islam
کبیرہ نمبر1: شرکِ اکبر
اللہ عزوجل اپنے کرم سے ہمیں اس گناہ سے پناہ میں رکھے اور کسی آزمائش کے بغیر عافیت کے ساتھ ہمارا خا تمہ اچھا فرمائے، کیونکہ وہی سب سے بڑا کریم اور سب سے زیادہ رحم والا ہے، اللہ عزوجل مجھے اور آپ کو اپنی رضا حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم پر اپنے کرم اور فراخ عطاؤں کی موسلا دھار بارش برسائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم گذشتہ صفحات میں گناہِ کبیرہ کی جو تعریفیں بیان کی گئی ہیں ان سب کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ وہ اُن کبیرہ گناہوں کی تعریفیں ہیں جو ایک مسلمان سے ایمان کی حالت میں صادر ہوتے ہیں، اسی لئے بہت سے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے انہیں شمار کرتے وقت کفر سے قریب تر گناہ یعنی قتل سے ابتداء کی ہے، جبکہ ہم اس ترتیب کو قائم نہیں رکھیں گے کیونکہ اس کتاب سے ہمارا مقصد ان تمام کبیرہ گناہوں کا احاطہ ان کے مراتب اوران کے بارے میں وارد وعید وں کے ساتھ کرنا ہے ۔
چونکہ کفر سب سے بڑا گناہ ہے، لہٰذا اس کے بارے میں کلام اور اس کے احکام کا بیان بھی مفصّل ہونا چاہے، لہٰذاسب سے پہلے ہم اپنی گفتگو کا آغاز اللہ عزوجل کے اس فرمانِ عبرت نشان سے کرتے ہیں جو اسی کے بارے میں ہے ۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ
ترجمۂ کنز الایمان :بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے۔(پ 5 ،النسآء : 48)
اور ایک دوسری جگہ ہے:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیۡمٌ ﴿13﴾
ترجمۂ کنز الایمان:بے شک شرک بڑا ظلم ہے۔(پ21،لقمان:13)
اور ایک دوسری جگہ ہے:
اِنَّہٗ مَنۡ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللہُ عَلَیۡہِ الْجَنَّۃَ وَمَاۡوٰىہُ النَّارُ ؕ وَمَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنْ اَنۡصَارٍ ﴿72﴾
ترجمۂ کنز الایمان:بیشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ (پ6، المآئدۃ:72)
(1)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”کیا میں تمہیں اکبرالکبائر (یعنی سب سے بڑے کبیرہ گناہوں) کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ گناہ اللہ عزوجل کا شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہیں۔” یہ بات ارشاد فرماتے وقت آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ٹیک لگائے تشریف فرما تھے پھر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا :” سن لو اور جھوٹ بولنا، سن لو اور جھوٹی گواہی دینا بھی بڑے گناہ ہیں۔” پھر انہیں دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم کہنے لگے کاش ! آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سکوت اختیار فرما لیں۔”
(صحیح البخاری ، کتاب الشھادات ، باب ماقیل فی شھادۃ الزور،الحدیث:۲۶۵۴،ص۲۰۹، بدون” ألا وشھادۃ الزور”)
(2)۔۔۔۔۔۔ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت،مخزن جودو سخاوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”ہلا کت میں ڈالنے والے سات گناہوں سے اجتناب کرو۔” پھر ان گناہوں میں اللہ عزوجل کے لئے شریک ٹھہرانے کو بھی ذکر فرمایا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(صحیح البخاری ، کتاب الوصایا ، با ب قول اللہ تعالیٰ (ان الذین یاکلون اموال۔۔۔۔۔۔الخ)الحدیث:۲۷۶۶،ص۲۲۳)
(3)۔۔۔۔۔۔ خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل کا شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔”
(المسندللامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمروبن العاص،الحدیث:۶۹۰۱،ج۲،ص۶۴۴)
