فکر اَسفل ہے مری مرتبہ اعلٰی تیرا
فکر اَسفل ہے مری مرتبہ اَعلیٰ تیرا
وَصف کیا خاک لکھے خاک کا پتلا تیرا
طور پر ہی نہیں موقوف اُجالا تیرا
کون سے گھر میں نہیں جلوۂ زیبا تیرا
ہر جگہ ذِکر ہے اے واحد و یکتا تیرا
کون سی بزم میں روشن نہیں اِکّا تیرا
پھر نمایاں جو سر طور ہو جلوہ تیرا
آگ لینے کو چلے عاشق شیدا تیرا
خیرہ کرتا ہے نگاہوں کو اُجالا تیرا
کیجئے کونسی آنکھوں سے نظارہ تیرا
جلوۂ یار نرالا ہے یہ پردہ تیرا
کہ گلے مل کے بھی کھلتا نہیں ملنا تیرا
کیا خبر ہے کہ علی العرش کے معنی کیا ہیں
کہ ہے عاشق کی طرح عرش بھی جویا تیرا
اَرِنِی گوئے سر طور سے پوچھے کوئی
کس طرح غش میں گراتا ہے تجلی تیرا
پار اُترتا ہے کوئی غرق کوئی ہوتا ہے
کہیں پایاب کہیں جوش میں دریا تیرا
باغ میں پھول ہوا شمع بنا محفل میں
جوش نیرنگ دَر آغوش ہے جلوہ تیرا
نئے انداز کی خلوت ہے یہ اے پردہ نشیں
آنکھیں مشتاق رہیں دِل میں ہو جلوہ تیرا
شہ نشیں ٹوٹے ہوئے دل کو بنایا اُس نے
آہ اے دیدۂ مشتاق یہ لکھا تیرا
سات پردوں میں نظر اور نظر میں عالم
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ معما تیرا
طور کا ڈھیر ہوا غش میں پڑے ہیں موسیٰ
کیوں نہ ہو یار کہ جلوہ ہے یہ جلوہ تیرا
چار اَضداد کی کس طرح گرہ باندھی ہے
ناخن عقل سے کھلتا نہیں عقدہ تیرا
دَشت اَیمن میں مجھے خاک نظر آئے گا
مجھ میں ہو کر نظر آتا نہیں جلوہ تیرا
ہر سَحر نغمۂ مرغانِ نواسنج کا شور
گونجتاہے ترے اَوصاف سے صحرا تیرا
وحشیٔ عشق سے کھلتا ہے تو اے پردۂ راز
کچھ نہ کچھ چاک گریباں سے ہے رشتہ تیرا
سچ ہے انسان کو کچھ کھو کے ملا کرتا ہے
آپ کو کھو کے تجھے پائے گا جویا تیرا
ہیں تِرے نام سے آبادی و صحرا آباد
شہر میں ذِکر ترا دَشت میں چرچا تیرا
برقِ دیدار ہی نے تو یہ قیامت توڑی
سب سے ہے اور کسی سے نہیں پردہ تیرا
آمدِ حشر سے اِک عید ہے مشتاقوں کو
اسی پردہ میں تو ہے جلوۂ زیبا تیرا
سارے عالم کو تو مشتاقِ تجلی پایا
پوچھنے جائیے اب کس سے ٹھکانا تیرا
طور پر جلوہ دکھایا ہے تمنائی کو
کون کہتا ہے کہ اَپنوں سے ہے پردہ تیرا
کام دیتی ہیں یہاں دیکھئے کس کی آنکھیں
دیکھنے کو تو ہے مشتاق زمانہ تیرا
میکدہ میں ہے ترانہ تو اَذاں مسجد میں
وَصف ہوتا ہے نئے رنگ سے ہر جا تیرا
چاک ہو جائیں گے دِل جیب و گریباں کس کے
دے نہ چھپنے کی جگہ راز کو پردہ تیرا
بے نوا مفلس و محتاج و گدا کون کہ میں
صاحبِ جود و کرم وصف ہے کس کا تیرا
آفریں اہل محبت کے دلوں کو اے دوست
ایک کو زے میں لئے بیٹھے ہیں دریا تیرا
اتنی نسبت بھی مجھے دونوں جہاں میں بس ہے
تو مرا مالک و مولیٰ ہے میں بندہ تیرا
انگلیاں کانوں میں دے دے کے سنا کرتے ہیں
خلوتِ دِل میں عجب شور ہے برپا تیرا
اب جماتا ہے حسنؔ اُس کی گلی میں بستر
خوبرویوں کا جو محبوب ہے پیارا تیرا