Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

کھانے پینے کا بیان

یعنی نشہ آور پاک اشياء جیسے حشیش، افيون، بھنگ ۱؎ ،عنبر، زعفران اورجوز الطیب( جائفل) وغيرہ کھانا۔ ۲؎
    يہ تمام اشياء نشہ آور ہيں جيسا کہ امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان ميں سے بعض کے نشہ آور ہونے کی تصريح فرمائی ہے جبکہ د يگر علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے بقيہ کے نشہ آور ہونے کی تصريح فرمائی ہے اوریہاں نشہ دينے سے ان کی مراد عقل پر غالب آ جانا ہے، صرف بے خودی کی شدت مراد نہیں کيونکہ بے خودی نشہ آورمائع شئے کی خصوصيات ميں سے ہے، عنقريب اس کی تفصيل ”اَشْرِبَہ” کے بيان ميں آئے گی، ہم نے يہاں ان اشياء کے نشہ آورہونے کا جو معنی بيان کيا ہے اس سے معلوم ہوا کہ انہيں سُن کرنے والی اشياء کہنا بھی درست ہے۔
    جب يہ بات ثابت ہو گئی کہ يہ نشہ آور يا سُن کرنے والی اشياء ہيں تو ان کا استعمال شراب کی طرح کبيرہ گناہ اور فسق ہے اور جو وعيديں شرابی کے بارے ميں آئی ہيں وہ ان اشياء ميں سے کسی ايک کو بھی استعمال کرنے پر جاری ہوں گی کيونکہ يہ دونوں عقل کو زائل کرنے ميں مشترک ہيں،اورعقل کوباقی رکھناشریعت کامقصودہے اس لئے کہ عقل اللہ عزوجل اور اس کے رسول 
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے احکام کو سمجھنے کا آلہ ہے، اسی کے ذریعے انسان حيوان سے ممتاز ہوتا ہے، عقل ہی انسان کو نقائص سے بچا کر کمالات کے حصول پر آمادہ کرتی ہے، لہذا عقل کو زائل کرنے والی اشياء استعمال کرنے والے پر بھی شراب کی وہی وعيد جاری ہو گی جس کا بيان آگے آئے گا۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    ميں نے ايک کتاب تاليف کی ہے، جس کا نام ”تَحْذِيرالثِّقَاتِ عَنْ اِسْتِعْمَالِ الْکَفْتَۃِ وَالْقَاتِ” رکھا ہے ۔جب اہلِ يمن کا ان دونوں اشياء ميں اختلاف ہوا تو انہوں نے ميری طرف تين کتابيں بھيجيں، جن ميں سے دو اِن کی حلت پر اور ايک حرمت پر تھی اور ان دونوں قسموں کے بارے ميں حق کو آشکار کرنے کا مطالبہ کيا،پس ميں نے ان دو قسم کی اشياء سے ڈرانے کے لئے يہ کتاب تاليف کی، اگرچہ میں نے ان دونوں کی قطعی حرمت بیان نہیں کی، بہرحال ميں نے اس کتاب ميں ديگر نشہ آور اشياء کا بھی ذکر کر ديا ہے اور بعض مقامات پر کچھ تفصيلی کلام بھی کيا ہے، يہاں پر اس کا خلاصہ بيان کرنا ضروری سمجھتا ہوں چنانچہ ميں کہتا ہوں کہ ان تمام اشياء کی حرمت ميں اصل يہ حدیثِ پاک ہے کہ،
(1)۔۔۔۔۔۔اُم المؤمنین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں:”خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌلِّلْعٰلَمین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہر مُسْکِر (یعنی نشہ آور) اور مُفْتِر(یعنی سکون آور) چيز کے استعمال سے منع فرمايا ہے۔” ( سنن ابی داؤد ،کتاب الاشربۃ ، باب ماجاء فی سکر ، الحدیث: ۳۶۸۶ ، ص ۱۴۹۶ )
    علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہيں کہ مُفْتِرہر اس چيز کو کہتے ہيں جو عقل ميں فتور پيدا کرے اور اعضاء کو سن کر دے۔” اور اوپر مذکور تمام اشياء نشہ آور، سن کرنے والی اور(عقل میں) فتور ڈالنے والی ہيں۔
    علامہ قرافی اور ابن تيميہ ۱؎نے بھنگ کی حرمت پر اجماع نقل کيا اور کہا ہے کہ”جس نے اسے حلال سمجھا اس نے کفر کيا۔” 
جبکہ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے ميں کلام اس لئے نہيں کيا کہ يہ ان کے زمانے ميں نہ تھی بلکہ چھٹی صدی ہجری کے اواخر اور ساتويں صدی کے اوائل ميں تاتاريوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد ظاہر ہوئی۔
    علامہ ماوردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ايک قول ذکر کيا ہے :”ایسی بوٹی جس سے بہت زیادہ نشہ طاری ہوجائے اس کے استعمال پر سزا واجب ہو گی۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    ميں نے جوزالطیب (یعنی جائفل) ميں جو حکم بيان کيا ہے يہ وہی فتویٰ ہے جو ميں نے بہت عرصہ پہلے حرمين شريفين اور اہلِ مصر کے نزاع کے وقت ديا تھا اور کافی تلاش کے بعد ميں اس کا وہ جزئيہ تلاش کرنے ميں کامياب ہو گيا جسے يہ لوگ نہ پا سکے،  اسی لئے جب متاخرين علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی ايک جماعت سے جوزالطیب (یعنی جائفل )کے بارے ميں سوال کيا گيا تو انہوں نے کوئی شرعی دليل پيش کئے بغير اپنی مختلف آراء کا اظہار کيا اور پھر جب وہی سوال ميرے پاس بھيجا گيا تو ميں نے صريح جزئيہ اور صحيح دليل کے ساتھ اپنے مؤقف کے مخالفين کا رد کرتے ہوئے جواب ديا اگرچہ وہ علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ بلند مرتبے والے تھے۔
سوال:اس کا خلاصہ يہ ہے کہ کيا ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ يا ان کے مقلدين ميں سے کسی نے جوزالطیب کھانے کی حرمت کا قول کيا ہے؟ کيا آج کل کے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ ميں سے کسی نے اس کی حرمت کا فتوی ديا ہے؟ اگرچہ اس نے ان کے جزئيے پر اطلاع نہ پائی ہو، اگر آپ کا جواب اثبات ميں ہے تو کيا ان کے فتویٰ پر عمل کرنا واجب ہے؟
جواب: امام مجتہد، شيخ الاسلام ابن دقيق العيد رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس بات کی تصريح فرمائی ہے کہ”جوزالطیب نشہ آور ہے۔” متاخرين شوافع اور مالکی علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ان کا يہ قول نقل کر کے اس پر اعتماد کيا ہے اور آپ کے لئے متاخرين علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا اعتماد ہی کافی ہے، بلکہ ابن عماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس ميں مبالغہ کيا اور بھنگ کوجوزالطیب کا مقيس عليہ(یعنی جس پر قياس کيا جائے) قرار ديا اوراس کی تفصیل یہ ہے کہ حشیش کے خشک اورترپتوں کے نشہ آورہونے کے بارے میں علامہ قرافی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ہم عصر کسی فقیہ سے نقل کیاکہ”ترپتوں میں نشہ نہیں ہوتاجبکہ خشک پتے نشہ آور ہوتے ہیں۔”