(4)۔۔۔۔۔۔ سیِّدُ المُبلِّغین، رَحْمَۃ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل کا شریک ٹھہرانا، کسی جان کو قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا کبیرہ گناہ ہیں۔ ”پھر ارشاد فرمایا :”کیامیں تمہیں اکبر الکبائر یعنی سب سے بڑے کبیرہ گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ جھوٹ بولنا ہے۔”
(صحیح البخاری ، کتاب اللباس، باب عقوق الوالدین من الکبائر،الحدیث:۵۸۷۷، ص۵۰۶)
جھوٹ کا سب سے بڑا کبیرہ گناہ ہونا ان گناہوں کے اعتبار سے ہے جن کے بارے میں جھوٹ سے سنگین ہونے کی تصریح نہیں آئی جبکہ شرک ، قتل اور زنایقینا جھوٹ سے بڑے گناہ ہیں۔
(5)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”کبیرہ گناہ نو ہیں اور ان میں سب سے بڑا گناہ اللہ عزوجل کا شریک ٹھہرانا ہے ۔ ”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۰۱،ج۱۷،ص۴۸)
(6)۔۔۔۔۔۔ مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”سات کبیرہ گنا ہوں سے اجتناب کرو۔ ان میں سے اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنا بھی ہے ۔ ”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۵۶۳۶، ج۶،ص۱۰۳)
(7)۔۔۔۔۔۔ رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بے شک اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ضرورت سے زیادہ پانی کو روک لینا اور نرسانڈ کو جفتی سے روکنا سب سے بڑے کبیرہ گناہ ہیں۔”
(البحرالزّخاربمسند البزّار،مسند بریدہ بن حصیب، الحدیث:۴۴۳۷،ج۱۰،ص۳۱۴)
(8)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”کیامیں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں خبر نہ دوں؟ وہ اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا ہیں۔”
(المسند احمد بن حنبل،مسندالبصریین،الحدیث:۲۰۴۰۷،ج۷،ص۳۰۶)
(9)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”کبیرہ گناہ سات ہیں ان میں سے ایک اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنا ہے۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۰۲،ج۱۷،ص۴۸)
ان گناہوں میں ہجرت کے بعد دیہاتی ہوجانے کا بھی ذکر فرمایا، اس کابیان عنقریب آئے گا۔ اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ (10)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنا، کسی جان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دیناسب سے بڑے کبیرہ گناہ ہیں۔”
(صحیح البخاری،کتاب الدیات ، باب قول اللہ تعالیٰ (من احیاھا)،الحدیث:۶۸۷۱،ص۵۷۳)
(11)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بے شک اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنااور جھوٹی قسم اٹھاناسب سے بڑے گناہ ہیں اورقسم اٹھانے والا جب مجبورًا اللہ عزوجل کی قسم اٹھائے پھر اس میں مکھی کے پَرکے برابر بھی مداخلت کرے تو اس کے دل میں قیامت تک کے لئے ایک نکتہ لگا دیا جاتا ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(جامع الترمذی،ابواب تفسیر القرآن ، باب (ومن سورۃ النساء)الحدیث:۳۰۲۰،ص۱۹۵۶)
(12)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل کا شریک ٹھہرانا اور جھوٹی قسم اٹھانا بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔”
(المعجم الاوسط،الحدیث:۳۲۳۷،ج۲،ص۲۶۵)
