islam
کبيرہ نمبر119: ميت کی ہڈی توڑنا کبيرہ نمبر120: قبر کے اوپر بيٹھنا
(1)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”ميت کی ہڈی توڑنا زندگی میں اس کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے۔”
(سنن ابی داؤد، کتاب الجنائز ، باب فی الحفّاریجد العظم۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۳۲۰۷،ص۱۴۶۴)
(2)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تم ميں سے کوئی شخص کسی انگارے پر بيٹھے اور اس کے کپڑے جل جائيں اور اس کی جلد تک اثر پہنچ جائے تو يہ اس کے لئے کسی قبر کے اوپر بيٹھنے سے بہتر ہے۔”
(صحیح مسلم، کتاب الجنائز ، باب النھی عن الجلوس علی القبر۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۲۴۸،ص۸۳۰)
(3)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”ميں کسی انگارے يا تلوار پر چلوں يا ميرے جوتے ميرے پاؤں ميں گُھس جائيں يہ مجھے کسی قبر کے اوپرچلنے سے زيادہ پسند ہے۔”
(ابن ماجہ، ابواب الجنائز ،باب ماجاء فی النھی عن المشی۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۱۵۶۷،ص۲۵۷۰)
(4)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :”ميں انگارے پر قدم رکھوں يہ مجھے مسلمان کی قبر پر قدم رکھنے سے زيادہ محبوب ہے۔” (المعجم الکبیر،الحدیث: ۹۶۰۵،ج۹،ص۳۲۱)
(5)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا عمارہ بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے ايک قبر کے اوپر بيٹھے ديکھا تو ارشاد فرمايا :”اے قبر والے! قبر کے اوپربیٹھنے والے شخص نيچے اُتر جا ،نہ تُو قبر والے کو ايذاء دے نہ وہ تجھے ايذاء دے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(مجمع الزوائد،کتاب الجنائز،باب النساء علی القبوروالجلوس۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۴۳۲۱،ج۳،ص۱۹۱)
تنبیہ:
ميں نے ان گناہوں کو کبيرہ گناہوں ميں شمار ہوتے نہيں ديکھا مگربیان کی گئی احاديثِ مبارکہ سے يہ بخوبی معلوم ہوتاہے کہ یہ کبیرہ گناہ ہے کيونکہ ان ميں بيان شدہ وعيد بہت سخت ہے اور اس ميں کوئی شک بھی نہيں کيونکہ مردہ کی ہڈی توڑنا زندہ آدمی کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے، جبکہ قبر پر بيٹھنا ہمارے اصحابِ شوافع رحمہم اللہ تعالیٰ کی ايک جماعت کے نزديک حرام ہے،سیدنا امام نووی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اپنی بعض کتب ميں سابقہ احاديثِ مبارکہ کی بناء پر ان کی متابعت کی ہے، جس طرح انہوں نے ان احادیثِ مبارکہ سے ان دونوں افعال کی حرمت پر استدلال کيا ہے اسی طرح ہم ان کے کبيرہ گناہ ہونے پر ان احادیثِ مبارکہ ہی سے استدلال کرتے ہيں کيونکہ کبيرہ کی تعريفات ميں سے ايک تعريف تو اس پر صادق آتی ہے اور وہ وعيد کا سخت ہونا ہے۔