ابن عماررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ قول بیان کرنے کے بعدارشادفرمایا:”صحيح يہ ہے کہ ان کے خشک يا تر ہونے ميں کوئی فرق نہيں کيونکہ يہ جوزالطیب (جائفل)، زعفران، عنبر، افيون اور بھنگ سے ملی ہوئی ہے اور يہ اشياء نشہ آور اور اعضاء کو سن کرنے والی ہيں، اسے علامہ ابن قسطلانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب”تکریم المعیشۃ”میں ذکر کیا ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    ان کے صحيح قول کی تعبيرکرنے سے اور بھنگ کو جس کی حرمت پر علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کا اجماع ہے، جائفل کا مقيس عليہ ٹھہرانے پر غور کرنے سے آپ کو معلوم ہو گا کہ بھنگ کے نشہ آور اور سکون آور ہونے کی وجہ سے جوزالطیب کی حرمت ميں کوئی فرق نہيں اور علماء حنابلہ رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کے نشہ آورہونے پر علماء مالکيہ و شافعيہ رحمہم اللہ تعالیٰ سے اتفاق کيا ہے اوران کے متاخرين علماء میں سے (بظاہرحنبلی کہلانے والے) ابن تيميہ نے اس کی حرمت کا فتوی ديا اور ديگر نے اسے حرام قرار دينے ميں اس کی پیروی کی اور بعض علماء احناف رحمہم اللہ تعالیٰ کا بھی يہی مؤقف ہے جيسا کہ فتاوی مرغينانی ميں ہے کہ”نشہ آور اشياء ميں سے بھنگ اور گھوڑيوں کادودھ حرام ہے، مگر اسے پينے والے پرسزا جاری نہ ہو گی۔” يہ فقيہ ابو حفص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے اور شمس الائمہ امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اسی پر نص فرمائی ہے۔
    امام ابن دقيق العيد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اوردیگر کے کلام سے آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ جوزالطیب(یعنی جائفل )بھنگ کی طرح ہوتا ہے، لہذا جب حنفی علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ بھنگ کے نشہ آور ہونے کے قائل ہيں تو لازمی طور پرجوزالطیب کے نشہ آور ہونے کے بھی قائل ہوئے، لہذا اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ جائفل شافعی، مالکی اور حنبلی علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزديک نص کی وجہ سے حرام ہے جبکہ حنفی علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزديک اقتضاء ُالنص کی بناء پر حرام ہے (مفتی بہ قول صفحہ ۶۸۵پرحاشیہ۲؎ میں دیکھیں) ، کيونکہ یہ يا تونشہ آور ہے يا اعضاء سن کرنے والا ہے اور بھنگ ميں اصل جوزالطیب پر قياس کرنا ہے جيسا کہ ہم بيان کر چکے ہيں۔    