islam
تبصرہ بر مقالہ ’’نظریۂ ختم نبوت اور تحذیرالناس از حضور شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں ‘‘
تبصرہ بر مقالہ
’’نظریۂ ختم نبوت اور تحذیرالناس
از حضور شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں ‘‘
محمد ثاقب رضا قادری
مرکز الاولیاء لاہور-پاکستان
برادرم غلام ربانی فدا کے پیہم اصرار پر نہایت قلیل مدت میں یہ چند سطور تحریر کیں ، کماحقہٗ نظرثانی بھی نہیں کر سکا۔ اگر مزید وقت میسر ہوتا تو یقینا اس مضمون کے مندرجات میں مزید بہتری لائی جا سکتی تھی۔ اللہ کریم شرف قبول بخشے۔ و ما توفیقی الاباللہ
برصغیر پاک و ہند میں فتنۂ انکار ختم نبوت کی تخم ریزی انگریزوں کے ایماء پر چند زرخرید مولویوں نے کی۔ اولیاء کرام کی فیض یافتہ سرزمین پریہ کام اتنا آسان تو نہ تھا کہ ایک شخص اُٹھ کر بلا جھجھک دعویٔ نبوت کرتا اور لوگ اس کے پیروکار ہو جاتے۔ لہذا ان بکاؤ مولویوں نے دعوی نبوت کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے یہ پالیسی اختیار کی کہ پہلے پہل توحید کی آڑ لے کر لوگوں کے ذہنوں میں ان برگزیدہ ہستیوں (یعنی انبیاء و اولیاء) کے مقام و مرتبہ کو کم کیا جائے چنانچہ مولوی اسمعیل دہلوی نے ’’تقویۃ الایمان‘‘ اور ’’صراط مستقیم‘‘ جیسی بدنام زمانہ کتب تحریر کیں ۔ان دونوں کتب میں کہیں نبی کی تعظیم ’’بڑے بھائی کی سی ‘‘ قرار دی گئی تو کہیں ’’گاؤں کے چودھری‘‘ جتنی، کہیں نماز میں نبی کے خیال کو بُرا قرار دیا گیا تو کہیں انبیاء و اولیاکو ’’ذرۂ ناچیز‘‘ سے بھی کم تر لکھا گیا، کہیں اختیارات پر بحث کرتے ہوئے انبیاء و اولیاء کے بارے یوں لکھا گیا کہ وہ کسی چیز کے مالک و مختار نہیں تو کہیں شفاعت کا انکار کیا گیا۔ اور پھر اسی کتاب میں نظریۂ ختم نبوت پر ان الفاظ میں ضرب لگائی گئی :
’’اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکم کُن سے چاہے تو کروڑوں نبی اور ولی اور جن و فرشتہ جبرئیل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برابر پیدا کر ڈالے۔‘‘(تقویۃ الایمان مصنفہ شاہ اسمعیل دہلوی ، ص:۳۵ مطبوعہ مطبع مرکنٹائل پرنٹنگ ، دہلی)
اسمعیل دہلوی نے اس عبارت کے ذریعہ حضور ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر کو ممکن قرار دے کر نظریۂ ختم نبوت پر براہ راست حملہ کیا چنانچہ علماء اہل سنت نے اس کتاب کا بھر پور رد کیا اور شاہ اسمعیل دہلوی سے کئی مناظرے بھی کیے اور بالآخر تکفیربھی کی گئی۔ ان علماء میں علامہ فضل حق خیرآبادی، شاہ عبدالمجید قادری بدایونی ، شاہ فضل رسول بدایونی اور شاہ مخصوص اللہ دہلوی کے نام سرفہرست ہیں۔ بالخصوص علامہ فضل حق خیرآبادی نے اسمعیل دہلوی کا رد کرتے ہوئے ’’تحقیق الفتوی فی ابطال الطغویٰ‘‘ تحریر کی اور پھر امکان نظیر کے رد میں ایک مستقل کتاب ’’امتناع النظیر تحریر فرمائی۔
