آنکھوں کا قفلِ مدینہ:(۱)
آنکھوں کا قفلِ مدینہ:(۱)
حضرت سیِّدُنا حسان بن ابی سنان علیہ رحمۃاللہ المنّان عید کے دن گھر سے باہرتشریف لے گئے جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ واپس آئے تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی زوجہ کہنے لگی: ”آج آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے کتنی حسین عورتوں کو دیکھا؟” آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !میں یہاں سے جانے کے بعد واپس آنے تک اپنے پاؤں کے انگوٹھے پرہی دیکھتا رہا۔”
سلف صالحین نظر کے فتنہ سے بچنے کے لئے اور برے خاتمے کے خوف سے اپنی نگاہیں بہت زیادہ جھکا کر رکھتے۔بعض علمائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:” نظر کے فتنوں سے بچو! کیونکہ یہ دیکھی جانے والی صورت کو دِل میں نقش کر دیتی ہے۔ اور بے شک دُنیا کے عیوب ظاہر ہیں،کتنے ہی آزمائش کے دروازے کھول دئیے گئے اور آنکھ کے دھوکے جیسا کوئی دھوکا نہیں۔”
1۔۔۔۔۔۔”قفل مدینہ”دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں بولی جانے والی ایک اِصْطِلاح ہے۔ کسی بھی عضوکو گناہ اور فضولیات سے بچانے کو”قفل مدینہ” لگانا کہتے ہیں۔
ترجمۂ کنز الایمان:انہیں غم میں نہ ڈالے گی وہ سب سے بڑی گھبراہٹ اور فرشتے ان کی پیشوائی کو آئیں گے کہ یہ ہے تمہاراوہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔(پ۱۷،الانبیآء: ۱0۳)
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بدلیوں سے پانی اُتارا،اور اپنے فضل و کرم سے کامل طور پر نعمتیں عطا فرمائیں،اپنے بندوں کے متعلق جو چاہتاہے فیصلہ فرماتاہے۔ کیونکہ ،خود ارشاد فرماتا ہے:
حضرت سیِّدُنا ربیع بن خیثم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نظر کی حفاظت کے لئے اپنی آنکھوں کوبہت زیادہ جھکائے رکھتے یہاں تک کہ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کونابینا گمان کرتے۔ حضرت سیِّدُنا ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر بیس سال تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جانا رہا۔ جب بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دروازہ کھٹکھٹاتے تَولونڈی باہرنکل کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس حال میں دیکھتی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی نظر کو جھکائے ہوئے ہوتے تو وہ اپنے آقا سے کہتی، آپ کا نابینا دوست آیاہے۔حضرت سیِّدُنا ابنِ مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ لونڈی کی اس بات سے مُسکرادیاکرتے۔اورجب حضرت سیِّدُنا ربیع بن خیثم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھتے تَو فرماتے: وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اے محبوب! خوشی سنادو ان تواضع والوں کو۔(پ۱۷، الحج:۳۴)” اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر حضرت سیِّدُنا محمدِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آپ کو دیکھتے تو آپ سے خوش ہوتے اور آپ کو بہت پسند فرماتے ۔”
(احیاء علوم الدین،کتاب اسرار الصلاۃ، الباب الثالث، حکایات واخبار فی صلاۃ الخاشعین، ج۱، ص۲۳۲)
بعض صالحین رحمہم اللہ المبین فرماتے ہیں:” اے لوگو!کَشتی غرق ہو رہی ہے پھر بھی ہم سورہے ہیں نہ جانے ہمارے ساتھ کیسا معاملہ کیا جائے گا؟ جبکہ ہمارے افعال قبیح اور باتیں بُری ہیں ،ہم سخت وبال اور عذاب میں گھِرے ہوئے ہیں اورہروقت حرام کو دیکھتے ہیں۔