(13)۔۔۔۔۔۔ سرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”سن لو! اللہ عزوجل کے اولیاء وہ لوگ ہیں جو ان پانچ نمازوں کو قائم کرتے ہیں جنہیں اُس نے اپنے بندوں پر فرض فرمایا ہے اور رمضان کے روزے یہ سوچ کر خالص رضائے الٰہی عزوجل کے لئے رکھتے ہیں کہ ان پر روزوں کا لازم ہو نا حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے مال کی زکوٰۃ خوشدلی سے ادا کرتے ہیں اور ان کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں جن کے ارتکاب سے اللہ عزوجل نے منع فرمایاہے۔” عرض کی گئی : ”یارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کبیرہ گناہ کتنے ہیں؟”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”یہ نوہیں، ان میں سے بڑے گناہ اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنا، کسی مؤمن کو ناحق قتل کرنا، میدانِ جہاد سے فرار ہونا، پاکدامن عورت پر تہمت لگانا، جادو کرنا، یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، مسلمان والدین کی نافرمانی کرنا اور اپنے قبلہ یعنی بیت الحرام کی آباد اور بنجر زمین کو حلال سمجھنا ہیں، جب کوئی ایسا بندہ مرتاہے جس نے یہ کبیرہ گناہ نہ کئے ہوں اور نماز قائم کی ہوا ور زکوٰۃ ادا کی ہو تو وہ جنت کے درمیان (حضرت سیدنا )محمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا ایسی جگہ رفیق ہو گا جس کے دروازوں کے پَٹ سونے کے ہوں گے۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۰۱،ج۱۷،ص۴۸، بدون ”یری أنہ علیہ حق” )
(14)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردْگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اے ابنِ خطاب! جاؤ۔” اور ایک روایت میں ہے :”اے عمر! اٹھو اور جاکر لوگو ں میں اس بات کا اعلان کردو کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(جامع الترمذی ، ابواب السیر،باب ماجاء فی الغلول،الحدیث:۱۵۷۴،ص۱۸۱۴،بدون”فی الناس”)
اسے حضرت سیدناامام احمد، امام مسلم ا ور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم نے روایت کیا اور فر مایا:” یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔”
(15)۔۔۔۔۔۔رسولِ کائنات، فخرِموجودات صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے :”اے ابن عوف! اپنے گھوڑے پر سوار ہوکراعلان کر دو کہ جنت صرف مؤمن ہی کے لئے حلال ہے۔”
(سنن ابی داؤد، کتاب الخراج، باب فی تعشیر اھل الذمۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۳۰۵۰،ص۱۴۵۲)
(16)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اے بلال! اُٹھو اورا علان کر دو کہ جنت میں صرف مؤمن ہی داخل ہوگا اور بے شک اللہ عزوجل اس دین کی مدد فاجر شخص کے ذریعے بھی فرماتا ہے۔”
(صحیح البخاری ، کتاب القدر، باب العمل بالخواتیم،الحدیث:۶۶۰۶،ص۵۵۲)
(17)۔۔۔۔۔۔ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جنت میں مسلمان ہی داخل ہوگا۔” ایک اور روایت میں ہے :”جنت میں مسلمان جان ہی داخل ہوگی اور بے شک اللہ عزوجل اس دین کی مدد فاجر شخص کے ذریعے بھی فرما دیتا ہے۔”
(صحیح البخاری،کتاب الجھاد، باب ان اللہ لیؤیدالدین ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۳۰۶۲،ص۲۴۶)
(18)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دو۔”
(صحیح البخاری،کتاب الجھاد، باب لایعذب بعذاب اللہ ، الحدیث:۳۰۱۷،ص۲۴۲)
(19)۔۔۔۔۔۔ نبی کریم ،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جو اپنے دین سے پھر جائے یعنی مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔”
(سنن ابی داؤد،کتاب الحدود،باب حکم فیمن ارتد ، الحدیث:۴۳۵۱،ص۱۵۴۰، ”من ارتد” بدلہ”من بدّل”)
(20)۔۔۔۔۔۔ حضور نبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”(اللہ عزوجل کی بارگاہ میں) سرِ تسلیم خم کر دو اگرچہ تم اس کو ناپسندہی کرو۔”
(المسندللامام احمد بن حنبل،مسند انس بن مالک، الحدیث:۱۲۰۶۱،ج۴،ص ۲۱۸)
