تنبیہ 9:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ایسا کیونکر نہ ہوجبکہ تم نے اپنے اس عمل سے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام، اولیاء کرام اور باعمل علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے اس گروہ سے جدائی اختیار کرلی جو اللہ عزوجل کے بندوں کو خیر پہنچانا پسند کرتے ہیں اور ابلیس وشیاطین کے اس گروہ میں شرکت کر لی ہے جو مؤمنین کے لئے مصیبتوں اور نعمتوں کے زوال کو پسند کرتے ہيں؟ دل کی یہ گندگی تمہاری نیکیوں کو اس طرح کھا جائے گی جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ حسد تمہارے دنیوی ضرر یعنی رنج وغم میں بھی اضافہ کرتاہے وہ ایسے کہ جب تم محسود کو دیکھتے ہو کہ اس کی نعمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اورتمہاری نعمتوں میں کمی ہو رہی ہے تو تم غمگین ہو جاتے ہو،پس یہ تمہارے حسد ہی کی آفت ہے کہ تم ہمیشہ اِنتہائی غمگین، رنجیدہ خاطر، تنگ دل اور شکستہ رہتے ہو،پس اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ تم آخرت میں دوبارہ جی اٹھنے اور حساب وکتاب کو نہیں مانتے تب بھی حسد کو چھوڑ دینا ہی مناسب ہے تاکہ تم اُخروی عذاب سے پہلے ان دُنیوی سزاؤں سے بچ سکو۔اس ساری گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم خود ہی اپنے دشمن اور اپنے دشمن کے دوست ہو کیونکہ تم ایک ایسی چیز کے عادی ہو جو دنیا وآخرت میں تمہارے لئے تونقصان دہ ہے جبکہ تمہارے دشمن کے لئے نفع مند ہے اوریوں تم دنيا وآخرت میں خالق عزوجل اور مخلوق دونوں کے نزدیک قابلِ مذمت اور بد بخت ہو جاؤ گے۔