ربیع الاول کا مہینہ تاریخِ اسلام میں ایک لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتاہے ، یہی ربیع الاول کا مہینہ تھا اور 63ھ کا سال جب یزید کی فوجوں نے مسلم بن عقبہ کی سرگردگی میں مدینہ منورہ پر حملہ کر کے ہزاروں صحابہ و تابعین کو قتل کر دیا تھا اور مزارِ رسول کی بے حرمتی کی تھی اور یہی ربیع الاول کا مہینہ ہے لیکن 1373ھ کا سال جب ہم اس ابن مسعود کی موت کی خبر سن رہے ہیں جس نے جنت المعلّٰی اور جنت البقیع کے تمام مزارات منہدم کرادئے ، نجدو حجاز میں تمام اولیائے اسلام کے مقابر برباد کر دئے ، سرور دوعالم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم کے مزار انور کی زیارت ممنون قراردی ، ضریح پاک کو بوسہ دینا حرام قرار دیدیا اور قبور بزرگان دین کی زیارت یا ن پر فاتحہ پڑھنے کی ممانعت کر کے مسلمانانِ عالم کے دلوں کو مجروح کردیا ۔
ابن مسعود اگر کوئی معمولی انسان ہوتا تو ہم اس کی موت پر ضرور اظہار تاسف کرتے اس لئے کہ یہ فطرت بشری کا اقتضیٰ ہے ، لیکن بد قسمتی سے ابن مسعود کی ایک مذہبی حیثیت بھی ہے اور ایسی حالت میں ہم اس پر مجبور ہیں کہ جہاں اس کی موت کا تذکرہ کریں وہیں ان حقائق کو بھی واضح کردیں جس کا اس شخص کی ذات سے گہرا تعلق ہے ، اور جنکو دیوبندی پریس اپنی طاقت کے بل پر مسلمانوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنے کا مجرم بن رہا ہے ۔
ابن مسعود اس عبدالوہاب نجدی کا جانشین تھا جسے سنی مسلمان گمراہ اور بے دین قرار دیتے ہیں ، اسی عبد الوہان نجدی نے اپنے دور عروج میں مزارات اولیائے کرام سے جو بے حرمتی کی تھی وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہے ، اور عراق پر حملہ کر کے جس طرح اس نے بغداد شریف ، کربلائے معلّیٰ ، کاظمین اور نجف اشرف کے مزارات کو صدمہ پہنچایا تھا اس سے بھی تاریخ کے طالب علم نجوبی واقف ہیں ، ابن مسعود نے اپنے مورث کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے بزرگانِ اسلام کے مزاراتِ انور کے ساتھ جو سلوک کیاہے وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے ، بضعتہ الرسول حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا جگر گوشۂ نبی صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم ، حضرت امام حسین ، حضرت امام زین العابدین ، حضرت امام محمد باقر ، حضرت امام جعفر صادق ، حضرت عثمان غنی ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور دوسرے سینکڑوں صحابہ و تابعین و آئمہ کے مزارات کا منہدم کرادیا جانا ، انکی قبروں کے نشانات تک محو کردئے جانا ، ان کی محترم مقدس قبور پر فاتحہ و زیارت کی اجازت نہ دینا اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ اٰلہ وسلم کے مبارک مزار حاضری کی ممانعت کردی جانا ، ایسے امور نہیں ہیںجن کو ہم بھول جائیں تاریخ بھول جائے یا دیوبندی پریس کا پروپگنڈہ دلوں کے اندر پڑے ہوئے داغوں کو محو کر سکے ، اسلامی زادیہ سے ابن مسعود کی یہ خطائیں قابلِ عفو نہیں ہیں ، اور انہیں کی بدولت آج سے تقریباً پچیس (25) سال قبل جمہور علمائے اسلام ابن مسعود کے دعوئے اسلام کی تکذیب کر چکے ہیں ۔
شریعت اسلامیہ کی رو سے ایسا شخص جو قبور و مزارات اولیائے کرام کے ساتھ گستاخی کا مرتکب ہو مسلمان باقی نہیں رہتا ، اور ابن سعود بھی شریعت اسلامی کے اس فتویٰ کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکتا ۔