(21)۔۔۔۔۔۔ اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”میں تمہیں تین باتوں کاحکم دیتا ہوں اورتین باتوں سے منع کرتا ہوں: اللہ عزوجل کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اللہ عزوجل کی رسی کو مضبوطی سے تھام لوا ور جدا جدا مت رہو اور اللہ عزوجل نے جسے تمہارے معاملے کاوالی بنا دیا ہو اس کی اطاعت کرو۔اور میں تمہیں تین باتو ں سے منع کرتاہوں ،فضول گفتگو سے، مال ضائع کرنے سے اور کثرت سے سوال کرنے سے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(کنزالعمال،کتاب الایمان والاسلام،قسم الاقوال فصل الخامس،الحدیث:۴۴۵،ج۱،ص۶۵،بدون” وتسمعوا”)
(22)۔۔۔۔۔۔ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو شخص اسلام سے پھر جائے تو اسے اسلام کی طرف بلا ؤ، اگر وہ توبہ کر لے تو اس کی توبہ قبول کر لو اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کی گردن مار دو اور جو عورت اسلام سے پھر جائے اسے اسلام کی دعوت دو اگر وہ توبہ کر لے تو اس کی توبہ قبول کرلو اور اگر توبہ نہ کرے تو اسے قید کر دو۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۹۳،ج۲۰،ص۵۳)
اس حدیثِ مبارکہ کاظاہری مفہوم اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ مرتدہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا جبکہ ہمارے نزدیک مندرجہ ذیل صحیح حدیث کے عام حکم کی وجہ سے مندرجہ بالا حدیث کامفہوم صحیح ترین مذہب کے خلاف ہے۔
(23)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔”
(صحیح البخاری،کتاب الجھاد، باب لاتعذب بعذاب اللہ ،الحدیث:۳۰۱۷،ص۲۴۲)
(24)۔۔۔۔۔۔ رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے اپنا دین بدل لیا یا جو اپنے دین سے پھرگیا اسے قتل کردو اور اللہ عزوجل کے بندوں کو اللہ عزوجل جیسا عذاب نہ دو۔” (یعنی آگ میں نہ جلاؤ۔)
(السنن الکبری للبیہقی،کتاب المرتد،باب قتل من ارتدعن الاسلام۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۱۶۸۵۸،ج۸،ص۳۵۱،بدون”عباداللہ”)
(25)۔۔۔۔۔۔ خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دو اور جو بندہ مسلمان ہونے کے بعد کفر اختیار کرلے اللہ عزوجل اس کی توبہ قبول نہیں فرماتا ۔”(یعنی جب تک وہ کفر پر قائم رہتاہے اللہ عزوجل اس کی توبہ قبول نہیں فرماتا۔)
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۰۱۳،ج۱۹،ص۴۱۹)
(26)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المُبلِّغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو اپنے دین سے پھرجائے اسے قتل کر دو اور کسی کو اللہ عزوجل جیسا عذاب نہ دو (یعنی کسی کو آگ میں نہ جلاؤ)۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(صحیح ابن حبان،باب الرِّدَّۃ،الحدیث:۴۴۵۹،ج۶،ص۳۲۳)
(27)۔۔۔۔۔۔ شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو اپنا دین تبدیل کرلے اس کی گردن مار دو۔”
(کنزالعمال،کتاب الایمان والاسلام،قسم الاقوال ،باب الارتداد،الحدیث:۳۹۰،ج۱،ص۶۱)
(28)۔۔۔۔۔۔ مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے اپنے مسلمانوں والے دین کی مخالفت کی اسے قتل کر دو اور جب وہ اس بات کی گواہی دینے لگے کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس بات کی گواہی کہ محمد( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )اللہ عزوجل کے رسول ہیں تو اسے قتل کرنے کی کوئی راہ نہیں مگر جبکہ وہ کوئی ایسا عمل کرے جس کی وجہ سے اس پر حد قائم کی جائے۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۱۶۱۷،ج۱۱،ص۱۹۳)