عجب کرم شہِ والا تبار کرتے ہیں
عجب کرم شہِ والا تبار کرتے ہیں
کہ نااُمیدوں کو اُمیدوار کرتے ہیں
جما کے دِل میں صفیں حسرت و تمنا کی
نگاہِ لطف کا ہم اِنتظار کرتے ہیں
مجھے فَسُردَگیٔ بخت کا اَلم کیا ہو
وہ ایک دم میں خزاں کو بہار کرتے ہیں
خدا سگانِ نبی سے یہ مجھ کو سنوا دے
ہم اپنے کتوں میں تجھ کو شمار کرتے ہیں
ملائکہ کو بھی ہیں کچھ فضیلتیں ہم پر
کہ پاس رہتے ہیں طوفِ مزار کرتے ہیں
جو خوش نصیب یہاں خاکِ در پہ بیٹھتے ہیں
جلوسِ مسندِ شاہی سے عار کرتے ہیں
ہمارے دل کی لگی بھی وہی بجھا دیں گے
جو دَم میں آگ کو باغ و بہار کرتے ہیں
اشارہ کر دو تو بادِ خلاف کے جھونکے
ابھی ہمارے سفینے کو پار کرتے ہیں
تمہارے در کے گداؤں کی شان عالی ہے
وہ جس کو چاہتے ہیں تاجدار کرتے ہیں
گدا گدا ہے گدا تو کیا ہی چاہے اَدَب
بڑے بڑے تیرے دَر کا وقار کرتے ہیں
تمام خلق کو منظور ہے رضا جن کی
رضا حضور کی وہ اِختیار کرتے ہیں
سُنا کے وصفِ رُخِ پاک عندلیب کو ہم
رہینِ آمدِ فصلِ بہار کرتے ہیں
ہوا خلاف ہو چکرائے ناؤ کیا غم ہے
وہ ایک آن میں بیڑے کو پار کرتے ہیں
اَنَا لَھَا سے وہ بازارِ کسمپرساں میں
تسلیٔ دلِ بے اختیار کرتے ہیں
بنائی پشت نہ کعبہ کی ان کے گھر کی طرف
جنہیں خبر ہے وہ ایسا وقار کرتے ہیں
کبھی وہ تاجورانِ زمانہ کر نہ سکیں
جو کام آپ کے خدمت گزار کرتے ہیں
ہوائے دامن جاناں کے جانفزا جھونکے
خزاں رَسیدوں کو باغ و بہار کرتے ہیں
سگانِ ُکوئے نبی کے نصیب پر قرباں
پڑے ہوئے سرِ رہ اِفتخار کرتے ہیں
کوئی یہ پوچھے مِرے دل سے میری حسرت سے
کہ ٹوٹے حال میں کیا غمگسار کرتے ہیں
وہ ان کے دَر کے فقیروں سے کیوں نہیں کہتے
جو ِشکوۂ ستمِ روزگار کرتے ہیں
تمہارے ہجر کے صدموں کی تاب کس کو ہے
یہ چوبِ خشک کو بھی بے قرار کرتے ہیں
کسی بلا سے انہیں پہنچے کس طرح آسیب
جو تیرے نام سے اپنا حصار کرتے ہیں
یہ نرم دِل ہیں وہ پیارے کہ سختیوں پر بھی
عدو کے حق میں دُعا بار بار کرتے ہیں
کشودِ عقدۂ مشکل کی کیوں میں فکر کروں
یہ کام تو مِرے طیبہ کے خار کرتے ہیں
زمین کوئے نبی کے جو لیتے ہیں بوسے
فرشتگانِ فلک ان کو پیار کرتے ہیں
تمہارے دَر پہ گدا بھی ہیں ہاتھ پھیلائے
تمہیں سے عرضِ دعا شہریار کرتے ہیں
کسے ہے دِیدِ جمالِ خدا پسند کی تاب
وہ پورے جلوے کہاں آشکار کرتے ہیں
ہمارے نخلِ تمنا کو بھی وہ پھل دیں گے
درخت خشک کو جو باردَار کرتے ہیں
پڑے ہیں خوابِ تغافل میں ہم مگر مولیٰ
طرح طرح سے ہمیں ہوشیار کرتے ہیں
سنا نہ مرتے ہوئے آج تک کسی نے انہیں
جو اپنے جان و دل ان پر نثار کرتے ہیں
انہیں کا جلوہ سرِ بزم دیکھتے ہیں پتنگ
انہیں کی یاد چمن میں ہزار کرتے ہیں
مِرے کریم نہ آہو کو قید دیکھ سکے
عبث اَسیر اَلم اِنتشار کرتے ہیں
جو ذَرّے آتے ہیں پائے حضور کے نیچے
چمک کے مہر کو وہ شرمسار کرتے ہیں
جو موئے پاک کو رکھتے ہیں اپنی ٹوپی میں
شجاعتیں وہ دمِ کارزار کرتے ہیں
جدھر وہ آتے ہیں اب اس میں دل ہوں یا راہیں
مہک سے گیسووں کی مشکبار کرتے ہیں
حسنؔ کی جان ہو اس وُسعتِ کرم پہ نثار
کہ ِاک جہان کو اُمیدوار کرتے ہیں