islam
سودکی تعریف:۱؎
سودکی تعریف:۱؎
رِبا(سود)لغت ميں زيادتی يا اضافہ کو کہتے ہيں،اور شرع ميں ربا سے مرادیہ ہے کہ ایسے مخصوص عوض پر عقدکرناکہ بوقتِ عقد جس کا شريعت کے تقاضوں کے مطابق برابر ہونا معلوم نہ ہو یا جوعقد بدلین یاان میں سے کسی ایک کی تاخیر کے ساتھ ہو۔
اس کی تين اقسام ہيں:
(۱)۔۔۔۔۔۔رباالفضل: ۲؎ دوہم جنس اشياء میں سے ایک کو دوسری کے بدلے اضافے کے ساتھ بيچنا۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ربا باليد: بدلین یا ان ميں سے کسی ايک پر قبضہ مجلس سے جدا ہونے کے بعد کرنا، یا اس تاخير ميں دونوں بدلوں کا متحد ہونا شرط ہو اس علت کی بناء پر کہ وہ دونوں اشياء خوردنی ہوں يا دونوں نقدی کی قسم سے ہوں اگرچہ ان کی جنس مختلف ہو۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ربا النساء:خوردنی اشياء يا ہم جنس يا مختلف الجنس نقدی کو کسی معينہ مدت تک کے لئے بيچنا خواہ وہ ايک لمحہ ہی کيوں نہ ہو، اگرچہ وہ برابر ہی ہوں اور ان پر مجلس ہی ميں قبضہ کر ليا جائے۔
مثالیں:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
پہلی قسم کی مثال:گندم کے ایک صاع کو گندم کے ہی ايک صاع سے کم يا زيادہ کے عوض بيچنا يا چاندی کے ايک درہم کو چاندی کے ہی ايک درہم سے کم يا زيادہ کے عوض بيچنا خواہ دونوں پر قبضہ کر ليا جائے يا نہ کيا جائے، خواہ مدت مقرر ہو یا نہ ہو۔
دوسری قسم کی مثال:ايک صاع گندم کو ايک صاع گندم يا ايک درہم سونے کو ايک درہم سونے يا ايک صاع گندم کو ايک صاع جو يا اس سے زيادہ کے عوض بيچنا يا سونے کے ايک درہم کو ايک درہم چاندی يا اس سے زيادہ کے عوض بيچنا اس شرط کے ساتھ کہ دونوں میں سے ايک پر قبضہ کرنا مجلس سے مؤخر ہو جائے۔
تيسری قسم کی مثال:يہ ہے کہ ايک صاع گندم کو ايک صاع گندم يا ايک درہم چاندی کو ايک درہم چاندی کے عوض بيچا جائے مگر ان ميں سے ايک کے لئے کوئی مدت مقرر کر لی جائے اگرچہ وہ مدت ايک لمحہ ہی کيوں نہ ہو اور اگرچہ برابر ہوں اور مجلس میں ان پرقبضہ بھی کرلیاگیاہو۔
خلاصۂ کلام يہ ہے کہ جب دونوں عوض جنس اور علت ميں برابر ہوں مثلاًگندم کے عوض گندم، سونے کے بدلے سونا تو اس ميں تين باتيں شرط ہوں گی: (۱)برابری (۲)عقدکے وقت اس برابری کا يقينی علم ہونا اور (۳)جدائی سے پہلے دونوں عوضوں پر قبضہ کر لينا۔
جب علت متحد ہو اور جنس مختلف ہو جيسے جو کے عوض گندم اور چاندی کے عوض سونا، تواس میں دو چیزیں شرط ہیں: پہلی معلوم العقد ہونا اور دوسری یہ کہ جدائی سے پہلے باہم قبضہ کا ہونا اور ان میں تفاضل یعنی اضافہ جائز ہے۔لیکن جب جنس اور علت دونوں مختلف ہوں مثلاً گندم سونے یا کپڑے کے عوض ہو تو پھر مذکورہ تینوں شرائط میں سے کوئی چيز شرط نہيں، علت سے مراد اَشياء کا خوردنی ہونا ہے يعنی وہ اشياء جو کھانے پينے کے طور پر استعمال ہوتی ہيں مثلاً ترکارياں، پھل يا ادويات وغيرہ۔
نقدی سونے چاندی ميں شمار کی جاتی ہے خواہ وہ ڈھلے ہوئے سکوں کی صورت ميں ہو يا زيورات وغيرہ کی صورت ميں، سکوں ميں سود نہيں ہوتا اگرچہ وہ رائج ہی کيوں نہ ہوں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
سیدنا متولی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ايک چوتھی نوع کا اضافہ کيا اور وہ ”ربا القرض” يعنی قرض کا سود ہے مگر حقيقت ميں يہ ربا الفضل ہی کی طرف راجع ہے کيونکہ اس ميں ایک ايسی شرط ہے جو قرض دينے والے کوایک خاص نفع پہنچاتی ہے گويا اس نے يہ چيز ايک ايسے نفع کے اضافے کے ساتھ دی جو اس کی طرف لوٹا۔