بعض محققین کے نزدیک تقویۃ الایمان ۱۲۳۵ھ/۱۸۲۰ء میں لکھی گئی۔ ہم نے اپنے اس مقالہ میں فتنۂ انکار نبوت کی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے جن میں سے پہلا دور تقویۃ الایمان کی تصنیف ہے جس میں نظریۂ امکان نظیر کو پیش کیا گیا۔
دوسرا دور:مسئلہ امکان نظیر اور اثر ابن عباس
فتنۂ انکار ختم نبوت کے دوسرے دور میں امکان نظیر کے مسئلہ کو اثر ابن عباس کی بنیاد پر پیش کیا گیا چنانچہ اس حوالہ سے ہمارے مرحوم دوست شہید بغداد شیخ اسید الحق قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
’’مسئلہ امکان نظیر کے سلسلہ میں سب سے پہلے اثر ابن عباس کو میاں نذیر حسین دہلوی نے ۱۲۸۰ھ /۱۲۸۴ھ کے درمیانی عرصہ میں پیش کیا۔ (دیکھیے افادات احمدیہ از حافظ بخاری مولانا سید عبدالصمد سہسوانی ، ص:۴ مطبع الٰہی آگرہ ۱۲۸۶ھ)
اس کے بعد میاں نذیر حسین دہلوی کے شاگرد میاں امیر حسن سہسوانی نے ’’افادات ترابیہ‘‘ کے نام سے سولہ صفحات کا ایک رسالہ لکھا جو ان کے ایک شاگرد مولانا تراب علی خانپوری کے نام سے ۱۲۸۶ھ/۱۸۶۹ء میں میرٹھ سے شائع ہوا۔ اس رسالہ میں میاں امیر حسن سہسوانی نے اثر ابن عباس کو بنیاد بناتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ امثال (ہم شکل و ہم مثل) دیگر طبقات زمین میں بالفعل موجود و متحقق ہونے کا دعوی کیا۔ اس کے بعد اثر ابن عباس کے تعلق سے نفیاً و اثباتاً سند و متن، صحت و ضعف اور نقل و عقل کے اعتبار سے بحث و تمحیص کا دروازہ کھلا، درجنوں رسائل تحریر کیے گئے، مناظرے ہوئے ، جواب اور جواب الجواب لکھے گئے۔ اس طرح تقریباً چوتھائی صدی تک یہ اثر اہل علم کے درمیان موضوع بحث بنا رہا۔ بالآخر یہ سلسلہ تحذیرالناس کی تالیف اور پھر اس کے مصنف کی تکفیر تک دراز ہو کر اپنے منطقی انجام تک پہنچا۔‘‘ (ماہ نامہ جام نور ، دہلی جولائی ۲۰۰۸ء ، ص:۵۳)
تیسرا دور: تحذیرالناس کی تالیف اور خاتم النبیین کے معانی سے بالتصریح انکار
پروفیسرایوب قادری کے بقول تحذیرالناس مطبع صدیقی بریلی سے ۱۲۹۰ھ /۱۸۷۳ء میں پہلی بار طبع ہوا۔ اس رسالہ کا سبب تالیف مولوی احسن نانوتوی کا استفتاء بنا جو انہوںنے مولوی قاسم نانوتوی کو اثر ابن عباس کی وضاحت کے متعلق بھیجا تھا ۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ مولوی قاسم نانوتوی اثر ابن عباس پر اپنی فلسفیانہ موشگافیوں کی بجائے اسنادیا متن پر تحقیق کرکے اس کی صحت کو جانچتے لیکن تعجب ہے کہ جناب ’’قاسم العلوم والخیرات ‘‘ نے اس جانب توجہ مبذول نہیں کی اور محض فلسفہ بگاڑتے چلے گئے۔خاتم النبیین کے معنی آخری نبی ہونے کو عوام کا خیال قرار دیا (تحذیرالناس:۳)بلکہ بالصراحت تحریر کر دیا؛
’’اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں یا بالفرض آپ کے بعد بھی کوئی نبی فرض کیا جائے تو بھی خاتمیت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فرق نہ آئے گا۔(تحذیرالناس، حاشیہ برصفحہ ۱۳)
مزید صفحہ ۱۴ پر لکھاہے:
’’بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔‘‘
