islam
کبیرہ نمبر56: اولیاء اللہ کو ایذاء دینا اور ان سے عداوت رکھنا
اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے :
(1) وَالَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیۡرِ مَا اکْتَسَبُوۡا فَقَدِ احْتَمَلُوۡا بُہۡتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیۡنًا ﴿٪58﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اور جو ایمان والے مردوں اورعورتوں کوبے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتا ن اورکھلا گناہ اپنے سرلیا۔(پ22،الاحزاب:58)
(2) وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیۡنَ ﴿88﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اورمسلمانوں کواپنے رحمت کے پروں میں لے لو۔(پ14، الحجر:88)
(1)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیدنا انس اورحضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے، خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کا فرمانِ ذیشان ہے :”جس نے میرے کسی ولی کی توہین کی بے شک اس نے میرے ساتھ جنگ کا اعلان کیا مجھے کسی کام میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا اس مومن بندے کی روح قبض کرنے میں ہوتا ہے جو موت کو ناپسند کرتا ہے تو میں بھی اپنے بندے کو تکلیف دینے کو ناپسند جانتا ہوں مگر اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں، میرا مؤمن بندہ دنیا سے بے رغبتی جیسے کسی اور عمل سے میرا قرب حاصل نہیں کرسکتا اور میرے فرض کردہ احکام کی بجاآوری جیسی میری کوئی دوسری عبادت نہیں کر سکتا۔”
(کنزالعمال،کتاب الایمان والاسلام، قسم الاقوال،الحدیث: ۱۶۷۶،ج۱،ص۲۰۰،بتقدم وتأخر)
(2)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے :”جس نے میرے کسی ولی سے عداوت رکھی میں اس کے ساتھ اعلانِ جنگ کروں گا ، میرے کسی بندے نے میرے فرض کردہ احکام کی بجاآوری سے زیادہ محبوب شے سے میرا قرب حاصل نہیں کیا اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو مَیں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے، اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے ضرور عطا فرماتا ہوں اور اگر کسی چیز سے میری پناہ چاہے تو میں اسے ضرور پناہ عطا فرماتا ہوں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(صحیح البخاری،کتاب الرقاق،باب التواضع،الحدیث: ۶۵۰۲،ص۵۴۵)
(3)۔۔۔۔۔۔حضرت ابوسفیان حضرت سیدنا سلمان، حضرت سیدنا صہیب اورحضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے گروہ کے پاس آئے تو ان حضرات رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ان سے کہا :”ابھی اللہ عزوجل کی تلواروں نے اس کے دشمنوں سے اپنا پورا حق وصول نہیں کیا۔” (کیونکہ ابوسفیا ن اس وقت مسلمان نہ ہوئے تھے) تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا :”کیا یہ بات تم قریش کے بزرگ اور ان کے سردار سے کہہ رہے ہو؟” پھر جب حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبئ کریم،رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اس واقعہ کی خبر دی تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”اے ابوبکر! شاید تم نے انہیں ناراض کر دیا ہے اگر تم نے انہیں ناراض کر دیا ہے تو بے شک اپنے رب عزوجل کو ناراض کر دیا۔” لہٰذا حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تین صحابہ کرام علیہم الرضوان کے پاس تشریف لائے اور ان سے اِستفسار فرمایا:”اے میرے بھائیو! کیا تم مجھ سے ناراض ہو؟” انہوں نے عرض کی :”اے بھائی ! نہیں، اللہ عزوجل تمہاری مغفرت فرمائے۔”
(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل سلیمان وبلال وصہیب ،الحدیث: ۶۴۱۲،ص۱۱۱۸)