سود کی يہ چاروں اقسام مذکورہ آیاتِ مبارکہ اور آئندہ آنے والی احادیثِ مبارکہ کی بناء پربالاجماع حرام ہيں اور ربا کی مذمت ميں جو وعيد بھی آئی ہے وہ ان چاروں کو شامل ہے البتہ ان ميں سے بعض کی حرمت قیاس سے ثابت ہے اوربعض کی حرمت میں قیاس کو دخل نہیں۔
ربا النسيئۃسے مراد وہ طريقہ ہے جوزمانۂ جاہليت ميں مشہور تھا یعنی وہ کسی کو معينہ مدت تک کے لئے کوئی شئے قرض ديتے اور اس پر ہر ماہ ایک معين مقدار میں نفع وصول کرتے جبکہ اصل مال جوں کا توں باقی رہتا اور جب وہ مدت پوری ہو جاتی تو وہ اپنے مال کا مطالبہ کرتا اگر مقروض ادائيگی سے معذرت کرتا تو اس مدت اور نفع ميں اضافہ کر ديتا اگرچہ اس پر ربا الفضل کا نام بھی صادق آتا ہے ليکن اسے نسیئہ کہنے کی وجہ يہ ہے کہ اس ميں ذاتی طور پرادھار ہی مقصود ہوتا ہے اور يہ صورت لوگوں ميں اب تک رائج اور مشہور ہے۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماصرف”رباالنسيئۃ”ہی کوحرام قرار ديتے تھے اور دليل يہ پيش فرماتے تھے کہ ہمارے درميان يہی صورت متعارف ہے لہذاوہ نص کو اس کی طرف پھيرديتے مگر صحيح احادیثِ مبارکہ مذکورہ چاروں صورتوں کی حرمت پر دلالت کرتی ہيں اور اس پر کسی نے اعتراض کيا نہ ہی اس میں کسی کااختلاف ہے،اسی لئے فقہا ء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے حضرت سيدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے قول کے خلاف اجماع کرلياکیونکہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلياتھاچنانچہ،
حضرت سيدناابی ّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان سے کہا:”کيا آپ اس وقت حاضرتھے جب ہم حاضرنہ تھے؟کيا آپ نے حضور نبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے وہ باتيں سنی جو ہم نے نہ سنيں؟”پھران کے سامنے رباکی تمام صورتوں کی حرمت سے متعلق صریح حديث بيان کر کے کہا:”آپ جب تک اس مؤقف پر قائم رہيں گے ہم ایک دوسرے کو گھرکے سائے ميں پناہ نہیں دیں گے۔”توحضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے(اپنے مؤقف سے) رجوع فرما ليا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حضرت سیدناامام محمد بن سيرين رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں:”ہم حضرت سیدناعِکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر پر تھے کہ ان میں سے ايک شخص نے پوچھا:”کيا آپ کو يادہے کہ ہم فلاں شخص کے گھرپرتھے اور ہمارے ساتھ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی تھے اور انہوں نے ارشاد فرمایاتھا:”ميں بيع صرف ۱؎ کو اپنی رائے سے حلال سمجھتا تھا پھرمجھے خبرملی کہ حضور نبئ کریم
صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اسے حرام فرمايا ہے ،پس گواہ ہوجاؤکہ ميں اسے حرام کہتا ہوں اور اس سے اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں۔”
۱؎:احناف کے نزدیک سود کی تعریف یہ ہے : ” عقد معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہواورایک طرف زیادتی ہوکہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہویہ سود ہے۔” (بہار شریعت،ج۲،حصہ۱۱،ص۹۶)
