islam
میں کیسے کہہ دوں کہ اس کا ضمیر ہے زندہ
میں کیسے کہہ دوں کہ اس کا ضمیر ہے زندہ
جو اپنی بھول پہ ہوتا نہیں ہے شرمندہ
رہا ہے جس کو سروکار اپنی مطلب سے
بنا ہے اپنے قبیلے کا وہ نمائندہ
نشانیاں مرے اسلاف کی منور ہیں
ورق ورق پہ ہوں جیسے حروفِ تابندہ
رچی تھی جس نے اجالوں کے قتل کی سازش
وہ آدمی تھا کسی شہر شب کا باشندہ
میں اپنی سادگی شعروں میں چھوڑ جاؤں گا
رکھے گی یاد جنھیں پڑھ کے نسلِ آئندہ
ثبات دنیا میں حاصل نہیں کسی کو سعیدؔ
بس ایک ذا تِ خدا عرش پر ہے پائندہ
سعید رحمانی