فقراء خصوصاً ایمان لانے میں سبقت لانے والے فقراء صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے احترام کی عظمت کا اندازہ اللہ عزوجل کے اُس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب مشرکین نے تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ان فقراء صحابہ کے پاس بیٹھنے سے جدا کرناچاہا اور کہا :”انہیں چھوڑ دیجئے کیونکہ ہم اس بات کوپسند نہیں کرتے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ان کے ساتھ بیٹھیں اور اگر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے انہیں چھوڑ دیا تو قریش کے معزز سردار آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر ایمان لے آئیں گے۔” تواللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:
وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجْہَہٗ ؕ
ترجمۂ کنز الایمان:اور دور نہ کروانہیں جواپنے رب کوپکارتے ہیں صبح اورشام اس کی رضا چاہتے۔ (پ۷، الانعام:۵۲)
جب کفار اس بات سے مایوس ہو گئے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ان فقراء صحابہ کرام علیہم الرضوان کو خود سے دور نہیں کریں گے تو انہوں نے مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے درخواست کی :”ایک دن ہمارے لئے مقرر فرما دیں اور ایک دن ان کے لئے۔” اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیتِ مبارکہ نازل فرمائی:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجْہَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیۡنٰکَ عَنْہُمْ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ
ترجمۂ کنز الایمان:اوراپنی جان ان سے مانوس رکھوجوصبح وشام اپنے رب کوپکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے ہیں اورتمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اورپرنہ پڑیں کیاتم دنیا کی زندگانی کا سنگار چاہو گے۔ (پ15، الکھف:28)
یعنی ان سے منہ پھیر کراور اپنی نظرِکرم نہ فرما کر ان پر زیادتی نہ کیجئے اور دنیا پرست لوگوں کی صحبت کو طلب نہ کیجئے۔
وَقُلِ الْحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمْ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلْیُؤْمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ
ترجمۂ کنز الایمان:اورفرمادوکہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے توجوچاہے ایمان لائے اورجوچاہے کفرکرے۔(پ15، الکھف:29)
(۱)پھران کے لئے اپنے اس فرمان سے غنی اور فقیرکی مثال بیان فرمائی:
وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیۡنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیۡنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰہُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیۡنَہُمَا زَرْعًا ﴿ؕ32﴾کِلْتَا الْجَنَّتَیۡنِ اٰتَتْ اُکُلَہَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِّنْہُ شَیْـًٔا ۙ وَّ فَجَّرْنَا خِلٰلَہُمَا نَہَرًا ﴿ۙ33﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اوران کے سامنے دومردوں کا حال بیان کرو کہ ان میں ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دیئے اور ان کو کھجوروں سے ڈھانپ لیا اور ان کے بیچ میں کھیتی رکھی۔ دونوں باغ اپنے پھل لائے اور اس میں کچھ کمی نہ دی اور دونوں کے بیچ میں ہم نے نہر بہائی۔(پ15، الکھف:32۔33)
(2) وَّکَانَ لَہٗ ثَمَرٌ ۚ فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗۤ اَنَا اَکْثَرُ مِنۡکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا ﴿34﴾ وَ دَخَلَ جَنَّتَہٗ وَ ہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنۡ تَبِیۡدَ ہٰذِہٖۤ اَبَدًا ﴿ۙ35﴾وَّمَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ اِلٰی رَبِّیۡ لَاَجِدَنَّ خَیۡرًا مِّنْہَا مُنۡقَلَبًا ﴿36﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اور وہ پھل رکھتا تھا تواپنے ساتھی سے بولا اور وہ اس سے ردوبدل کرتا تھا میں تجھ سے مال میں زیادہ ہوں اورآدمیوں کا زیادہ زور رکھتا ہوں۔اپنے باغ میں گیا اور اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا بولا مجھے گمان نہیں کہ یہ کبھی فنا ہو۔ اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہو اور اگر میں اپنے رب کی طرف پھر گیا بھی تو ضرور اس باغ سے بہتر پلٹنے کی جگہ پاؤں گا۔(پ15،الکھف34تا36)
