islam
پڑوسیوں کے حقوق:
(22)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا معاويہ بن حيدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں:”ميں نے بارگاہِ رسالت مآب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ميں عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! آدمی پر پڑوسی کے کيا حقوق ہيں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا:”اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عيادت کرو، اگر مر جائےتو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگےتو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہو جائےتو اس کی پردہ پوشی کرو۔”
( المعجم الکبیر ، الحدیث: ۱۰۱۴ ، ج۱۹ ، ص ۴۱۹)
(23)۔۔۔۔۔۔ حضرت ابوشیخ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی روایت میں ہے:”اگر وہ تم سے مدد طلب کرےتو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہوجومیں تمہیں کہہ رہاہوں؟پڑوسی کاحق کم لوگ ہی اداکرتے ہیں جن پراللہ عزوجل کارحم وکرم ہوتاہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(الترغیب والترہیب،کتاب البروالصلۃ،باب الترہیب من اذی۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۳۹۱۵(۲۱)،ج۳،ص۲۴۳)
(24)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے:”اگر وہ تنگدست ہو جائےتو اسےتسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگراُسے مصيبت پہنچےتو اس سےتعزيت کرو، اگر وہ مر جائےتو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغير اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہوا نہ روکو، بھنے ہوئے گوشت سے اسےتکلیف نہ پہنچاؤہاں یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دوتو صحیح ہے، اگر پھل خريد کر لاؤ تو اسے بھی اس ميں سے کچھ تحفہ بھيجو اور ايسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور اپنے بچوں کو پھل دے کر باہرنہ جانے دوکہ کہيں اس سے پڑوسی کے بچے احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔”
(شعب الایمان، باب فی اکرام الجار ، الحدیث:۹۵۶۰،ج۷، ص۸۳)
(25)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جو جانتا ہو کہ اس کا پڑوسی اس کے پہلو ميں بھوکا ہے پھر بھی شکم سير ہو کر رات گزارےتو اس کا مجھ پر ايمان نہيں۔”
( المعجم الکبیر ، الحدیث: ۷۵۱ ، ج۱ ، ص ۲۵۹)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(26)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المُبلِّغین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جو خود شکم سير ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دارنہيں۔”
(المرجع السابق ، الحدیث: ۱۲۷۴۱ ، ج۱۲ ، ص ۱۱۹)
(27)۔۔۔۔۔۔ايک شخص نےسرکارِمدینہ،سرور قلب وسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس ميں حاضر ہو کر عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! لباس عطا فرمایئے۔” تو مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق وامین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس سے اپنا رُخِ انور پھير ليا، اس نے پھر عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! مجھے لباس عطا فرمایئے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”کيا تمہارا کوئی پڑوسی نہيں جس کے پاس دوکپڑے حاجت سے زائد ہوں؟” اس نے عرض کی:”کيوں نہيں، ايسے بہت سے پڑوسی ہيں۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”پھر اللہ عزوجل اسے تمہارے ساتھ جنت ميں اکٹھا فرمائے گا۔”
( المعجم الاوسط ، الحدیث: ۷۱۸۵، ج۵ ، ص ۲۳۶)
(28)۔۔۔۔۔۔رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”بہت سے پڑوسی قيامت کے دن اپنے پڑوسيوں کادامن پکڑ لیں گے، مظلوم پڑوسی عرض کریگا:”يا رب عزوجل! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھ پر اپنا دروازہ بند کر رکھا تھااور اپنی ضرورت سے زائد چيزيں مجھ سے روکی تھيں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( کنز العمال ،کتاب الصحبۃ ، قسم الاقوال ، باب الرابع فی حقوق ۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث: ۲۴۸۹۴، ج۹ ، ص ۲۳ ،لفظ آخر”فاخرق”)
(29)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”کون ہے جو مجھ سے يہ کلمات سيکھے پھر ان پر عمل کرے يا ان پر عمل کرنے والے کو يہ کلمات سکھائے۔” تو ميں نے عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ميں ہوں۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ميرا ہاتھ پکڑ کر پانچ چیزیں ارشاد فرمائیں:”(۱)حرام کاموں سے بچتے رہنا لوگوں ميں سب سے بڑے عبادت گزار بن جاؤ گے (۲)اللہ عزوجل نے رزق کا جو حصہ تمہارے لئےتقسيم فرمايا ہے اس پر راضی رہنا سب سے زيادہ غنی ہو جاؤ گے (۳)اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرنا مؤمن ہو جاؤ گے (۴)لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو مسلمان ہو جاؤ گے اور (۵)زيادہ مت ہنسنا کہ زيادہ ہنسنا دل کو مردہ کر ديتا ہے۔”
(جامع الترمذی ،ابواب الزھد ، باب من اتقی المحارم۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۲۳۰۵ ، ص۱۸۸۴)
(30)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”اللہ عزوجل کے نزديک بہترين رفیق وہ ہے جو اپنے دوست کے لئے زيادہ اچھا ہے اوراللہ عزوجل کے نزديک بہترين پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں دوسروں سے زيادہ اچھاہے۔”