شيخ ابو اسحاق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب التذکرۃ ميں،سیدنا امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نیشرح المہذب ميں اور امام ابن دقيق العيد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو يہ فرمایاکہ”يہ نشہ آور ہے۔” اس کے بارے میں علامہ زرکشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں:”اس ميں ہمارے نزديک کسی کا اختلاف معروف نہيں، بعض اوقات علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ تعریف میں مدہوش انسان بھی داخل ہوجاتا ہے اور اس سے مراد وہ انسان ہے کہ جس کے منظوم کلام ميں خلل آ جائے، پوشيدہ راز ظاہر ہو جائے، جو زمين و آسمان ميں امتياز نہ کر سکے اور نہ ہی طول و عرض ميں فرق کر سکے۔” پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے علامہ قرافی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حوالے سے يہ بات نقل کی کہ انہوں نے اس معاملہ ميں اختلاف کيا ہے اور اس کے نشہ آور ہونے کا انکار کیااور اس کا مفسد ہونا ثابت کيا ہے۔ پھر انہوں نے ان کا رد کيا اور ان کے مؤقف کو خطا پر مبنی ثابت کرنے ميں طويل کلام کيا ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    اس کے نشہ آور ہونے کی تصريح نباتات کے ماہر اَطباء نے بھی کی ہے، لہذا اس معاملہ ميں انہيں کی طرف رجوع کيا جانا مناسب بھی ہے، اسی طرح ابن تيميہ اور اس کے ہم مذہب متاخرین نے اسی قول کی پيروی کی ہے جبکہ اس معاملہ ميں حق يہ ہے کہ دونوں باتيں يعنی اس کا نشہ آور ہونا اور مفسدِ عقل ہونا درست نہيں، کيونکہ جب کسی چیز کے نشہ آور ہونے کا کہا جاتا ہے تو اس سے مطلق عقل کو ڈھانپنا مراد ہوتا ہے جو کہ ايک عام لفظ ہے، نیز جب يہ لفظ بولا جائے اور اس سے نشہ وبے خودی کے ساتھ عقل کو ڈھانپنا مراد ہوتو اس صورت میں یہ خاص ہوتا ہے، اوریہاں پر نشہ آور ہونے سے يہی مراد ہے، پہلی صورت ميں نشہ اور سن کرنے والی چيز ميں عموم وخصوص مطلق کی نسبت ہے کيونکہ ہر سُن کرنے والی شئے نشہ آور ہوتی ہے جبکہ ہر نشہ آور شئے سُن کرنے والی نہيں ہوتی، لہذا بھنگ، جوزالطیب اور ان جيسی ديگر اشياء پر نشے کے اطلاق سے مراد محض سکون حاصل کرنا ہے اور جو علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ اس کی نفی کرتے ہيں ان کی مراد خاص معنی ہوتی ہے۔
    اس کی تحقيق يہ ہے کہ شراب وغيرہ کے نشے کی علامت يہ ہے کہ اس سے سرور و نشاط، بدخلقی اور نخوت پيدا ہو جائے، جبکہ بھنگ اورجوزالطیب کے نشے کی علامات اس کے خلاف ہوتی ہيں مثلاًجسم سن ہو جاتا ہے اور اس ميں فتور پيدا ہو جاتا ہے، خاموشی طويل ہو جاتی ہے يا گہری نيند آتی ہے اور نخوت باقی نہيں رہتی، ميرے یہ علامات ذکر کرنے سے علامہ زرکشی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی طرف سے علامہ قرافی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ پر کئے گئے اعتراضات کا جواب بھی ہو گيا کہ بعض شرابيوں ميں بھنگ پينے والوں کی علامات پائی جاتی ہيں، اسی طرح بعض بھنگ پينے والوں ميں شرابيوں کی علامات موجود ہوتی ہيں، جواب کی وجہ يہ ہے کہ جس چيز کا مدار ظن پر ہوتا ہے اس ميں بعض افراد کا نکل جانا اثر نہيں کرتا جيسا کہ دورانِ سفر نماز ميں قصر کرنے کا مدار مشقت