پردے جس وقت اُٹھیں جلوۂ زیبائی کے
پردے جس وقت اُٹھیں جلوۂ زیبائی کے
وہ نگہبان رہیں چشمِ تمنائی کے
دھوم ہے فرش سے تا عرش تری شوکت کی
خطبے ہوتے ہیں جہانبانی و دارائی کے
حسن رنگینی و طلعت سے تمہارے جلوے
گل و آئینہ بنے محفل و زیبائی کے
ذَرَّۂ دشتِ مدینے کی ضیا مہر کرے
اچھی ساعت سے پھریں دن شب تنہائی کے
پیار سے لے لیے آغوش میں سر رحمت نے
پائے انعام ترے دَر کی جبیں سائی کے
لاش اَحباب اسی دَر پر پڑی رہنے دیں
کچھ تو اَرمان نکل جائیں جبیں سائی کے
جلوۂ گر ہو جو کبھی چشم تمنائی میں
پردے آنکھوں کے ہوں پردے تیری زیبائی کے
خاکِ پامال ہماری بھی پڑی ہے سرِ راہ
صدقے اے رُوحِ رَواں تیری مسیحائی کے
کیوں نہ وہ ٹوٹے دلوں کے کھنڈر آباد کریں
کہ دکھانے ہیں کمال اَنجمن آرائی کے
زینتوں سے ہیں حسینانِ جہاں کی زینت
زینتیں پاتی ہیں صدقے تری زیبائی کے
نامِ آقا ہوا جو لب سے غلاموں کے بلند
بالا بالا گئے غم آفتِ بالائی کے
عرش پہ کعبہ و فردوس و دلِ مومن میں
شمع اَفروز ہیں اِ ّکے تری یکتائی کے
ترے محتاج نے پایا ہے وہ شاہانا مزاج
اس کی گدڑی کو بھی پیوند ہوں دارائی کے
اپنے ذَرَّوں کے سیہ خانوں کو روشن کر دو
مہر ہو تم فلکِ انجمن آرائی کے
پورے سرکار سے چھوٹے بڑے اَرمان ہوں سب
اے حسنؔ میرے مِرے چھوٹے بڑے بھائی کے