( جامع الترمذی ،ابواب البر و الصلۃ ، ماجاء فی حق الجوار ، الحدیث: ۱۹۴۴ ، ص ۱۸۴۷)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(31)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جن لوگوں سے اللہ عزوجل محبت فرماتا ہے ان ميں وہ شخص بھی شامل ہے جس کا برا پڑوسی اسے ايذاء دےتو وہ اس کی ايذاء رسانی پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ عزوجل اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔”
(المعجم الکبیر، الحدیث:۱۶۳۷، ج۲، ص۱۵۲ )
(32)۔۔۔۔۔۔سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جبرائيل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے ميں وصيت کرتے رہے يہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ اسے وراثت ميں حصہ داربناديں گے۔” ( صحیح البخاری ،کتاب الادب ، باب الوصاء ۃ بالجار ، الحدیث: ۶۰۱۵، ص۵۰۹)
(33)۔۔۔۔۔۔ايک انصاری فرماتے ہيں کہ ميں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زيارت کے ارادے سے نکلاتوميں نے ديکھا کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم ايک جگہ قيام فرما ہيں اور ايک شخص آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی طرف متوجہ ہے ميں سمجھا کہ شايد کوئی حاجت مند ہے، پس ميں بيٹھ گيا،اللہ عزوجل کی قسم! نبی کریم ،رء ُ وف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اتنی دير تک کھڑے رہے کہ ميں نے زيادہ لمبے قيام کی وجہ سے اپنی وراثت آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کے لئے مختص کردی (يعنی مجھے اپنی موت کاخطرہ لگ گيا)پھرجب وہ شخص چلا گيا تو ميں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی خدمت ميں حاضر ہو کر عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!يہ شخص آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کے ساتھ اتنی دير کھڑا رہا کہ ميں نے اپنی وراثت آپ کے لئے مقرر کر دی تھی۔”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”کيا تم جانتے ہو کہ وہ کون تھا؟” ميں نے عرض کی:”نہيں۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”وہ جبرائيل(علیہ السلام)تھے ، مجھے پڑوسی کے بارے ميں وصيت کرتے رہے يہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ اسے وراثت ميں حصہ دار بنا ديں گے اور تم اگر انہيں سلام کرتےتو وہ تمہيں سلام کا جواب ضرور ديتے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( المسند للامام احمدبن حنبل،احادیث رجال من اصحاب النبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلَّم ، الحدیث:۲۳۱۵۴،ج۹،ص ۴۰)
(34)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو اُمامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:”ميں نے نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی اونٹنی جدعاء پر سوار ہو کر یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:”ميں تمہيں پڑوسيوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصيت کرتا ہوں۔” پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے پڑوسيوں کے اس قدر حقوق بيان فرمائے کہ ميں نے سوچا: ”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم اسے وراثت ميں حصہ دار بنا ديں گے۔” ( المعجم الکبیر ، الحدیث: ۷۵۲۳، ج۸ ، ص ۱۱۱)
(35)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے اہلِ خانہ ميں ايک بکری ذبح کی گئی، جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر تشريف لائےتو پوچھا:”کيا تم نے اپنے يہودی پڑوسی کو ہديہ بھيجا؟” انہوں نے عرض کی:”نہيں۔” تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ ميں نے دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:” جبرئيل (علیہ السلام) مجھے پڑوسی کے بارے ميں وصيت کرتے يہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ اسے وراثت ميں حصہ دار بنا ديں گے۔”
( جامع الترمذی ،ابواب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی حق الجوار ، الحدیث: ۱۹۴۳ ، ص ۱۸۴۷)
(36)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”آدمی کی خوش بختی ميں سے ہے کہ اس کا پڑوسی نيک ، سواری اچھی اور گھر وسيع ہو۔”
( المسند للامام احمد بن حنبل ،حدیث نافع بن عبد الحارث، الحدیث: ۱۵۳۷۲ ، ج۵ ، ص ۲۴۰)
(37)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”چارچيزيں خوش بختی کی علامت ہيں: (۱)نيک بيوی(۲)وسيع گھر (۳)نیک پڑوسی اور (۴)اچھی سواری اور 4چيزيں بدبختی کی دلیل ہيں: (۱)بُرا پڑوسی(۲)بری بيوی (۳)بری سواری اور (۴)تنگ مکان۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( صحیح ابن حبان،کتاب النکاح، الحدیث:۴۰۲۱،ج۶،ص۱۳۵)
(38)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اللہ عزوجل نيک مسلمان کی وجہ سے اس کے پڑوس کے 100گھروں سے بَلا دور فرما ديتا ہے۔” پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے يہ آيت مبارکہ تلاوت فرمائی:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرْضُ
ترجمۂ کنز الايمان:اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہو جا ئے ۔(پ3، البقرۃ:251)
( المعجم الاوسط ، الحدیث: ۴۰۸۰ ، ج۳ ، ص ۱۲۹،بدون الایۃ)