تعارفِ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
تعارفِ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
حضرت سیِّدُنا ادریس حداد علیہ رحمۃاللہ الجواد فرماتے ہیں: ”حضرت سیِّدُنا امام احمد بن محمدبن حنبل شیبانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیث ِ پاک میں صاحب ِ روایت تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا کوئی نہ تھا۔”
(طبقات الحنابلۃ، مقدمۃ المصنف،الرقم۱، احمدبن محمدبن حنبل،ج۱،ص۱0)
حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی صالح و مُتَّقی تھے اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سچے ایمانداروں کی علامات پائی جاتی تھیں۔ چنانچہ، حضرت سیِّدُناادریس حدادعلیہ رحمۃاللہ الجواد فرماتے ہیں:”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے حضرت سیِّدُنا عبداللہ علیہ رحمۃاللہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے روٹی اور کچھ سالن دینا اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔جب وہ قاضی بن گئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روٹی قبول کرنے سے انکا ر کر دیا اورارشاد فرمایا:”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں اس سے کبھی کھانانہ کھاؤں گا۔”اور مرتے دم تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اس قول پر کاربند رہے۔” (تذکرۃ الاولیاء،ص۱۹۷)
حضرت ادریس حدادعلیہ رحمۃاللہ الجواد فرماتے ہیں:”میں نے حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوہمیشہ نماز پڑھتے، تلاوتِ قرآن کرتے یا کوئی کتاب پڑھتے دیکھا اور کبھی کسی دُنیوی معاملے میں مشغول نہ پایا۔اورجب ان مذکورہ کاموں میں شدّت آجاتی تو ایک، دویا تین دن تک کچھ نہ کھاتے۔ جب اپنے گھر والوں کو دیکھتے تو پانی پی لیتے جس سے وہ سمجھتے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیٹ بھرا ہوا ہے۔”
حضرت سیِّدُنا مروزی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں،جب حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قرآنِ پاک کو غیرِ مخلوق ماننے پر خلیفہ واثق کے قید خانہ میں ڈالا گیا۔ توایک دن داروغۂ جیل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا: ”اے ابوعبد اللہ! کیاوہ حدیث صحیح ہے جوظالموں اور ان کے مددگاروں کے متعلق ہے؟” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا،” جی ہاں! صحیح ہے۔” اس نے کہا، ” پھر تو میں بھی ظالموں کے مددگاروں میں سے ہوں۔” توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”نہیں(تو ظالموں کا مددگار نہیں)۔” اس نے کہا، ”کیوں نہیں ؟”فرمایا:” ظالموں کا مددگار تو وہ ہے جو تیرے بال سنوارے، کپڑے دھوئے اور تیرے لئے کھانا لائے جبکہ تُو خود ظالم ہو۔”
(صید الخاطر لابن الجوزی،فصل التطلع بلا عمل،ص۱۴۲)
حضرت سیِّدُنا ادریس حدادعلیہ رحمۃاللہ الجواد فرماتے ہیں:”جب حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ابتلا و آزمائش کی گھڑیاں ختم ہوئیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھر لایا گیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کثیر مال بھیجا گیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ضرورت کے باوجود سارا مال واپس کردیااور اس میں سے کچھ نہ لیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچاحضرت سیِّدُنا اسحاق علیہ رحمۃ اللہ الرزاق نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس دن کے لوٹائے ہوئے مال کا حساب لگایا تو وہ پچاس ہزار دینارکا تھا۔ اس پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چچا سے فرمایا:”اے چچا! میں آپ کوایسے حساب میں مشغول پاتاہوں جو آپ کے لئے بے فائدہ ہے۔” چچا نے کہا:” آج تم نے اتنا مال واپس کر دیا حالانکہ تمہیں ایک ایک دانہ کی ضرورت ہے۔”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اگر ہم اسے طلب کرتے تو یہ نہ ملتا اور جب ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے تو یہ ہمارے پاس آیا ہے۔”
(سیر اعلام النبلاء، الرقم۱۸۷۶، احمد بن حنبل رضی اللہ تعالٰی عنہ، ج۹، ص۵۱۱)
حضرت سیِّدُنا علی بن سعید رازی علیہ رحمۃاللہ القاضی فرماتے ہیں: ”ایک دن ہم حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ خلیفہ مُتَوَکِّل کے دروازے پر پہنچے۔ جب درباریوں نے آپ کو خاص دروازے سے اندر داخل کیا توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں ارشاد فرمایا: ”واپس لوٹ جاؤ! اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں عافیت عطا فرمائے ۔” چنانچہ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کی برکت سے آج تک ہم میں سے کوئی بیمار نہ ہوا۔” (المرجع السابق،ص۵۱۲)
حضرت سیِّدُنا ہلا ل بن علاء علیہ رحمۃُ ربِّ العُلٰی فرماتے ہیں:”چار شخصیات ایسی ہیں جن کا اسلام پر احسان ہے: (۱)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو اذیت وتکلیف پر ثابت قدم رہے اور قرآنِ عظیم کو مخلوق نہ کہا (۲)۔۔۔۔۔۔حضرت سیِّدُنا ابوعبد اللہ شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، جنہوں نے کتاب و سنت پر فقہ کی بنیاد رکھی (۳)۔۔۔۔۔۔حضرت سیِّدُنا ابو عبداللہ قاسم بن سلام علیہ رحمۃاللہ السلام، جنہوں نے حضور نبئ پاک، صاحب ِ لولاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی حدیث کی تشریح فرمائی اور(۴)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیِّدُنا ابو زکریاعلیہ رحمۃاللہ الکبریا ،جنہوں نے صحیح اور غیر صحیح احادیث میں فرق واضح کیا۔”
حضرت سیِّدُنا محمد بن موسیٰ علیہ رحمۃاللہ فرماتے ہیں: حضرت سیِّدُنا حسین بن عبدالعزیز علیہ رحمۃاللہ العزیز کی طرف مصر سے بہت سا مالِ وراثت بھیجا گیا تو انہوں نے حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں تین تھیلے پیش کئے۔ ہر تھیلے میں ہزار دینار تھے اور عرض کی :”اے ابو عبداللہ ! اسے اپنے گھر والوں پر خرچ کر لیجئے۔” توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”مجھے اس مال کی کوئی ضرورت نہیں، مجھے میرا اللہ عَزَّوَجَلَّ کافی ہے۔”اور سارا مال لوٹا دیا۔
(حلیۃ الاولیاء،الامام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ،الحدیث۱۳۶۳۶،ج۹،ص۱۸۷)
حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے حضرت سیِّدُنا عبداللہ علیہ رحمۃاللہ فرماتے ہیں: ”میرے والد ِمحترم ہر رات ایک منزل قرآنِ حکیم پڑھتے اور سات دن میں قرآنِ مجید ختم فرماتے پھر صبح تک کھڑے ہو کر عبادت کرتے رہتے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر دن تین سو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کوڑے برسائے گئے تو آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کمزور پڑ گئے۔ اور پھر ہر دن ایک سو پچاس (150)رکعت ادا فرماتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین بار سکون میں آتے اور تین بار آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چیخ بلند ہوتی ۔”
(حلیۃ الاولیاء،الامام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ،الحدیث۱۳۶۵۸،ج۹،ص۱۹۲)