ابن سعود کی موت پر وہابی پریس جس انداز میں ماتم کناں ہیں ، وہ ہمارے لئے واقعی بڑی دلچسپی کا موجب ہے ، چنانچہ اس سلسلہ میں جمیعتہ علماء کے ترجمان معاصر ’’ جمہوریت ‘‘ بمبئی کی بدخواسیوں کی ایک مثال ناظرین کے سامنے پیش کر دینا ضروری تصور کرتے ہیں ، معاصر جمہوریت کے مدیر محترم مولیٰنا حامد الانصاری غازیؔ ہیں ، جو قار ی محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے داماد اور دیوبندی طبقہ کے ایک بڑے عالم تسلیم کئے جاتے ہیں ، موصوف کے اخبار کی اشاعت مورخہ
11؍نومبر ( جلد 5نمبر 266) میں ابن سعود کی موت کی خبر اس عنوان سے شائع کوئی ہے ۔
’’بیسویں صدی میں اسلامی آئین نافذ کرنے والا واحد حکمران چل بسا ‘‘ محافظ کعبہ دائی سعودی عرب سلطان عبدالعزیز شاہ ابن سعود کا انتقال پرملال۔‘‘
اس عنوان کے بعد خبر دی گئی ہے اس میں ابن سعود کو عاشقِ اسلام شعائر اسلامی کا محافظ ، مجاہد اور نہ معلوم کن کن القاب سے یاد کرتے ہوئے خبر کی پہلی ہی سطر میں یہ اعلان کیا گیاہے کہ ابن سعود ’’ سعودی عرب کے مطلق العنان حکمران ‘‘ تھے ۔
مولانا حامد الانصاری غازیؔ صاحب ہمیشہ اس کے مدعی رہے ہیں کہ اسلام میں قیصرت و کسرائیت کی گنجائش نہیں ہے ، اسلام جمہوریت و شورائیب کا نقیب ہے ، اسلام میں مطلق العنان بادشاہت حرام ہے اور پھر وہ ایک ’’ مطلق العنان بادشاہ ‘‘ کو ’’ اسلامی آئین نافذ کرنے والا ‘‘ قرار دیتے ہیں ، نہ معلوم ان کی کونسی بات صحیح ہے ؟ اگر اسلام میں مطلق العنان بادشاہی کی اجازت نہیں ہے تو پھر ابن سعود و اسلامی آئین کانافذ کرنے والا نہیں ، اسلامی آئین کی خلاف ورزی کرنے والا قرار پاتا ہے اور اگر ابن سعود کی مطلق العنان بادشاہی عین اسلام اور اسلامی آئین ہے تو غازی صاحب کے شورانیت اور جمہوریت کے تمام دعوے بے بنیاد قرار پاتے ہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ابن سعود کا جمہور اسلام کے عقائد سے دور کاواسطہ نہیں تھا ، سنی علماء اس کے خلاف اسلام دشمن کے فتویدے چکے تھے اور اس نے مسلمانوں کے دلوں میں اپنی حرکتوں سے جو ناسور ڈالے ہیں ان اندمال قطعاً محال ہے ۔
ابن سعود کی موت پر دیوبندیوں نے جس طرح ماتم کیاہے ، دیوبندی اخبارات نے جن الفاظ میں اظہار الم کیاہے اور اس کی تعریف میں زمین و آسمان کی جو قلابے ملائے ہیں ان سے ایک حقیقت ضرور واضح ہوگئی اور وہ یہ کہ دیوبندی حضرات کٹر وہابی ہیں ، اور ان کی جانب سے سنیت کا جو جھوٹا دعویٰ کیا جاتا تھا وہ غلط ہے ، اب تک دیوبندی اپنے آپ کو چھپاتے تھے اور اپنے وہابیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کیا کرتے تھے ، لیکن ان کے امام وقت کی موت نے ان کا اصلی روپ ظاہر کر دیا ہے ، ابن سعود
کی موت پر اظہار الم صرف وہابی کرسکتے ہیں ، اور اسے اسلام کا زندہ نمونہ صرف وہابی کرسکتے ہیں ، کوئی صحیح العقیدہ مسلمان اسے اسلام کے نمونہ نہیں کہہ سکتا ، اگر دیوبندی حضرات وہابی نہ ہوتے اور بزم خود سنی ہوتے تو وہ ہرگز اکابر اسلام مزارات کو کھودنے والے کا ماتم نہ کرتے ، ہر گز اسے آئین اسلامی کا علمبردار قرار نہ دیتے ، اور ہرگز اسے اسلام کا زندہ نمونہ قرار دینے کا جسارت نہ کرتے ، اس سے معلوم ہوگیاکہ دیوبندی وہابی اور محض خو ش عقیدہ سنی مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے وہابیت سے انکار کیا کرتے ہیں ۔
وارثی کنتوری
( بشکریہ ، ہفتہ وار ، الوارث، 33ڈمٹمکر روڈ، بمبئی نمبر 8)