دو اَ مْرَد پسند مؤذنوں کی بربادی
دو اَ مْرَد پسند مؤذنوں کی بربادی:
حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن احمد مؤذن رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :” میں طواف ِکعبہ میں مشغول تھا کہ ایک شخص پر نظر پڑی جو غلافِ کعبہ سے لپٹ کرایک ہی دعا کا تکرا رکر رہا تھا: ”یااللہ عَزَّوَجَلَّ !مجھے دنیا سے مسلمان ہی رخصت کرنا”میں نے اس سے پوچھا: تم اس کے علاوہ کوئی اور دعاکیوں نہیں مانگتے؟ اس نے کہا: ”کاش! آپ کو میرے واقعہ کا علم ہوتا۔” میں نے دریافت کیا: ”تمہارا کیا واقعہ ہے؟ تو اس نے بتایا:”میرے دو بھائی تھے، بڑے بھائی نے چالیس سال تک مسجد میں بلامعاوضہ اذان دی، جب اس کی موت کاوقت آیا تو اس نے قرآنِ پاک مانگا۔ ہم نے اسے دیا تاکہ اس سے برکتیں حاصل کرے مگر قرآن شریف ہاتھ میں لے کر کہنے لگا: تم سب گواہ ہوجاؤکہ میں قرآن کے تمام اعتقادات واحکامات سے بے زاری اور نصرانی(عیسائی) مذہب اختیار کرتا ہوں پھر وہ مر گیا۔ اس کے بعد دوسرے بھائی نے تیس برس تک مسجد میں فِیْ سَبِیْلِ اللہ اذان دی مگر اس نے بھی آخری وقت نصرانی ہونے کا اعتراف کیا اور مر گیا۔ لہٰذا میں اپنے خاتمہ کے بارے میں بے حد فکر مند ہوں اور ہر وقت خاتمہ بالخیر کی دعا مانگتا رہتا ہوں توحضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن احمد مؤذن رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے استفسار فرمایا: ”تمہارے دونوں بھائی ایسا کون سا گناہ کرتے تھے؟اس نے بتایا: ”وہ غیر عورتوں میں دلچسپی لیتے تھے اور امردوں(بے ریش لڑکوں) کو (شہوت سے ) دیکھا کرتے تھے۔”(۱)
اے اپنی نظر کو شہوتوں میں مستغرق رکھنے وا لے! اے محرمات کے چاہنے والے! اے فنا ہونے والی لذتوں سے دھوکا کھانے والے! تو نے ان قوموں سے نصیحت حاصل کیوں نہ کی جن کو ان کے گھروں سے نکالا گیااور انہوں نے غفلت کی رسی کو پکڑے رکھا۔پس ان کا یہ عذر قبو ل نہیں کیا جا ئے گا کہ ہمیں تو کسی نے ڈرایا نہ تھا۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(5) قُلۡ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنْ اَبْصَارِہِمْ
ترجمۂ کنزالایمان:مسلما ن مر دوں کو حکم دو اپنی نگا ہیں کچھ نیچی رکھیں۔ (پ18،النور:30)(۱)
حضرتِ سیِّدُنا ابویزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہ، الرَّبَّانِی کے بارے میں منقول ہے کہ ”آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ جب وضو فرماتے تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے اعضاء پر ایک کپکپی سی طاری ہو جاتی یہاں تک کہ جب نمازکے لئے کھڑے ہوکر تکبیر کہتے تو کپکپی ختم ہوتی۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے اس کے متعلق عرض کی گئی توارشاد فرمایا: ”میں اس با ت سے خوف کھاتا ہوں کہ کہیں مجھے بدبختی نہ گھیرلے اور میں یہود ونصاریٰ کے گرجوں میں نہ جا پڑوں۔ ” نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ مَکْرِاللہِ یعنی ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے اس کی پناہ مانگتے ہیں۔
حضرتِ سیِّدُنا سفیان ثوری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے متعلق منقول ہے کہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ حج کے ارادے سے مکۂ مکرمہ روانہ ہوئے، اور پوری رات کجاوے میں روتے رہے، حضرتِ سیِّدُنا شیبان راعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے عرض کی: ”اے سفیان! آپ کے
