islam
علم غیب کے مراتب اور ان کی پہچان
الف:جہاں علم غیب کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا جاوے یا اس کی بندوں سے نفی کی جاوے تو اس علم غیب سے ذاتی ، دائمی، جمیع علوم غیبیہ، قدیمی مراد ہوگا ۔
ب:جہاں علم غیب بندوں کے لئے ثابت کیا جاوے یا کسی نبی کا قول قرآن میں نقل کیا جاوے کہ فلاں پیغمبر نے فرمایا کہ میں غیب جانتا ہوں وہاں مجازی، حادث ، عطائی علم غیب مراد ہوگا جیسا کہ قاعدہ نمبر ۱۵ میں دیگر صفات کے بارے میں بیان کردیا گیا ۔
”الف” کی مثال یہ ہے :
(1) قُل لَّا یَعْلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیۡبَ اِلَّا اللہُ
تم فرمادو کہ آسمانوں اورزمین میں غیب کوئی نہیں جانتا اللہ کے سوا۔(پ20،النمل:65)
(2) عِنۡدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیۡبِ لَا یَعْلَمُہَاۤ اِلَّا ہُوَ
اس رب کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سواکوئی نہیں جانتا ۔(پ7،الانعام:59)
(3) اِنَّ اللہَ عِنۡدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ
قیامت کا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔(پ21،لقمٰن:34)
(4) وَمَا تَدْرِیۡ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا ؕ وَمَا تَدْرِیۡ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوۡتُ
اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی ۔(پ21،لقمٰن:34)
(5) وَلَوْ کُنۡتُ اَعْلَمُ الْغَیۡبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیۡرِ
اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت خیر جمع کرلیتا ۔(پ9،الاعراف:188)
ان جیسی تمام آیات میں علم غیب ذاتی یا قدیمی یا مستقل مراد ہے اس کی نفی بندوں سے کی جارہی ہے ۔ب کی مثال یہ آیات ہیں:
(1) ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ
قرآن ان پر ہیز گار وں کا ہادی ہے جو غیب پر ایمان لائیں (پ1،البقرۃ:2،3) (ظاہر ہے کہ غیب پر ایمان جان کر ہی ہوگا )
(2) عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ
اللہ غیب کا جاننے والا ہے پس نہیں مطلع کرتا اپنے غیب پرکسی کو سوا پسندیدہ رسول کے۔(پ29،الجن:26،27)
(3) وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ؕ وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا ﴿۱۱۳﴾
اور سکھا دیا آپ کو وہ جوآپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے ۔(پ5،النسآء:113)
(4) وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَاتَعْلَمُوۡنَ ﴿۶۲﴾
یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ جانتا ہوں میں اللہ کی طرف سے وہ جوآپ نہیں جانتے(پ8،الاعراف:62)
(5) وَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا تَاۡکُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَ ۙ فِیۡ بُیُوۡتِکُمْ
اور خبر دیتا ہوں میں تمہیں جو تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو او رجو جمع کرتے ہو۔(پ3،اٰل عمرٰن:49)
(6) قَالَ لَا یَاۡتِیۡکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٖۤ اِلَّا نَبَّاۡتُکُمَا بِتَاۡوِیۡلِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّاۡتِیَکُمَا ؕ ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیۡ رَبِّیۡ
یوسف علیہ السلام نے فرمایاجو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے وہ تمہارے پا س نہ آئیگا کہ میں اس کی تعبیر اس کے آنے سے پہلے تمہیں بتا دوں گا یہ ان علموں میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھایا ہے (پ13،یوسف:37)۔
(7) وَ مَا ہُوَ عَلَی الْغَیۡبِ بِضَنِیۡنٍ ﴿ۚ۲۴﴾
اور وہ نبی غیب بتانے پر بخیل نہیں۔(پ30،التکویر:24)
ان جیسی تمام آیتو ں میں علم غیب عطائی، غیر مستقل ،حادث ، عارضی مراد ہے کیونکہ یہ علم غیب بندہ کی صفت ہے جب بندہ خود غیر مستقل اور حادث ہے تو اس کی تمام صفات بھی ایسی ہی ہوں گی۔