صفحہ ۲۵ پر لکھا ہے: ’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا چہ جائیکہ آپ کے معاصر کسی اور زمین میں یافرض کیجیے اسی زمین میں کوئی اور نبی تجویزکیا جائے۔‘‘
اس رسالہ کی اشاعت سے پورے ہندوستان میں شور برپا ہو گیا اور چوںکہ اس رسالہ میں ختم نبوت کے مسلمہ معانی کا انکار پایا جاتا تھا لہذا علماء کرام نے مولوی قاسم نانوتوی کی تکفیر کرنا شروع کر دی۔ مولانا محمد شاہ پنجابی نے مولوی قاسم نانوتوی سے مناظرہ بھی کیا جس کا مفصل حال ’’ابطال اغلاط قاسمیہ‘‘ میں درج ہے۔ یونہی اس رسالہ کے رد میں کئی علماء نے قلم اٹھایا چنانچہ اس ضمن میں جن کتب تک ہماری رسائی ہو سکی ان کے اسماء درج ذیل ہیں:
۱۔ ابطال اغلاط قاسمیہ
۲۔ تنبیہ الجہال بالہام الباسط المتعال مولفہ حافظ بخش صاحب آنولوی مطبوعہ ۱۲۹۱ھ
۳۔ حسام الحرمین علی منحرالکفر والمین مولفہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی
۴۔ فتاوی بے نظیر
تحذیرالناس کے معاملہ میں صرف مولانا عبدالحئی فرنگی محلی نے مولوی قاسم نانوتوی کی موافقت کی ۔(الافاضات الیومیہ ،ج۵، ص:۲۹۶ مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان) چنانچہ تحذیرالناس مطبوعہ کتب خانہ رحیمیہ دیوبند کے نسخہ میں مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کے دستخط موجود ہیں لیکن بعدازاں مولانا عبدالحئی فرنگی محلی بھی مولوی قاسم نانوتوی کی تکفیر کے قائل ہو گئے ۔ (مطالعہ بریلویت ، ج۳، ص:۳۰۰) ابطال اغلاط قاسمیہ پر مولانا عبدالحئی کے تصدیقی دستخط اس بات کا ثبوت ہیں حالاں کہ اس سے قبل مولانا اثر ابن عباس کی تائید میں دو مستقل رسالے تصنیف کر چکے تھے جن کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ الایات البینات علی وجود الانبیاء فی الطبقات
۲۔ دافع الوسواس فی اثر ابن عباس
چوتھا دور:مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٔ نبوت
تقریباپون صدی کی تگ و دو کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی نے تدریجاً (یعنی پہلے مناظر، مصلح، مبلغ، مجدد، مہدی، مثیل مسیح )نبوت کا دعوی کر دیا۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ قادیانی اپنے دفاع میں اکثر تحذیرالناس کو پیش کرتے ہیں حتی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے جب قادیانیوں کو کافر قرار دیا تو وہاں بھی دوران کارروائی قادیانیوں نے اپنے دفاع میں اسی کتاب کو پیش کیا۔
نظریۂ ختم نبوت اور تحذیرالناس مصنفہ حضور شیخ الاسلام سید محمد مدنی میاں اشرفی مدظلہ العالی