کے گمان کو قرار دينا جائز ہے حالانکہ سفر کی بہت سی صورتوں ميں بالکل مشقت نہيں ہوتی۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    پس اس سے واضح ہو گيا کہ جس نے بھنگ کو نشہ آور قرار ديا اور جس نے اسے بے خودی کرنے والی اورفسادمیں مبتلا کرنے والی کہا، دونوں ميں کوئی اختلاف نہيں بلکہ اس سے مراد خاص فساد ہے، پس اس سے علامہ زرکشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اعتراض بھی دور ہو گيا کہ اس سے مراد پاگل پن اور بے ہوشی ہے کيونکہ يہ دونوں عقل کو فاسد کرنے والے ہيں، پس سوال ميں مذکور فقیہ کے قول کی صحت کو جس چيز نے ثابت کيا اس سے ظاہر ہو گيا کہ يہ بے خودکرنے والی ہے اور اس شخص کے قول کا باطل ہونا بھی ظاہر ہو گيا جس نے اس سلسلے ميں جھگڑا کيا ليکن اگر عدمِ علم کی وجہ سے کيا تو معذور ہے اور علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے دلائل کی روشنی ميں جو ہم نے ذکر کيا اس پر مطلع ہونے کے بعد جب اس کوحلال يا غير نشہ آور اورسُن نہ کرنے والی گمان کيا تو اس جيسوں کے لئے سخت سزا ضروری ہے بلکہ ابن تيميہ ا ور اس کے اہلِ مذہب نے ا س بات کو ثابت رکھا کہ” جس نے بھنگ کو حلال سمجھا اس نے کفر کيا۔”
    پس اس عظيم(حنبلی) مذہب کے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزديک اس مشکل ميں پڑنے سے انسان کو بچنا چاہے اور عجيب بات يہ ہے کہ جس نے فاسد اغراض کے لئے جائفل کے استعمال کا خطرہ مول ليا باوجود اس کے کہ ہم نے اس کے مفاسد اور گناہ ذکر کر دئيے حالانکہ وہ اغراض اس کے بغير بھی حاصل ہو سکتی ہيں۔
    رئيس الاطباء ابن سينانے اپنی کتاب قانون ميں اس بات کی تصريح کی ہے :”اس کی ایک اورسنبل کی نصف مقداراس کے برابرہے، پس جس نے اس کی تھوڑی مقدار استعمال کی پھر اس کی ایک اورسنبل کی نصف مقداراستعمال کی تو اسے وہی تمام مقاصد حاصل ہو ں گے اور وہ گناہوں اور اللہ عزوجل کے عذاب ميں پڑنے سے بھی سلامت رہے گا۔”
    اس ميں پھيپھڑوں کے بھی کچھ نقصانات ہيں، جنہيں بعض اطبّاء نے ذکر کيا ہے اور سنبل ان نقصانات سے خالی ہے اور اس سے مقصود بھی حاصل ہو جاتا ہے اور دنيوی و اُخروی نقصانات سے سلامتی مزیدبرآں۔ جائفل کے بارے ميں ميرا جواب ختم ہو گيا جو کہ نفيس بحثوں پر مشتمل ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    ”حَاوِی صَغِير”کی شرح ميں ہے کہ اگر بھنگ کانشہ آورہوناثابت ہوجائے تو ناپاک ہے اور ابن تيميہ کی کتاب”السياسۃ” ميں ہے کہ بھنگ ميں شراب کی طرح حد واجب ہے، ليکن جب وہ ٹھوس ہو اورپی جانے والی نہ ہو توحضرتِ سیدنا امام احمدعلیہ رحمۃاللہ الصمدوغيرہ کے مذہب ميں تين اقوال پر اس کے نجس ہونے ميں فقہاء کا اختلاف ہے، ايک قول يہ ہے کہ يہ نجس ہے اور يہی صحيح ہے اور حيوان کو بھنگ کھلانا حرام قرار ديا گيا ہے کيونکہ اس کا نشہ دينا بھی حرام ہے، علامہ ابن دقيق رحمۃاللہ تعالیٰعلیہ نے ارشاد فرمايا:”شراب کی طرح اس کو ضائع کرنے والے پر بھی کوئی ضمان نہيں۔”
