Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

کبيرہ نمبر99: انسان کا تنہا سفر کرنا

(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابو ہريرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم، شفيع معظَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والے ہيجڑے مردوں پر اور ان مردانی عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختيار کرتی ہيں اور بيابان ميں تنہا سفر کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔”
    ( المسند للام احمد بن حنبل ، مسند ابوہریرۃ،الحدیث:۷۸۶۰،ج۳،ص۱۳۳)
 (2)۔۔۔۔۔۔حضور نبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اگر لوگ جان ليں کہ تنہائی ميں کيا ہے تو ميں نہيں جانتا کہ کوئی شخص رات کو اکيلا سفر کرے۔”
 ( صحیح البخاری ،کتاب الجھاد ، باب السیر وحدہ ، الحدیث ۲۹۹۸، ص۲۴۱،بتغیرٍقلیلٍ)
 (3)۔۔۔۔۔۔ايک شخص سفر سے واپس آيا تو اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس سے دریافت فرمایا :”تم سفر ميں کس کے رفیق تھے؟” اس نے عرض کی :”ميں کسی کا رفیق نہ تھا۔” تو شہنشاہِ خوش خصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”ایک سوار (یعنی مسافر) شيطان ہے اور دوسواردوشيطان ہيں اور اگر تین ہوں تو سوار ہيں۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

  ( سنن ابی داؤد ،کتاب الجہاد ، باب فی الرجل یسافر وحدہ ، الحدیث۲۶۰۷،ص ۱۴۱۶ )
    تین سے کم مسافروں کے گناہ گار ہونے کی دليل يہ ہے کہ دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے 
خبر دی ہے کہ ايک سوار ايک شيطان ہے جبکہ دو سوار دو شيطان ہيں، شيطان کا سب سے مناسب تر معنی گناہ گار ہونا ہے۔
    جيسا کہ اللہ عزوجل کے اس فرمانِ عالیشان میں شیطان سے مراد گنہگار ہے:
شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الْجِنِّ
ترجمۂ کنز الایمان:آدميوں اور جنوں ميں کے شيطان۔(پ8، الانعام:112)
(4)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اکیلا مسافر ايک شيطان ہے، دو مسافر دوشيطان ہيں جبکہ تين شخص مسافر ہيں۔”
( صحیح ابن خزیمہ ،کتاب المناسک ، باب النہی عن سیر الاثنین ، الحدیث ۲۵۷۰، ج۴ ، ص ۱۵۲)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

تنبیہ:

    مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ کی صراحت کی بناء پر اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گيا مگر يہ ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے کلام کے مطابق نہيں کيونکہ وہ اس کام(یعنی تنہا سفر) کے مکروہ ہونے کی تصريح کرتے ہيں لہٰذاگناہ ہونے کے قول کو اس شخص پر محمول کرنا چاہے جو تنہا سفر کرنے يا کسی ايک کے ساتھ سفر کرنے کی صورت ميں ہونے والے سخت نقصان سے آگاہ ہو جيسے راستے ميں نقصان پہچانے والے وحشی درندے وغيرہ کا سامنا ہونے کے بارے ميں علم رکھتا ہو۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!