نہ کریں ۔
٭ساس سُسر اور شوہر کو چاہئے کہ دُلہن کے ماں باپ ، بھائی بہن اور رشتہ داروں کے بارے میں ایسی باتیں نہ کریں جس سے اُس کی دل آزاری ہو اور اُسے تکلیف پہنچے کیونکہ انسان فطری طور پر اپنوں کی بُرائی سُننا گوارا نہیں کرتا۔ مروی ہے کہ جب ابوجہل کے بیٹے حضرت سَیِّدُنا عِکْرِمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایمان لائے تو رسولِ کریم رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو حکم دیا کہ عِکْرِمہ کے سامنے کوئی بھی اُن کے باپ ابوجہل کو بُرا نہ کہے۔ (1)
٭سُسر اور بہو اگر چہ ایک دوسرے کیلئے مَحْرَم ہیں ، ان کیلئے ایک دوسرے سے شَرْعی پردہ کرنا واجب نہیں مگر اس کے باوُجُود بہو کو چاہئے جب بھی سُسر کے سامنے جانا ہو اُس کی بُزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے اپنے سر ، گلے اور سینے وغیرہ پر دوپٹا یا چادر اچھی طرح اوڑھ لے ، اِس کے علاوہ سُسر اور بہو دونوں ہی کو چاہئے کہ اپنے درمیان تکلّف اور شرم و حیا کی دیوار قائم رکھیں اور ایک دوسرے سے ہرگز ہرگز بے تکلّف نہ ہوں ۔
________________________________
1 – مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ، ذکر عکرمہ بن ابی جہل ، ۲ / ۲۹۸