اولیاء کرام رضی اللہ عنہم کے اوصاف
اولیاء کرام رضی اللہ عنہم کے اوصاف
حمد ِباری تعالیٰ:
تمام خوبیاں اللہ عزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے اپنی مخلوق میں سے اولیا ء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کو پسند فرمایا اوران کو بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا جنہوں نے اس سے کئے ہوئے عہد کو پورا کیا تو اس نے ان کا تذکرہ پوری کائنات میں پھیلا دیا،زمانے کوان کی برکت سے زینت عطا فرمائی، ان کے عرفان کی مہک سے تمام عالم کو معطّر فرما دیا، انہیں اپنا قرب عطا فرما کر ان کامطالبہ پورا کر دیا، اُن کی محبت کو اُن کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے والا بنا دیا، انہوں نے اللہ عزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنے سر جھکا دئیے اوراپنی خواہشات کی قربانی دے دی تو اس نے بھی انہیں اجر وثواب کے خزانے عطا فرمادئیے،انہوں نے اپنے محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے بخوشی تکالیف برداشت کیں اور کڑوی چیز کو میٹھا سمجھا، رب عَزَّوَجَلَّ کی تلاش میں دیوانوں کی طرح گھومتے رہے اور اس کو پانے میں اپنی جان تک قربان کر دی اور محبت کی بیڑیوں میں اسیر ہوگئے ، اُن کو خزانے پیش کئے گئے مگر انہوں نے ٹھکرا دئیے، دُنیا ان پر فدا ہونے کی کوشش کرتی رہی لیکن انہوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی، انہوں نے فقروفاقہ اختیار کیا۔ اللہ عزَّوَجَلَّ نے انہیں آزمائش میں مبتلا فرمایا تو انہوں نے ان احسانات پر شکر ادا کیا اورصبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا۔ شیطان نے ان پر اپنے مکروفریب کا جال ڈالنے کی کوشش کی لیکن اس کا ان پر کوئی بس نہ چل سکا اوروہ انہیں دھوکادینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ صرف اللہ عزَّوَجَلَّ کے محتاج ہیں اوراس کی عطا سے غنی ہو گئے جنہیں غیرِ خدا سے مستغنی کر دیا گیا اورسحری کے وقت ان کے لئے پردے اٹھا دئیے گئے۔
اللہ عزَّوَجَلَّ والو ں کے اعمال :
حضرت سیِّدُناابواشہل سائح رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”میں نے مکہ مکرّمہ زادھا اللہ تعالٰی شرفًا وتکریمًاسے چند میل کے فاصلے پر ایک نوجوان کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، وہ قافلہ سے بِچھڑ گیا تھا۔ میں اس کے نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگالیکن اس کی نماز طویل ہو گئی۔جب اس نے سلام پھیرا تو میں نے اسے السَّلَامُ عَلَیْکَ کہا۔اس نے وعَلَیْکَ السَّلَامُ کہتے ہوئے سلام کا جواب دیا۔ میں نے اس سے پوچھا:”معلوم ہوتاہے کہ آپ اپنے ہم سفروں سے پیچھے رہ گئے ہیں، کیا آپ کا کوئی رفیق ہے جو آپ کو ان سے ملانے میں مدد کرے ؟”تو وہ رودیا اور کہنے لگا:” ہاں ہے۔” میں نے پوچھا:” کہاں ہے؟”تو اس نے جواب دیا:”وہ میرے آگے پیچھے اور دائیں بائیں موجود ہے۔” آپ فرماتے ہیں کہ میں نے پہچان لیاکہ یہ
عارف ہے۔” پھر میں نے اس سے پوچھا: ”کیا آپ کے پاس کوئی توشہ ہے؟” تو اس نے جواب دیا: ”ہاں ہے۔” میں نے پوچھا: ”کہاں ہے؟ ” تو اس نے جواب دیا: ”میرے دل میں میرے مالکِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کے لئے اخلاص ہے ۔” میں نے کہا: ”کیا میں آپ کا رفیق بن سکتاہوں ؟ ”تواس نے کہا :”رفیق اللہ عزَّوَجَلَّ سے غافل کردیتا ہے اور میں کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو مجھے ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ عزَّوَجَلَّ کی یادسے غافل کرے۔” پھر میں نے اس سے پوچھا: ”آپ کہاں سے کھاتے ہیں ؟” تو اس نے جواب دیا:”وہ خدا جس نے مجھے ماں کے پیٹ کی تاریکی میں اوربچپن میں غذادی وہی جوانی میں میرے رزق کا کفیل ہے، جب مجھے کھانے پینے کی حاجت ہو تی ہے تو کھانا میرے سامنے حاضر ہو جاتا ہے۔”میں نے عرض کی: ”کیا آپ کو کسی قسم کی حاجت ہے؟” تو اس نے جواب میں کہا:” میری حاجت یہ ہے کہ آج کے بعد آپ مجھے سلام نہ کریں۔” میں نے عرض کی: ”میرے لئے دعا فرمائیں۔”تووہ مجھے دعا دینے لگاکہ” اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو ہر گناہ سے محفوظ فرمائے اور اپنا قرب بخشنے والے اعمال میں مشغول فرمادے۔” پھر میں نے اس سے پوچھا:” آج کے بعد کہا ں ملاقات ہو گی ؟ ” جواب ملا:”آج کے بعد ہماری ملاقات نہیں ہو گی، اگر آپ مقرَّبین میں سے ہیں تو مجھے کل بروزِ قیامت مقرَّبین کے مراتب میں تلاش کرنا۔”پھر وہ غائب ہو گیا اور اس کے بعد میں نے اسے نہیں دیکھا، اس کے اچانک نظروں سے اوجھل ہوجانے پر میں عرصۂ دراز تک افسوس کرتا رہا۔”