(3) قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗۤ اَکَفَرْتَ بِالَّذِیۡ خَلَقَکَ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰىکَ رَجُلًا ﴿ؕ37﴾لٰکِنَّا۠ ہُوَ اللہُ رَبِّیۡ وَ لَاۤ اُشْرِکُ بِرَبِّیۡۤ اَحَدًا ﴿38﴾وَلَوْلَاۤ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ۚ اِنۡ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنۡکَ مَالًا وَّ وَلَدًا ﴿ۚ39﴾فَعَسٰی رَبِّیۡۤ
ترجمۂ کنز الایمان:اس کے ساتھی نے اس سے الٹ پھیر کرتے ہوئے جواب دیاکیا تو اس کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے بنایا پھر نطفہ سے پھر تجھے ٹھیک مرد کیا۔ لیکن میں تو یہی کہتا ہوں کہ وہ اللہ ہی میرا رب ہے اور میں کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں کرتا ہوں۔ اور کیوں نہ ہوا کہ جب تو اپنے باغ میں گیا تو کہا ہوتا جو چاہے اللہ ہمیں کچھ زور نہیں مگر اللہ کی مدد کا اگر تو مجھے اپنے سے مال واولاد میں کم دیکھتا تھا۔ تو قریب ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ اَنۡ یُّؤْتِیَنِ خَیۡرًا مِّنۡ جَنَّتِکَ وَ یُرْسِلَ عَلَیۡہَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیۡدًا زَلَقًا ﴿ۙ40﴾
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
سے اچھا دے اور تیرے باغ پر آسمان سے بجلیاں اتارے تو وہ پٹ پر میدان(سفیدزمین) ہو کر رہ جائے۔(پ15، الکھف:37تا40)
(5) اَوْ یُصْبِحَ مَآؤُہَا غَوْرًا فَلَنۡ تَسْتَطِیۡعَ لَہٗ طَلَبًا ﴿41﴾وَاُحِیۡطَ بِثَمَرِہٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیۡہِ عَلٰی مَاۤ اَنۡفَقَ فِیۡہَا وَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا وَیَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبِّیۡۤ اَحَدًا ﴿42﴾
ترجمۂ کنز الایمان:یا اس کا پانی زمین میں د ھنس جائے پھر تو اسے ہر گز تلاش نہ کر سکے۔ اور اس کے پھل گھیر لئے گئے تو اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا اس لاگت پر جو اس باغ میں خرچ کی تھی اور وہ اپنی ٹیٹوں(اوندھے منہ ) پر گرا ہوا تھا اور کہہ رہا ہے اے کاش میں نے اپنے رب کا کسی کو شریک نہ کیا ہوتا۔(پ15، الکھف:41۔42)
(6) وَلَمْ تَکُنۡ لَّہٗ فِئَۃٌ یَّنۡصُرُوۡنَہٗ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ وَمَا کَانَ مُنۡتَصِرًا ﴿ؕ43﴾ہُنَالِکَ الْوَلَایَۃُ لِلہِ الْحَقِّ ؕ ہُوَ خَیۡرٌ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ عُقْبًا ﴿٪44﴾وَاضْرِبْ لَہُمۡ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ہَشِیۡمًا تَذْرُوۡہُ الرِّیٰحُ ؕ وَکَانَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ مُّقْتَدِرًا ﴿45﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اور اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ کے سامنے اس کی مدد کرتی نہ وہ بدلہ لینے کے قابل تھا۔ یہاں کھلتا ہے کہ اختیار سچے اللہ کا ہے اس کاثواب سب سے بہتراور اسے ماننے کا انجام سب سے بھلا۔ اوران کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتاراتو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہو کر نکلا کہ سوکھی گھاس ہو گیا جسے ہوائیں اڑائیں اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔ (پ15،الکھف:43تا45)
اللہ عزوجل نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے عظیم المرتبت ہونے اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوان کی رعایت پر راغب کرنے کے لئے یہ فرمایا تھا، اسی لئے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم فقراء کو عزت سے نوازتے اور اہلِ صفہ کی خاص عزت افزائی فرماتے۔