قارئین کرام نے فتنۂ انکار ختم نبوت کی مختصر تاریخ کا جائزہ لیا اب ہم یہاں حضور شیخ الاسلام جانشین محدث اعظم ہند سید محمد مدنی میاں اشرفی مدظلہ العالی کے تحقیقی مقالہ ’’نظریۂ ختم نبوت اور تحذیرالناس‘‘ کے بارے چند تعارفی سطور تحریر کررہے ہیں چنانچہ پیش نظر مقالہ حضور شیخ الاسلام کے مجموعہ مقالات کے حصہ اول میں شامل ہے اور یہ مقالہ الگ سے کتابی صورت میں گلوبل اسلامک مشن (یو ایس اے) کے اہتمام سے اکتوبر ۲۰۰۴ء اور پھر دسمبر ۲۰۰۷ء میں شائع ہو چکا ہے۔ نیز حال ہی میں ماہنامہ الحقیقہ (پاکستان) کے ’’تحفظ ختم نبوت نمبر‘‘ کی جلد اول میں صفحہ ۳۶۶ سے ۳۹۹ تک موجود ہے۔ جبکہ پہلی مرتبہ یہ وقیع مقالہ ماہ نامہ المیزان نے شائع کیا۔
اس مقالہ کی ابتدا میں حضور شیخ الاسلام نے لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کے مفہوم کو مستندتفاسیر و احادیث کی روشنی میں بیان کیا ہے چوں کہ تحذیرالناس میں اور بعدازاں مرزا قادیانی نے خاتم النبیین کے من گھڑت معانی بیان کر عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کی تھی ۔ اس ضمن میں حضور شیخ الاسلام نے تفسیر قرطبی ، تفسیر طبری ،جلالین، نیشاپوری ،کبیر،تفسیر ابوسعود، مدارک ، روح المعانی ، ابن کثیر، روح البیان ، معالم التنزیل، خازن، تفسیر احمدی (ملا جیون)، تفسیر غریب القرآن (علامہ ابوبکر سجستانی) اور پھر مولوی محمد شفیع دیوبندی کی کتاب ھدیۃ المہدیین سے ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی ’’آخری نبی ‘‘ ہونا ثابت کیا ہے۔نیز اس ضمن میں حضرت امام اعظم کے عہد کا ایک واقعہ بھی نقل فرمایا ہے جس کو ہم قارئین کے استفادہ کے لیے نقل کر رہے ہیں چنانچہ حضور شیخ الاسلام لکھتے ہیں:
’’امام اعظم کے عہد میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کا دعوی کیا اور کہا کہ مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی نشانیاں پیش کروں۔ تو حضرت امام اعظم نے فرمایا جس نے بھی اس سے اس کی نبوت کی علامت طلب کی وہ کافر ہو گیا۔اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ لا نبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ص: ۱۹ مطبوعہ گلوبل اسلامک مشن، یو ایس اے)
اس کے بعد خاتم النبیین کے مفہوم کی مزید وضاحت کے لیے قبلہ شیخ الاسلام نے بارہ احادیث سے استدلال فرمایا اور درج ذیل پانچ اُمور کا اثبات فرمایا:
۱۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور آپ سب میں آخری نبی ہیں -یہ عوام کا خیال نہیں بلکہ یہی رسول اکرم ﷺ کا ارشاد اور اسی پر صحابہ و تابعین و جمیع علمائے دین کا اعتقاد ہے۔
۲۔تاخر زمانی کی فضیلت کا ادراک غیر نبی کے لیے ممکن نہیں ۔ البتہ اس قدر فضیلت واضح ہے کہ جو آخری نبی ہو گا ، لازمی طور پر اس کی شریعت آخری شریعت ہو گی اور اس قدر کامل و مکمل ہو گی کہ مزید تکمیل کا سوال نہ ہو گا اور اس کی نبوت کا دائرہ کار تمام کائنات کو محیط ہو گا ۔ وہ کسی ایک قوم یا محدود زمانے کا نبی نہ ہو گا بلکہ قیامت تک اس کی عظمت و شوکت کا پرچم لہراتا رہے گا اور صرف نبی ہی نہیں بلکہ رسول بھی ہو گا جس کی رسالت ’رسالت عامہ‘ ہو گی، وہ اگر ایک طرف سارے عالم کے لیے نذیر ہو گا تو دوسری طرف سارے عالم کے لیے ہادیٔ کامل اور رحمت مجسم بھی ہو گا۔
