Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
مسائل و فضائل

شب قدر کی علامات : لیلۃ القدرکی دعا:

شب قدر کی علامات :

حضرتِ سیِّدُناجابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے: ”میں نے شب قدر کو دیکھاپھرمجھے بھلا دی گئی۔ لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلا ش کرو اور(اس کی پہچان یہ ہے کہ)یہ ایک خوشگوار را ت ہے، نہ گرم، نہ سرد، اس رات چا ند کے ساتھ شیطان نہیں نکلتایہا ں تک کہ فجر طلو ع ہو جاتی ہے ۔”

(صحیح ابن خزیمۃ ،کتاب الصیام ،باب صفۃ لیلۃالقدر بنفی الحرو البرد ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۱۹0، ج۳، ص۳۳0، مختصر)

لیلۃ القدرکی دعا:

حضرتِ سَیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کی: ”یارسول اللہ عزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اگرمجھے شب ِ قدر کا علم ہو جا ئے تو میں کیا دعا کروں؟” توحضور سیِّدُالْمُبَلِّغِیْن، جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم یہ دعا کرو: ” اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ یعنی اے اللہ عزَّوَجَلَّ! تو بہت معاف کرنے والا، کرم فرمانے والا ہے۔ معاف کرنے کو پسندفرماتا ہے پس مجھے معاف فرمادے۔”

(جامع الترمذی ،کتاب الدعوات،باب فی فضل سؤال العافیۃ والمعافاۃ، الحدیث۳۵۱۳، ص۲0۱۳)

ستائیسویں رات شبِ قدر ہے:

حضرتِ سیِّدُنا محمد بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجرین صحا بہ کے گروہ میں تشریف فرما تھے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی مو جو د تھے کہ شب ِقدر کا تذکرہ ہو ا،پس ان حضرات نے شب ِقدر

کے متعلق جوکچھ سن رکھا تھا، کہہ دیا لیکن حضرتِ سیِّدُنا ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہما خا مو ش رہے۔ حضرتِ سیِّدُنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استفسار فرمایا:”اے عبداللہ بن عباس! آپ گفتگوکیوں نہیں کر رہے؟ آپ بھی کچھ بولئے! بولنے پر پابندی نہیں۔”تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ یوں گویاہوئے: ”بے شک اللہ عزَّوَجَلَّ طاق ہے اور طاق کو پسند فر ما تا ہے ۔اس نے ایّامِ دنیا کو اس طرح بنایا کہ وہ سات کے گردچکرلگا رہے ہیں (یعنی ہفتہ میں سات دن ہیں)، انسان کوبھی سات چیزوں سے پیدا کیا۔ ہمارے رزق کوبھی سات چیزوں سے پیدا کیا ،ہمارے اوپرسات آسمان بنائے اورنیچے سات زمینیں بچھائیں، سات سمندر بنائے، سجدے میں زمین پر لگنے والے اعضاء سات بنائے، قرآنِ مجیدمیں سات قسم کے رشتہ داروں سے نکاح حرام فرمایا اور سات قسم کے ورثاء پروراثت تقسیم فرمائی، حضور نبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوسورۂ فاتحہ کی سات آیات عطا فرمائیں اور شیاطین کو بھی سات کنکریاں ماری جاتی ہیں۔لہٰذا میرا خیال ہے کہ شب ِ قدر رمضا ن کی ستا ئیسو یں را ت ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتا ہے۔” امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ متعجب ہوئے اور ارشاد فرما یا : ”اے لوگو! ابن عبا س کی طر ح کون روایت بیا ن کرسکتا ہے؟۔” (حلیۃ الاولیاء،عبداللہ بن عباس، الحدیث۱۱۲۳،ج۱،ص۳۹۲،بتغیرٍ)

منقول ہے کہ اس سو ر ت کے کلما ت کی تعدا د تیس ہے اور حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرپراس کا اختتام ہے اور ”ھِیَ” ستائیسواں کلمہ ہے، یہ اس بات پر دلیل ہے کہ شب قدر ستا ئیسو یں رات ہے۔

(تفسیر ابن کثیر، سورۃ القدر، تحت الآیۃ۵، ج۸، ص۴۳۱)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!