    امام ابوبکر بن قطب العسقلانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے نقل کيا ہے :”يہ دوسرے درجے ميں گرم ہوتی ہے اور پہلے درجے ميں خشک ہوتی ہے، سر کو چکرا ديتی ہے، نظر کو کمزور کر ديتی ہے، پيٹ کوگِرہ لگا ديتی ہے اور منی کو خشک کر ديتی ہے، پس ہر صاحبِ عقل، سليم الفطرت انسان پر اس سے اجتناب ضروری ہے، جس طرح کہ اس کے علاوہ دیگر ان تمام چيزوں سے اجتناب ضروری ہے جن کا ذکر گزر چکا ہے اس لئے کہ يہ نقصان دہ چيزوں پر مشتمل ہے جوہلاکت کا مبداء ہيں اور اکثر اوقات منی کے خشک ہونے اور سر چکرانے سے بھی بڑے نقصان دہ مفاسد پيدا ہوتے ہيں۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    اسی وجہ سے علامہ ابن بيطاررحمۃاللہ تعالیٰ علیہ، جو نباتات وغيرہ کے بارے ميں معرفتِ تامہ رکھتے ہيں،نے اپنی کتاب ”اَلْجَامِعُ لِقَوِیِّ الْاَدْوِيَۃِوَالْاَغْذِيَۃِ”ميں فرمايا ہے :”قنب الھندی”(پٹ سن کی ايک قسم جس سے بھنگ بنائی جاتی ہے) اس کی تيسری قسم ہے جسے”قنب”(یعنی پٹ سن)کہا جاتا ہے اور ميں نے مصر کے علاوہ کہيں نہيں ديکھی، يہ باغات ميں کاشت کی جاتی ہے اور اسے بھی بھنگ کہا جاتا ہے، يہ بہت نشہ آور ہوتی ہے، جب اس سے انسان ايک يا دو درہم کی مقدار کھا ليتا ہے يہاں تک کہ اکثر کو تو ناسمجھی کی حد تک پہنچا ديتی ہے، اسے ايک قوم نے استعمال کيا تو ان کی عقليں زائل ہو گئيں اور انہيں جنون کی حد تک پہنچا ديا اورکبھی توہلاک بھی کردیتی ہے۔
    علامہ قطب رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمايا:”ہميں بتايا گيا کہ جانور اسے نہيں کھاتے تو اس کھانے کی کيا قدر ہے جسے کھانے سے جانور بھی بھاگتے ہيں، يہ بھی ان دوسری چيزوں کی طرح ہے جو بدن کو تبديل اور مسخ کر تی ہيں، قوتوں کو منجمدکرتی ہيں، خون کو جلاتی ہيں، رطوبت کو خشک کرتی ہيں اوررنگ کو زرد کر دیتی ہے۔”
    امام محمد بن زکريارحمۃاللہ تعالیٰ علیہ، جو طب ميں وقت کے امام تھے، نے ارشاد فرمايا:”يہ بہت زيادہ گھٹيا فکريں پيدا کرتی ہے اور اعضائے رئيسہ ميں رطوبت کی کمی کی وجہ سے منی کوخشک کر ديتی ہے يعنی جب ان اعضاء کی رطوبت کم ہوتی ہے تو يہ خطرناک اور قبيح ترين بيماريوں کے پيدا ہونے کا سبب بن جاتی ہے اور اس کی مذمت میں یہ اشعار کہے گئے ہیں:


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

قُلْ لِمَنْ ياکَلُ الْحَشِيشۃَ جَھْلًا
ياخَسِيسا قَدْ عِشْتَ شَرَّ مَعِيشہ
    ترجمہ:جو جہالت کی وجہ سے بھنگ کھاتا ہے تو اس سے کہہ ! اے کمينے تو نے بری زندگی گزاری۔
دِيَۃُ الْعَقْلِ بِدُرَّۃٍ فَلِمَا ذَا
يا سَفِيْھًا قَدْ بِعْتَہ، بِحَشِيشہ
    ترجمہ:عقل کی قيمت تو موتی ہے پس اے بے وقوف!تو نے اسے بھنگ کے بدلے کيوں بيچ ديا؟
    مزید فرماتے ہیں:”ہميں بے شمار لوگوں سے يہ بات پہنچی ہے کہ اس سے دوچار ہونے والے اچانک مر گئے اور دوسروں کی عقليں زائل ہو گئیں اور متعدد امراض ميں مبتلا ہو گئے مثلاًتپ دِق، سِل اوراِستِسقاء وغيرہ اور يہ عقل کو ڈھانپ ليتی ہے اور اس کے بارے ميں يہ اشعار بھی کہے گئے ہیں:
