درجۂ والدین از: محمداسماعیل ،تاجرہانگل شریف
درجۂ والدین
از: محمداسماعیل ،تاجرہانگل شریف
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کا ارشاد مبارک ہے ۔’’اگر والدین تمہارے مال واسباب پربھی قابو پالیںاوراس سے محروم کردیںتو بھی اُف نہ کرو۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مبارک ارشاد ہے بالکل حق ہے ۔کیونکہ جب اولاد انکی ہے تو واقعی اولاد کی تمام چیزیں بھی انہی کی ہوئیں ۔ اولاد کو ہر ممکن کوشش کرکے بہتر حالت کوپہنچانایہ والدین ہی کا کام ہے ۔ گویا اولاد کی کمائی والدین کی کوشش کا پھل ہے ۔اور وہ پھل کے حقدار والدین ہی ہیں ۔ غور کیجئےعقل اور انسانیت قبول کرتی ہے کہ اولاد کسی حالت میں بھی والدین کو اپنی کمائی سے محروم نہیںکرسکتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں ’’اس کی ناک خاک آلود ہو ،اس کی ناک خاک آلود ہو ،اس کی ناک خاک آلود ہو جواپنے ماں باپ یا ان میں سے ایک کے بڑھاپے کا زمانہ پائے اورپھر بھی بہشت میںنہ جائے‘‘۔ اس سے صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدمت ِ والدین جنّت کی کنجی ہے ۔ حضرت بایزید بسطا می کی والدہ نےپانی مانگا ۔ رات کاوقت تھا یہ پانی لینے گئے، ماں کی آنکھ لگ گئی۔ ادب سے جگانا گوارا نہ کیا ۔ رات بھر اسی طرح پانی لئے کھڑرہے ۔ صبح ماں بہت خوش ہوئیں دعادی ۔ حضرت با یزید بسطامی فرماتے تھے کہ مجھے جو کچھ ملا ہے اپنی بوڑھی ماں کی خدمت واطا عت سے ملا ہے۔حضرت امام ا عظم کی بزرگ والدہ صاحبہ بہت شکی مزاج تھیں اور نسوائی طریقوں کے مطابق عام واعظوں اور معمولی داستان گو لوگوںسے عقیدہ رکھتی تھیں ۔چنانچہ کوفہ کے مشہور واعظ عمرو بن زر سے عقیدہ رکھتی تھیںکو ئی مسئلہ پیش آتا تو کہتیں عمرو بن ذر سے پوچھ آؤ خود بتاتے تو فرماتیں تو کیا جانے ؟چنانچہ تعمیل ارشاد فرماتے ۔عمروبن زر معذرت فرماتے کہ آپ کے سامنے میں کیا زبان کھول سکتا ہوں؟ نہیں میری ماں کا حُکم ہے ۔اکثر وہ (عمروبن ذر ) امام اعظم سے ہی پوچھ کر بتاتے ۔سیری نہ ہوتی تو کہتیں میں خود جاکر پوچھونگی ۔ چنانچہ اُ نہیں خچّر پر سوار کراکے لے جاتے اور خود ادب سے پیدل چلتے ۔