اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہو!
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہو!
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ موصلی علیہ ر حمۃاللہ الغنی فرماتے ہیں: ہمارے زمانے میں ایک غمزدہ شخص تھا، جس کو قَضِیْبُ البَان (یعنی بان نامی درخت کی شاخ) کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس کے احترام اور رعب ودبدبے کے باعث کوئی اس سے کلام کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ وہ بہت زیادہ رویا کرتا۔ تقدیر اس شخص کی تنہائی میں مجھے اس کے پاس لے گئی تومیں نے اس سے پوچھا: ”اے میرے محترم! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو اپنی ذات کے سوا ہر چیز سے بے نیاز کر دیا ہے! آپ کے غم اور لوگوں سے
جدا رہنے کا سبب کیاہے؟” اس نے مجھے دیکھا اور بہت زیادہ رویا پھر اس کارنگ متغیر ہو گیا۔ کچھ اضطراب کے بعد اس پر غشی طاری ہو گئی۔ مجھے گما ن ہوا کہ وہ انتقال کرگیا ہے۔ بہرحال جب اسے ہوش آیا تومیں نے باتوں ہی باتوں میں اسے مانوس کرلیا اور اُسے مخاطب کرکے اس کا دل بہلایااور اُسے قسم دے کر اس کی حا لت کے متعلق دریافت کیا تووہ روتے روتے اپنا واقعہ بیان کرنے لگا: ”میں اپنے شیخ کی خدمت کیا کرتا تھا،وہ ابدال میں سے تھا، میں نے چالیس سا ل اس کی خدمت کی، وہ بہت عبادت گزار تھا۔ اُس نے اپنی وفات سے تین دن قبل مجھے بلاکر کہا: ”اے میرے بیٹے ! اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! میراتجھ پر اور تیرا مجھ پر حق ہے۔ اور تجھ پر میرے مکمل حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ تومیری باتیں غور سے سنے اور میری وصیت کو پورا کرے۔” میں نے عرض کی: ”محبت اور عزت سے آپ کی وصیت پوری کروں گا۔” تو اس نے کہا: ”میری عمر کے تین دن باقی ہیں اورمیں کافر مروں گا۔ جب میں مر جاؤں تو مجھے میرے کپڑوں سمیت رات کی تاریکی میں ایک تابوت میں رکھ کر شہر سے باہر فلاں جگہ لے جا نا اورطلوعِ آفتاب تک وہیں ٹھہرے رہنا، جب تو کسی قافلے کو آتے ہوئے دیکھے کہ جن کے پا س بھی ایک تابوت ہوگاوہ اس کو میرے تابوت کے پہلو میں رکھ دیں گے اور میرا تابوت لے جائیں گے، تم وہ دوسراتابوت لے کر واپس آجانا۔ پھراس تابوت کوکھول کر اس میں موجود شخص کو نکالنا اور اس کے سا تھ وہی سلوک کرنا جو تم پرلازم تھا کہ تم میرے ساتھ کرتے (یعنی اس کی تجہیز وتکفین اورتدفین وغیرہ کرنا)۔”یہ سن کر میں رورو کر پوچھنے لگا: ”ایسا معاملہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟” توانہوں نے جواب دیا: ”اے میرے بیٹے!یہ سب کچھ لوحِ محفوظ میں لکھا ہواہے، اور پہلے بھی اور بعد میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کا حکم ہے۔”
(8) لَایُسْـَٔلُ عَمَّا یَفْعَلُ
ترجمۂ کنزالایمان:اس سے نہیں پو چھا جا تا جو وہ کر ے ۔(۱) (پ17،الانبیآء:23)
جب تین دن گزر گئے تو میرا شیخ مضطرب ہوگیا، رنگ متغیر ہو گیا اوراس کا چہرہ سیاہ ہو کرمشرق کی طرف گھوم گیا اور وہ اوندھے منہ گر کر مر گیا۔ میں بہت رویا اور مجھے اتنا غم لاحق ہوا جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر مجھے وصیت یا دآئی تو میں نے ان کوایک تابوت میں رکھا اور جب رات ہوئی تو میں نے تابوت کو اس مقام پر لے جا کر رکھ دیا میرے شیخ نے جس کا نام لیا تھا اور ٹھہرا رہا یہاں تک کہ جب سورج طلوع ہوا تو ایک جماعت گریہ وزاری کرتے ہوئے آئی، ان کے پاس بھی ایک تابوت تھا، انہوں نے اپنا تابوت اِس تابوت کی ایک جا نب رکھ دیا۔ ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور میرے لائے ہوئے تابوت کو اٹھا کر جانے لگاتو میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا: ”جب تک تم مجھے اپنے متعلق کچھ نہ بتاؤ گے میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔” تو اس نے
بتایا: ”میں اس پادری کا چا لیس سا ل سے خا دم رہا ہوں۔ اس نے اپنی موت سے تین دن قبل مجھے بلا کر کہا: ”اے میرے بچے ! میراتجھ پر اور تیرا مجھ پر حق ہے، تجھ پر میرے مکمل حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ جب میں تین دن بعد مر جاؤں تو تم مجھے ایک تابوت میں رکھ دینا اور اُٹھا کر فلا ں جگہ رکھ دینا اور اِس جگہ کا ذکر کیا اور کہاکہ اگر تو وہا ں رکھا ہوا کوئی دوسراتابوت پائے تو میرے تابوت کو اس کی جگہ رکھ دینا اور اس کو اٹھا کر گرجے میں لے جا نا اور میرے ساتھ جو معا ملہ کرنا تجھ پر وا جب ہے وہی اس کے ساتھ کرنا (یعنی عیسائیوں کے طریقے پر دفن کرنا)۔” جب تین دن گزر گئے تو اُن کا چہرہ خوشی سے کھِل اُٹھا، کلمہ شہا دت پڑھا اور مسلمان ہو کرانتقال کر گئے۔ پھر میں نے ان کے حکم کے مطابق عمل کیا اور اُن کو یہا ں لے آیا۔”
(وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ) جو تابوت وہ لوگ لے کر آئے تھے میں نے اُسے اُٹھایااور گھر کے ایک کونے میں رکھ کر کھولا تودیکھاکہ اس میں ایک ایسے بزرگ تھے، جن کے چہرے پر انوار کی بارش برس رہی تھی ، ان کے سارے بال سفیدتھے۔ میں نے ان کو تابوت سے نکالا،اُن کے کپڑے اُتارے اور پھر فقراء کے ساتھ مل کر ان کو غسل دیا، ہم نے ان پر نما زِجنا زہ پڑھی اور ایک کونے میں دفن کر دیا۔ وہ دن گواہ ہے کہ میں جب بھی باہر نکلتا ہوں تو میرے چہرے پربرے خاتمے کے خوف سے غم کے بادل برسنے لگتے ہیں۔ میرا لوگوں سے جدا رہنے کا سبب یہی ہے۔”
1۔۔۔۔۔۔مفسِّر شہیر، خلیفۂ اعلیٰحضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ” کیونکہ وہ مالکِ حقیقی ہے جو چاہے کرے، جسے چاہے عزّت دے، جسے چاہے ذلّت دے، جسے چاہے سعادت دے، جسے چاہے شقی کرے۔ وہ سب کا حاکم ہے، کوئی اس کا حاکم نہیں جو اس سے پُوچھ سکے۔”