يا مَن غَدَا اَکْلُ الْحَشِيش شِعَارَہ،
وَغَدَا فَلَاحَ عَوَارُہ، وَ خِمَارُہ،
    ترجمہ :اے وہ کہ بھنگ کھانا جس کا شعار بن گيا اور ہميشہ کے لئے اس کا عيب اور نشہ بن گيا۔
اَعْرَضْتَ عَنْ سُنَنِ الْھُدیٰ بِزَخَارِفَ
لَمَّا اِعْتَرَضْتَّ لِمَا اُشِيع ضِرَارُہ،
    ترجمہ :تو نے دنيا کی پر فريب چيزوں کی وجہ سے ہدايت والے طريقوں سے اعراض کيا جب تو نے ايسی چيز کو اختيار کيا جس کا نقصان پھيلا ہوا ہے۔


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اَلْعَقْلُ ينھِی اَنْ تَمِيل اِلَی الْھَوٰی
وَالشَرْعُ يامُرُ اَنْ تَبْعُدَ دَارَہ،
    ترجمہ :عقل تجھے خواہشات کی طرف مائل ہونے سے منع کرتی ہے اور شريعت تجھے اس سے دور رہنے کا حکم ديتی ہے۔
فَمَنْ اِرْتَدٰی بِرِدَآءِ زَھْرَۃ ٍ شَھْوَۃً
فِيْھَا بَدَا لِلنَّاظِرِ مِنْ خِسَارِہٖ
    ترجمہ :پس جس نے شہوت کی وجہ سے چمک دمک کی چادر اوڑھی ديکھنے والے پراس کا خسارہ ظاہر ہو گيا۔
اَقْصِرْ وَتُبْ عَنْ شُرْبِھَا مُتَعَوِّذاً
مِنْ شَرِّھَا فَھُوَ الطَّوِيل عِثَارُہ،
    ترجمہ :اسے چھوڑ اور اس کی برائی سے پناہ طلب کرتے ہوئے اس سے توبہ کر لے پس اس کا فتنہ طويل ہے
۱؎:فقہائے احناف کے نزدیک:”بھنگ اورافیون اتنی استعمال کرناکہ عقل فاسدہوجائے ناجائزہے جیساکہ افیونی اوربھنگیڑے (بھنگ پینے والے)استعمال کرتے ہیں اوراگرکمی کے ساتھ اتنی استعمال کی گئی کہ عقل میں فتورنہیں آیاجیساکہ بعض نسخوں میں افیون قلیل جزہوتاہے کہ فی خوراک اس کااتناخفیف جزہوتاہے کہ استعمال کرنے والے کوپتابھی نہیں چلتاکہ افیون کھائی ہے اس میں حرج نہیں۔         (بہارِشریعت،ج۲،حصہ ۱۷،ص۸)
۲؎:فقہائے احناف کے نزدیک:”جوزالطیب میں نشہ ہوتاہے اس کااستعمال بھی اتنی مقدارمیں ناجائزہے کہ نشہ ہوجائے اگرچہ اس کاحکم بھنگ سے کم درجہ کاہے۔        (بہارِشریعت،ج۲،حصہ ۱۷،ص۸)
۱؎ :ابن تیمیہ کا اصل نام احمد ، اس کی کنیت ابو العباس اورمشہور ابن تیمیہ ہے، ۶۶۱ھ میں پیدا ہوا اور قلعهٔ دمشق میں بحالت قید ۲۰ذی قعدہ ۷۲۸ھ میں انتقال ہوا ۔
    ابن تیمہ نے مسلمانوں کے اجماعی عقائدواعمال سے ہٹ کرایک نئی راہ ڈالی جس کے باعث اس کے ہم عصراوربعدمیں انے والے بڑے بڑے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ میں سے بعض نے اس کی تکفیرکی ،بعض نے گمراہ کہااوربعض نے بدعتی کے نام سے موسوم کیا۔چنانچہ اما م جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” میں نے ابن تیمیہ کا انجام یہ دیکھا کہ اس کو ذلیل کیا گیا اور اس کی برائی بیان کی گئی اور حق وباطل سے اس کی تضلیل اور تکفیر ہوئی اور وہ ان خرافات میں پڑنے سے پہلے اپنی زندگی ہی میں سلف(بڑے بڑے علماء ) کے نزدیک (اپنے علم کے باعث) منوروروشن تھا ۔ پھر وہ (ابن تیمیہ) غلط اور بد عتی مسائل کی وجہ سے لوگو ں کے نزدیک اندھیرے والا اور گر ہن والا غبار آلودہ ہوگیا ۔ اور اپنے اعداء اور مخالفین کے نزدیک دجال ، افاک (بڑا بہتا ن تراش) کافر ہوگیا اور عاقلوں ، فاضلوں کے گر و ہوں کی نظر میں فاضل محقق بارع(ماہر) بد عتی ہوگیا۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