۲؎:صدرالشریعہ،بدرالطریقہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی” ہدایہ” کے حوالے سے ربا الفضلاورربا النسیئۃ کی وضاحت یوں فرماتے ہیں: ”قدروجنس دونوں موجود ہوں تو کمی بیشی بھی حرام ہے (اس کو ربا الفضل کہتے ہيں)اورایک طرف نقد ہودوسری طرف ادھار یہ بھی حرام ہے (اس کو ربا النسیئۃ کہتے ہيں) مثلاًگیہوں کوگیہوں،جَوکوجَوکے بدلے میں بیع کريں تو کم وبیش حرام، اورایک اب ديتا ہے دوسرا کچھ دیر کے بعد دے گایہ بھی حرام، اوردونوں میں سے ایک ہوایک نہ ہوتو کمی بیشی جائز ہے اورادھار حرا م مثلاًگیہوں کوجَو کے بدلے میں ،یاایک طرف سیسہ ہوایک طرف لوہاکہ پہلی مثال میں ماپ اوردوسری میں وزن مشترک ہے، مگر جنس کا دونوں میں اختلاف ہے ۔کپڑے کو کپڑے کے بدلے میں ،غلام کو غلا م کے بدلے میں بیع کیااس میں جنس ایک ہے مگر قدر موجود نہيں۔ لہٰذا یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک تھان دے کر دو تھان یا ايک غلام کے بدلے میں دو غلام خرید لے مگر ادھار بیچنا حرام اورسود ہے اگرچہ کمی بیشی نہ ہواوردونوں نہ ہوں تو کمی بیشی بھی جائز اورادھار بھی جائز۔مثلاًگیہوں اورجَو کو روپیہ سے خریديں یہاں کم وبیش ہونا تو ظاہر ہے کہ ایک روپیہ کے عوض میں جتنے من چاہوخریدو کوئی حرج نہيں، اور ادھار بھی جائز ہے کہ آج خریدو روپیہ مہینے میں سال میں دوسرے کی مرضی سے جب چاہو دو،جائز ہے کوئی خرابی نہیں۔” (بہار شریعت،ج۲،حصہ۱۱،ص۹۶)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
………)
۱؎:(بیع صرف یہ ہے کہ )ثمن کو ثمن کے بدلے بیچنا۔(بیع)صرف میں کبھی جنس کا جنس سے تبادلہ ہوتا ہے جيسے روپیہ سے چاندی خریدنا یا چاندی کی ریزگاریاں (سکے کے حصے یعنی اٹھنِّی ،چونِّیوغیرہ ) خریدنا،سونے کو اشرفی سے خریدنا۔اورکبھی غیر جنس سے تبادلہ ہوتا ہے جيسے روپے سے سونا یااشرفی خریدنا۔(بہار شریعت،حصہ۱۱،ص۱۲۱)
بیع صرف کے جائز ہونے کی صورتیں :
احناف کے نزدیک:بیع صرف چند شرائط کے ساتھ جائز ہے ،چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے کلام کا خلاصہ یہ ہے:
(۱)۔۔۔۔۔۔دونوں طرف ایک ہی جنس(مثلاً چاندی کے بدلے چاندی یا سونے کے بدلے سونا) ہے توشرط یہ ہے کہ دونوں وزن میں برابر ہوں اوراسی مجلس میں دست بدست قبضہ ہویعنی ہر ایک دوسرے کی چیز اپنے فعل سے قبضہ میں لائے، اگر عاقدین نے ہاتھ سے قبضہ نہیں کیا بلکہ فرض کرو عقد کے بعد وہاں اپنی چیز رکھ دی اوراس کی چیز لے کر چلا آیا یہ کافی نہیں ہے اور اس طرح کرنے سے بیع ناجائز ہو گئی بلکہ سود ہوا۔
(۲)۔۔۔۔۔۔اتحاد جنس کی صورت میں کھرے کھوٹے ہونے کا کچھ لحاظ نہ ہوگایعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ جدھر کھرا مال ہے ادھر کم ہو اور جدھر کھوٹا ہو زیادہ ہو کہ اس صورت میں کمی بیشی سود ہے ۔
(۳)۔۔۔۔۔۔اس کا بھی لحاظ نہیں ہو گا کہ ایک میں صنعت ہے اور دوسرا چاندی کا ڈھیلاہے یا ایک سکہ ہے دوسرا ویسا ہی ہے اگر ان اختلافات کی وجہ سے کم وبیش کیا تو حرام وسود ہے ۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(۴)۔۔۔۔۔۔اگر دونوں جانب ایک جنس نہ ہوبلکہ مختلف جنسیں ہوں (مثلاً روپے کے بدلے سونایا اشرفی ہو)تو کمی بیشی میں کوئی حرج نہیں مگر تقابضِ بدلین ضروری ہے اگر تقابضِ بدلین سے قبل مجلس بدل گئی توبیع باطل ہو گئی ۔ (ماخوذ ازبہار شریعت،ج۲،حصہ۱۱،ص۱۲۱۔۱۲۲)