رونے کی وجہ کیا ہے؟ اگر معصیت کی وجہ سے ہے توآپ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نافرمان نہیں۔” حضرتِ سیِّدُناسفیان رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے یہ سن کر فرمایا: ”اے شیبان! گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے، وہ تو کبھی میرے دل میں نہیں کھٹکے، میرا رونا معصیت کے سبب نہیں بلکہ میں تو برے خاتمے کے خوف سے رو رہا ہوں کیونکہ میں نے ایک بہت ہی نیک بزرگ کو دیکھا، جس سے ہم نے علم حاصل کیا، اس نے لوگوں کوچالیس سال تک علم سکھایا، بیتُ اللہ شریف کی کئی سال مجاورت کرتا اوربرکتیں لوٹتا رہا، اس شخص کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی،مگروہ کافرہوکرمرااور اس کا چہرہ قبلہ سے پِھرکر مشرق کی طرف ہوگیا ۔لہٰذا مجھے برے خاتمے کے سوا کسی چیز کا خوف نہیں۔” حضرتِ سیِّدُنا شیبان نے عرض کی: ”اگر ایسا نافرمانی اور گناہوں پر اصرار کی نحوست کی وجہ سے ہے تو آپ ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہ کیجئے گا۔”
حضرتِ سیِّدُنا حمزہ بن عبد اللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”میں حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر شا شی علیہ ر حمۃاللہ الکافی کے وصال کے وقت ان کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا: ” اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہیں؟” توانہوں نے جواباً ارشاد فرمایا: ”اس کشتی کی طرح جو غرق ہونے سے پہلے چکرا رہی ہوتی ہے۔ میں نہیں جا نتا کہ کیا میری نجات ہو گی؟ کیاملائکہ یہ خوشخبری لے کر آئیں گے: ”اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا ترجمۂ کنزالایمان:کہ نہ ڈرواور نہ غم کر و۔”(پ۲۴،حم السجدۃ:۳0) یا کشتی غرق ہو جائے گی اور فرشتے یہ کہتے ہوئے آئيں گے: ”لَا بُشْرٰی یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیۡنَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ حِجْرًا مَّحْجُوۡرًا ﴿۲۲﴾ ترجمۂ کنزالایمان :وہ دن مجرموں کی کوئی خوشی کا نہ ہو گا اور کہیں گے الٰہی! ہم میں اُن میں کوئی آڑ کر دے رُکی ہو ئی۔” (پ۱۹،الفرقان:۲۲) یعنی دور ہو جا، توہم سے صلح کے قا بل نہیں۔”
اے نافرمان!اپنے دل کی تاریکی پر رو تاکہ وہ روشن ہو جائے کیونکہ جب بادل ٹیلے پر برستے ہیں تووہ چمک جاتا ہے، ہلاکت ہے تیرے لئے! تو کہتا ہے: میں توبہ کرنے والا اور حق کو پورا کرنے والا ہوں۔ کھڑا ہو اور جلدی کر، نیکیوں کو ضائع نہ کر، پھر موقع نہ ملے گا۔ جب بندہ اپنی توبہ میں سچا ہوتا ہے تو اللہ عزَّوَجَلَّ! کِرَاماً کَاتِبِیْن (یعنی بندے کے اعمال لکھنے والے فرشتوں) کوان کے لکھے ہوئے اعمال بھلا دیتا ہے اور زمین کو حکم فرماتا ہے کہ میرے بندے پر وسیع ہوجا۔
پیارے پيارے اسلامی بھائیو! شیطان تما م مقاصد میں تمہاری تاک میں ہے۔
(6)یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا خُذُوۡا حِذْرَکُمْ
ترجمۂ کنزالایمان:اے ایما ن وا لو! ہو شیا ر ی سے کا م لو۔(پ5،النسآء: 71)
تو تم اس کی با ت نہ سننا اس لئے کہ وہ جھو ٹااور شریر ہے اور اس کی نصیحت قبول نہ کرنا کیونکہ وہ دھوکے باز ہے:
(7) اِنَّمَا یَدْعُوۡا حِزْبَہٗ لِیَکُوۡنُوۡا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیۡرِ ؕ﴿6﴾
ترجمۂ کنزالایمان:وہ تو اپنے گروہ کواسی لئے بلاتاہے کہ دوزخیوں میں ہوں۔ (پ22،فاطر:6)