۳۔ جب ایک نبی کے لیے ظاہری طور پر تاخرزمانی میں اس قدر فضیلتیں ہیں تو پھر و لکن رسول اللہ و خاتم النبین کو ’اوصاف مدح‘ میں رکھتے ہوئے اور اس مقام کو ’مقام مدح‘ قرار دیتے ہوئے بھی خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہی ہے۔
۴۔ خاتم النبین کا معنی آخر الانبیاء لینے سے نہ تو خدائے تعالیٰ پر زیادہ گوئی کا وہم ہوتا ہے اور نہ رسول کریم ﷺ کی قدرو منزلت میں کمی کا احتمال اور نہ ہی کلام الٰہی پر بے ارتباطی کا الزام
۵۔ خاتم النبین کا ایسا معنی بتانا کہ اگر بالفرض بعد زمانۂ نبوی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا – قرآن کریم کے ثابت شدہ اجماعی مفہوم کوبدلنے کی شرم ناک کوشش ہے جس کا کفر ہونا اظہر من الشمس ہے۔
اس کے بعد قبلہ شیخ الاسلام نے اثر ابن عباس کا تحقیقی جائزہ لیا ہے اور اس کے مفہوم ظاہری سے چار احتمالات بیان کرنے ان کا رد کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہے۔ نیز یہاں یہ وضاحت بھی فرمائی ہے کہ آخری نبی سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ حضور کو نبوت سب سے آخر میں دی گئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ظہور میں سب انبیاء کے بعد ہیں اور نبوت سے تو آپ کو اس وقت سرفراز کیا گیا تھا جب کہ کسی نبی کا وجود نہ تھا۔
مقالہ کے آخرمیں آپ تحریر فرماتے ہیں :
’’(مولوی قاسم نانوتوی نے) اپنی کتاب تحذیرالناس میں لفظ خاتم النبیین میں تاویل فاسد کا سہارا لے کر غلام احمد قادیانی کے لیے دعوی نبوت کی راہ ہموار کرنے میں جو شاندار رول ادا کیا ہے اس کے لیے امت قادیان آپ کی بجا طور پر شکر گزار ہے۔ بعض قادیانیوں کی تحریریں نظر سے گزری ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ختم نبوت کے باب میں قادیانیوں کا موقف بالکل وہی ہے جو صاحب تحذیرالناس مولوی قاسم نانوتوی کا ہے۔ اس کا اعتراف خود مولوی قاسم نانوتوی کے بعض بہی خواہوں نے بھی کیا ہے۔یقین نہ ہو تو اٹھا لیجیے شبستان اردو ڈائجسٹ (نئی دہلی) نومبر ۱۹۷۴ء کو مولوی فارقلیط کے قلم سے نکلے ہوئے یہ فقرے ملیںگے:
’’بیج بویا علما نے اور جب وہ تناور درخت ہو گیا تو اس کا پھل کھایا مرزا غلام احمد قادیانی نے‘‘
اس کے بعد حضور شیخ الاسلام نے تحذیرالناس مطبوعہ محمدی پرنٹنگ پریس ، دیوبند -جس کو کتب خانہ رحیمیہ دیوبند نے شائع کیا ہے – کے حواشی نقل کر کے ان کا رد کیا ہے۔
المختصر حضور شیخ الاسلام کا پیش نظر مقالہ تحذیرالناس کی کفریہ عبارات کا نہایت مدلل رد ہے،طرز استدلال نہایت پختہ اور زبان نہایت شستہ و سہل ہے جس کے سبب عام قارئین بھی اس سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے مسئلہ کی حقیقت کو جان سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ کریم حضور شیخ الاسلام کا سایہ اہل سنت پر دراز فرمائے اور مزید تحقیقی کام منظر عام پر لانے کی توفیق دے۔
٭