    حضرت ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ( نام کے) حنبلیوں میں سے ابن تیمیہ نے تفریط ( کوتاہی او رکمی) کی ہے (معاذاللہ عزوجل) اس طرح کہ”روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو حرام کہا۔” جیسا کہ اس کے غیر نے (یعنی اس کے مخالف اور رد کرنے والے نے ) زیادتی کی حد سے بڑھا کر اس طر ح کہا کہ زیارت شریف کا قربت ہونا یہ ضروریات دین سے معلوم ہے ۔ اور اس کے منکرپرحکمِ کفرہے۔    
    پھرملاعلی قاری علیہ رحمۃاللہ الباری فیصلہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”امیدہے کہ یہ دوسرا(یعنی منکرزیارت پرکفرکافتویٰ دینے والا)صواب(صحیح ہونے )کے زیادہ قریب ہے کیونکہ اس چیزکوحرام کہناجوباجماع واتفاق علماء مستحب ہو(جیسے مسئلہ زیارت)وہ کفرہے،کیونکہ اس معاملہ میں یہ تحریم ِمباح(یعنی مباح کوحرام کہنے ) سے بڑھ کرہے۔جب مباح کوحرام کہناکفرہے تومستحب کوحرام کہنابطریق اولیٰ کفرہوگا۔”
(شرح الشفالعلامہ القاری ، ج۳،ص۵۱۴،علی ھامش نسیم الریاض۔شواھد الحق ص۱۴۷)
ابن تیمہ کے بعض من گھڑت عقائدومسائل :
٭۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کا جسم ہے ٭۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نقل مکانی کرتا ہے ٭۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ عرش کے برابر ہے نہ اس سے بڑا نہ چھوٹا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس بہتان شنیع اور کفر قبیح سے پاک ہے ۔ اس کے متبع ذلیل ہوئے اور اس کے معتقد خائب وخاسر ہوئے ٭۔۔۔۔۔۔ دو زخ فنا ہوجائے گی ٭۔۔۔۔۔۔انبیاء علیہم السلام غیر معصوم ہیں ٭۔۔۔۔۔۔ حضور نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا عند اللہ کوئی مقام نہیں ان کا وسیلہ جائز نہیں ٭۔۔۔۔۔۔ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طر ف سفرِ زیارت کرنا گناہ ہے اور اس سفر میں نماز قصر نہ پڑھی جائے گی ٭۔۔۔۔۔۔ کوئی حائضہ کو طلاق دے تو واقع نہ ہوگی ٭۔۔۔۔۔۔اگر کوئی شخص عمد ًا نماز ترک کردے تو اس پرقضا ضروری نہیں ٭۔۔۔۔۔۔ حائضہ کو طواف کعبہ جائز ہے اور اس پر کوئی کفارہ بھی نہیں ٭۔۔۔۔۔۔ تین طلاقیں ایک ہی ہوگی حالانکہ اپنے دعوی سے پہلے اس نے اس کے خلاف (اُمت محمدیہ کا ) اجماع نقل کیا ،ان کے علاوہ بھی ابن تیمیہ کی خرافات ہیں اللہ عزوجل مسلمانوں کوان کے شرسے بچائے (اٰمین )


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(فتاوی حدیثیہ ،ص ۹۹تا ۱۰۱،مطبوعہ حلبی مصر)(ملخصًاازتعارف چندمفسرین محدثین مؤرخین کا،ص۵۸۔۵۹اور۸۸تا۹۰)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!