حضرت سیِّدُنا شیخ جمال الدین ابو الفَرَج بن جوزی علیہ رحمۃاللہ القوی نقل فرماتے ہیں کہ ”نظر کی سزاکے بارے میں حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے کہ ایک شخص اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس سے خون ٹپک رہا تھا۔ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اِستِفسار فرمایا: ”تجھے کیا ہوا؟” اُس نے عرض کی :”میرے قریب سے ایک عورت گزری، میں نے اس کی طرف دیکھا، میری نظر مسلسل اس کا پیچھا کررہی تھی کہ میں ایک دیوار سے ٹکرا گیااور میرے ساتھ وہ ہوا جو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ملاحظہ فرمارہے ہیں۔”رسو ل اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی بندے سے بھلائی کاارادہ فرماتا ہے تَودنیا میں ہی اُسے سزا دے دیتا ہے۔”
(جامع التر مذی ،ابواب الزھد،باب ماجاء فی الصبر علی البلاء،الحدیث ۲۳۹۶، ص۱۸۹۲)
ماہِ رمضان کے آغاز میں بہت سے لوگو ں نے نمازِ تراویح پڑھنی شروع کردی اور طلبِ ثواب کے لئے مساجد میں چراغ جلائے، وسیع وعریض مقامات کوعبادت سے بھر دیا اور اپنی نیکیوں کے ذریعے ہر برائی کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن اس مقدس مہینے کے اِختِتام پر جب برائی کاحملہ کرنے والے نے ان پر حملہ کیاتو وہ مغلوب ہوگئے ۔شکار کرنے والے نے ان کو باندھ دیاتو وہ قیدی ہو گئے۔ ہلاکت نے اپنے سمندر میں ان کو غوطہ زن کیاتو وہ ڈوب گئے ۔ جب وہ اِنتِقال کر گئے توانہیں مال نے کچھ نفع دیا نہ اُمیدوں نے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !وہ رفتہ رفتہ ہم سے کُوچ کر گئے، ان کی دنیا میں بنائی ہوئی سب عمارتیں ٹُوٹ گئیں ،ان پر موت کی چَکی
گُھومی اور ان کے چہروں کو مٹی تلے دَباکر ختم کر دیا گیا۔ اور آفات نے بغير کسی بدلے کے ان کا سب کچھ لے لیا اور ذلت ورسوائی ان کا مقدَّر بن گئی، موت نے ان کی امیدوں کو خاک میں ملادیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !ان کے روزوں اور صدقہ وخیرات کا سلسلہ ختم ہوگیااور آندھیوں نے ان کی قبروں کو مِسمار کرکے برابرکردیا اورقبروں میں ان کے جسم بِکھر گئے۔ عنقریب تیرا اورتیرے اہل و عیال کا بھی یہی حال ہوگا، پس اے عبرت نہ پکڑنے والے! جاگ جا اور اپنی حفاظت کی کوشش کر۔کتنی بار موت کی ہولناکی کو تو سن اور دیکھ چکا ہے۔ اے لمبی اُمید والے! اے نرمی سے محروم اور فضول کاموں میں مشغول شخص! اے موت کے سبب فناہونے والے اور اے عاقبت کو برباد کردینے والے کاموں میں مشغول شخص! اب بھی توبہ کی تیاری نہ کریگا تو پھر کب کریگا؟ بے شک موت کا قاصد بُڑھاپا آچکا ہے۔ کیا تونے اکثر عمر ٹال مٹول میں نہیں گزاری؟ اے کثرت سے گناہوں میں مستغرق رہنے والے!کیا توتقدیر کے حملوں کا شکار نہیں ہوگا؟ کل بروزِ قیامت سب کا معاملہ اکٹھا ہوجائے گا اور عنقریب فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اے کم زادِراہ والے ! موت کا حُدِی خواں اعلان کر چکا ہے،پس تو ضائع اور بے کار ہونے کے لئے تیار ہوجا۔
حضرت سیِّدُنا ابو یعقوب نہرَجُوری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ” میں نے دورانِ طواف ایک شخص کو دیکھا، وہ یہی دعا کئے جا رہا تھا: ”میں تجھ سے تیری پناہ مانگتاہوں۔” میں نے اس سے پوچھا:”یہ کون سی دعا ہے؟”وہ بولا: ”میں پچاس سال سے مکہ شریف میں رہ رہا ہوں۔ ایک دن میں نے ایک خوبصورت شخص کو دیکھا تووہ مجھے پسندآ گیا۔ اچانک مجھے ایک تھپڑ پڑا، میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے،میں نے آہ بھری تو ایک دوسرا تھپڑ آ لگا، پھر کسی نے کہا: ”اگر تُو زیادہ کرتا تو ہم بھی زیادہ کرتے۔”