ابن آدم پر تعجب ہے کہ (جب شیطان نے اس کے باپ کو سجدہ کرنے سے انکار کیااس وقت) وہ اپنے باپ کی پشت میں تھا،تو وہ کیسے اس جہنم میں داخل ہوجائے گاجس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اے ابنِ آدم! ہم نے ابلیس کو دھتکارا اس لئے کہ اس نے تیرے باپ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، تجھ پر تعجب ہے کہ تو نے اس سے صلح کیسے کرلی اور ہمیں چھوڑ دیا۔
1۔۔۔۔۔۔شیخ طریقت، امیر اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ اس حکایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:”میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غَضَب ہوگیا! کیا اب بھی غیر عورَتوں سے بے پردَگی اور بے تکلُّفی سے باز نہیں آئیں گے ؟ کیا اب بھی غیر عورَتوں نیز اپنی بھابھی، چچی، تائی، مُمانی (کہ یہ بھی شرعاً سب غیر عورَتیں ہی ہیں ان) سے اپنی نگاہوں کو نہیں بچائیں گے؟ اِسی طرح چچا زاد، تایا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاداور خالہ زاد کا نیز بیوی کی بہن اور بہنوئی کاآپس میں پردہ ہے۔ نامحرم پیر اور مرُیدنی کابھی پردہ ہے۔ مُریدنی اپنے نامحرم پیر کا ہاتھ نہیں چوم سکتی۔ خبردار! اَمْرَد تو آگ ہے آ گ! اَمْرَد کا قُرب، اُس کی دوستی اُس کے ساتھ مذاق مسخری، آپس میں کُشتی، کھینچا تانی اور لپٹا لِپٹی جہنَّم میں جھونک سکتی ہے۔ اَمرَد سے دُور رہنے ہی میں عافیَّت ہے اگرچِہ اُس بے چار ے کا کوئی قُصُور نہیں، اَمرَد ہونے کے سبب اُس کی دل آزاری بھی مت کیجئے۔مگر اُس سے اپنے آپ کو بچانا بے حد ضَروری ہے۔ ہرگز اَمرَد کو اسکوٹر پر اپنے پیچھے مت بٹھایئے، خود بھی اُس کے پیچھے مت بیٹھئے کہ آگ آگے ہو یا پیچھے اُس کی تَپَش ہر صورت میں پہنچے گی۔شہوَت نہ ہو جب بھی اَمرَد سے گلے ملنا مَحَلِّ فِتنہ (یعنی فِتنے کی جگہ)ہے، اورشَہوت ہونے کی صورت میں گلے ملنا بلکہ ہاتھ مِلانا بلکہ فُقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلام ۔۔
۔فرماتے ہیں: اَمرَد کی طرف شَہوت کے ساتھ دیکھنا بھی حرام ہے۔ (تفسیراتِ احمدیہ ص۵۵۹) اُس کے بدن کے ہر حصّے حتّٰی کہ لباس سے بھی نگاہوں کو بچایئے۔اِس کے تصوُّر سے اگر شَہوت آتی ہو تواس سے بھی بچئے، اُس کی تحریر یا کسی چیز سے شَہوت بھڑکتی ہو تو اُس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے نظر کی حفاظت کیجئے، حتّٰی کہ اُس کے مکان کو بھی مت دیکھئے۔ اگر اس کے والد یا بڑے بھائی وغیرہ کو دیکھنے سے اس کا تصوُّر قائم ہوتا ہے اور شَہوت چڑھتی ہے تو ان کو بھی مت دیکھئے۔ اَمرَد کے ذَرِیعے کئے جانے والے شیطانِ عیّار ومکّار کے تباہ کاروار سے خبردار کرتے ہوئے میرے آقا، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: منقول ہے، عورت کے ساتھ دو۲ شیطان ہوتے ہیں اور اَمْرَد کے ساتھ ستَّر۔ (فتاویٰ رضویہ ج۲۳ ص۷۲۱) بَہَرحال اَجْنَبِيَّہ عورت (یعنی جس سے شادی جائز ہو)اُس سے اور اَمْرَد سے اپنی آنکھوں اور اپنے وُجود کو دُور رکھنا سخت ضَروری ہے ورنہ ابھی آپ نے اُن دو بھائیوں کی اَموات کے تشویشناک مُعامَلات پڑھے جو بظاہِر نیک تھے۔ مہربانی فرما کر مکتبۃُ المدینہ کا مطبوعہ مختصر رسالہ اَ مْرَد پسندی کی تباہ کاریاں کا مُطالَعَہ فرما لیجئے۔”
؎ نفسِ بے لگام تو گُناہوں پہ اُکساتا ہے توبہ توبہ کرنے کی بھی عادت ہونی چاہے
(بُرے خاتمے کے اسباب ص ۱۷)