پیام لے کے جو آئی صبا مَدینے سے مریضِ عشق کی لائی دوا مَدینے سے
پیام لے کے جو آئی صبا مَدینے سے
مریضِ عشق کی لائی دوا مَدینے سے
سنو تو غور سے آئی صدا مَدینے سے
قریں ہے رحمت و فضلِ خدا مَدینے سے
ملے ہمارے بھی دِل کو جلا مَدینے سے
کہ مہر و ماہ نے پائی ضیا مَدینے سے
تمہاری ایک جھلک نے کیا اُسے دلکش
فروغ حسن نے پایا شہا مَدینے سے
تمام شاہ و گدا پل رہے ہیں اس دَر سے
ملی جہان کو روزی سدا مَدینے سے
جو آیا لے کے گیا کون لوٹا خالی ہاتھ
بتادے کوئی سنا ہو جو ’’ لا ‘‘ مَدینے سے
بتادے کوئی کسی اور سے بھی کچھ پایا
جسے مِلا جو مِلا وہ مِلا مَدینے سے
وہ آیا خُلد میں جو آگیا مَدینے میں
گیا وہ خلد سے جو چلدیا مَدینے سے
نہ چین پائے گا یہ غمزدہ کسی صورت
مریضِ غم کو ملے گی شفا مَدینے سے
لگاؤ دل کو نہ دنیا میں ہر کسی شے سے
تعلق اپنا ہو کعبے سے یا مَدینے سے
گدا کی راہ جہاں دیکھیں پھر نواکیوں ہو
نوا سے پہلے مِلے بے نوا مَدینے سے
چمن کے پھول کھلے مُردہ دِل بھی جی اُٹھے
نسیم خلد سے آئی ہے یا مَدینے سے
کرے گی مُردوں کو زندہ یہ تِشْنوں کو سیراب
وہ دیکھو اُٹھی کرم کی گھٹا مَدینے سے
مَدینہ چشمۂ آبِ حیات ہے یارو
چلو ہمیشہ کی لے لو بقا مَدینے سے
فضائے خلد کے قرباں مگر وہ بات کہاں
مِل آئیں حضرتِ رضواں ذرا مَدینے سے
ہمارے دل کو تو بھایا ہے طیبہ ہی زاہد
تمہیں ہے مکہ تو ہوگا سِوا مَدینے سے
چلے جو طیبہ سے مسلم تو خلد میں پہنچے
کہ سیدھا خلد کا ہے راستہ مَدینے سے
تم ایک آن میں آئے گئے تمہارے لیے
دو گام بھی نہیں عرشِ علا مَدینے سے
تمہارے قدموں پہ سر صدقے جاں فدا ہوجائے
نہ لائے پھر مجھے میرا خدا مَدینے سے
ترے حبیب کا پیارا چمن کیا برباد
الٰہی نکلے یہ نجدی بلا مَدینے سے
ترے نصیب کا نوریؔ ملے گا تجھ کو بھی
لے آئے حصہ یہ شاہ و گدا مَدینے سے