حضرت سیِّدُنا محمد بن عبداللہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ” میں اپنے استاذحضرت سیِّدُنا ابو بکر دقَّاق علیہ رحمۃ اللہ الرزّاق کی معیَّت میں تھا کہ ایک اَمْرَد گزرا، میں نے اس کی طرف دیکھا تو میرے استاذِمحترم نے مجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ تو انہوں نے فرمایا: ”اے میرے بیٹے! تجھے اس کی سزا ضرور ملے گی، اگرچہ کچھ عرصہ بعد ہی ہو۔”چنانچہ میں بیس سال تک اس سزا کا انتظار کرتا رہا۔ ایک رات اسی پریشانی میں سویا۔ جب صبح ہوئی تَو مجھے سارا قرآن بھلادِیا گیا تھا، اور کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا: ”یہ اس ایک نظر کی سزا ہے۔”
(غذاء الالباب فی شرح منظومۃ الآداب، مطلب فی فوائد غض البصر، المقام الثانی،ج۱، ص۱۳۲)
حضرت سیِّدُنا ابو بکر کتَّانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ”میں نے ایک دوست کو خواب میں دیکھ کر پوچھا: ”مَا فَعَلَ اللّہُ بِکَ؟ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا۔”تَواس نے جواب دیا:” میرے گناہ میرے سامنے لا کر پوچھا گیا: ”تُونے یہ گناہ کیا تھا ؟” میں نے عر ض کی :”جی ہاں۔” پھر پوچھاگیا:”کیا تُونے فلاں فلاں گناہ بھی کیا تھا؟”میں نے پھر اِقرار کرلیا۔ لیکن جب تیسری بار پوچھا گیاکہ کیا تُو نے فلاں گناہ بھی کیا تھاـ؟تومجھے اس کا اقرار کرنے سے بہت شرمساری ہوئی۔”آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، میں نے اپنے دوست سے پوچھا:”وہ گناہ کیاتھا؟”بولا:”میرے قریب سے ایک خوبصورت لڑکا
گزراتو میں نے اس کی طرف دیکھ لیا،جس کی سبب مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سامنے سترسال کھڑا رکھا گیااور اس گناہ سے شرمندگی کی وجہ سے پسینہ بہتا رہا، پھر اس نے اپنے فضل سے مجھے معاف فرما دیا۔”
حضرت سیِّدُنا ابو عبداللہ زرادعلیہ رحمۃاللہ الجواد کو خواب میں دیکھ کر پوچھاگیا: ”مَافَعَلَ اللّہُ بِکَ؟ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟”توانہوں نے فرمایا :”میں نے تمام گناہوں کا اقرار کیااوراللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں بخش دیا سوائے ایک گناہ کے کہ مجھے اس کا اقرار کرنے سے حیاء آئی اور مجھے پسینے میں کھڑ ا کردیا گیایہاں تک کہ میرے چہرے کا گوشت جھڑ گیا۔”ان سے عرض کی گئی: ”وہ گناہ کیا تھا؟”توانہوں نے فرمایا:”میں نے ایک خوبصورت شخص کو دیکھاتھا۔”
اے ابن آدم!تیری آنکھیں حرام میں آزاد ہیں اور تیری زبان گناہوں میں طویل ہو رہی ہے،تیراجسم دنیا کی دولت کمانے میں تھکاوٹ قبول کر رہا ہے۔بہت سی بد نگاہیاں ایسی ہیں کہ جن کی وجہ سے قدم پھسل جاتے ہیں۔ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو!جان لو! عید کا دن سعادت کا دن ہے۔ اس میں کچھ لوگ نیک بخت ہوتے ہیں اورکچھ بد بخت۔ اس بندے کو مبارک باد ہو جس کے اعمال اس دن قبول کر لئے گئے،اوراس کے لئے ہلاکت ہے جس کے اعمال رد کر دیئے گئے۔ یہ تو ایسا دن ہے جس میں مقبول کو مبارکباددی جاتی ہے اور مردودکو تسلِّی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر رحم فرمائے! بُرے اعمال سے اجتناب کرو اور رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ والے کاموں کی کوشش کرو، عنقریب وہ تمہیں برے اعمال سے نجات عطا فرما دے گا۔