اہلِ صفہ مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ ہجرت کرنے والے وہ مہاجر فقراء تھے جو مسجد نبوی شریف کے چبوترے ميں رہائش پذیر تھے، ہر مہاجرآکر ان کے ساتھ شا مل ہوجاتا یہا ں تک کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سخت تنگدستی کے باوجود بہت صابر تھے، مگر انہیں اللہ عزوجل کے اپنے اولیاء کے لئے تیار کردہ انعامات کے مشاہدے نے اس بات پر آمادہ کیا تھا کیونکہ اللہ عزوجل نے ان کے دلوں سے اغیار کے ہر تعلق کو مٹا دیا تھا اور انہیں نیکیوں میں سبقت اور فضیلت والے احوال ومقامات کی راہ دکھا دی تھی، اسی وجہ سے یہ حضرات اس بات کے حقدار ہو گئے کہ اللہ عزوجل انہیں اپنے در سے دور نہ کرے اور اپنے محبوب بندوں کے سامنے ان کی مدح کا اعلان کرے کیونکہ مساجد ان کا ٹھکانا، اللہ عزوجل ان کا مطلوب اورمولیٰ، بھوک ان کی غذا، رات میں جب لوگ سو جائیں تو شب بیدا ری کرنا ان کی ترکاری (یعنی سالن) اور فقر وفاقہ ان کا شعار اورغربت وحیا ان کی پونجی تھی، ان کا فقر وہ عام فقر نہ تھا جو اللہ عزوجل کا مطلق محتا ج ہونا ہے کیونکہ یہ تو ہر مخلوق کی صفت ہے اور اللہ عزوجل کے اس فرمان میں بھی یہی فقر مراد ہے :
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَی اللہِ ۚ
ترجمۂ کنز الایمان: اے لوگو!تم سب اللہ کے محتاج۔(پ22، فاطر:15)
بلکہ ان کا فقر وہ خاص فقر تھا جو اولیاء اللہ اور مقربینِ بارگاہِ اَيزدِی کا شعار ہے اوروہ یہ ہے کہ دل کا غیر کے تعلق سے خالی ہونا اور تمام حرکات وسکنات میں اللہ عزوجل کے مشاہدے سے نفع اٹھانا، اللہ عزوجل ہمیں ان کی محبت کے حقائق سے سرفراز فرما کر ان کے گرہ میں اٹھائے۔” آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم
تنبیہ:
اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کے کبیرہ گناہ ہونے کی تصریح کی ہے اور یہ اس سخت تر وعید سے بالکل ظاہر ہے کیونکہ اللہ عزوجل نے اپنی محاربت یعنی جنگ کو صرف سود کھانے اور اولیاء کرام سے عداوت رکھنے کے معاملے میں ذکر فرمایا ہے اور جس سے اللہ عزوجل محاربت فرمائے وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتا بلکہ ضروری ہے کہ اس کی موت کفر پر ہو(اَلْعَیَاذُبِاللہِ) اللہ عزوجل ہمیں اپنے فضل وکرم سے اس گناہ سے عا فیت عطا فرمائے۔”
آمين، بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم
میں نے علامہ زرکشی کو دیکھا کہ انہوں نے الخادم میں مذکورہ حدیثِ پاک ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا :”اس شدید وعید میں غور کرنے کے بعد اس سے ملی ہوئی سود کھانے پر وارد وعید پر بھی غور کر لو کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے:
فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ ۚ
ترجمۂ کنز الایمان:پھراگرایسا نہ کروتویقین کرلواللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا۔(پ3، البقرۃ:279)
احناف کے”فتاوی بديعی” میں ہے :”جس نے کسی عالم کے حقوق کو ہلکا جانا(بطورِعلم) اس کی عورت اس کے نکاح سے نکل جائے گی اور اس کے اس عمل نے گویا اسے مرتد کر دیا۔”
امام حافظ ابن عساکررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :”اے میرے بھائی ! اللہ عزوجل ہم دونوں کو توفیق بخشے اور بھلائی کے راستے پر چلائے، جان لے کہ علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے گوشت زہر آلود ہیں اور ان کی عزت دری(یعنی توہين)کے معاملہ میں اللہ عزوجل کی عادت معلوم ہے کہ جو علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کو ملامت کریگا اللہ عزوجل اسے موت سے پہلے ہی مردہ دلی میں مبتلا کر دے گا:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنْ اَمْرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیۡبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿63﴾
ترجمۂ کنز الایمان:توڈریں وہ جورسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا ان پردرد ناک عذاب پڑے۔(پ18، النور:63)