اَسیروں کے مشکل کشا غوثِ اعظم
اَسیروں کے مشکل کشا غوثِ اعظم
فقیروں کے حاجت رَوا غوثِ اعظم
گھرا ہے بلاؤں میں بندہ تمہارا
مدد کے لئے آؤ یاغوثِ اعظم
تِرے ہاتھ میں ہاتھ میں نے دیا ہے
تِرے ہاتھ ہے لاج یاغوثِ اعظم
مریدوں کو خطرہ نہیں بحر غم سے
کہ بیڑے کے ہیں ناخدا غوثِ اعظم
تمہیں دکھ سنو اپنے آفت زَدوں کا
تمہیں دَرد کی دو دَوا غوثِ اعظم
بھنور میں پھنسا ہے ہمارا سفینہ
بچا غوثِ اعظم بچا غوثِ اعظم
جو دکھ بھر رہا ہوں جو غم سہ رہا ہوں
کہوں کس سے تیرے سوا غوثِ اعظم
زمانے کے دُکھ دَرد کی رَنج و غم کی
تِرے ہاتھ میں ہے دَوا غوثِ اعظم
اگر سلطنت کی ہوس ہے فقیرو
کہو شَیْئَا لِّلّٰہ یاغوثِ اعظم
نکالا ہے پہلے تو ڈُوبے ہوؤں کو
اور اب ڈُوبتوں کو بچا غوثِ اعظم
جسے خلق کہتی ہے پیارا خدا کا
اسی کا ہے تو لاڈلا غوثِ اعظم
کیا غور جب گیارہویں بارہویں میں
معما یہ ہم پر کھلا غوثِ اعظم
تمہیں وَصل بے فصل ہے شاہِ دیں سے
دیا حق نے یہ مرتبہ غوثِ اعظم
پھنسا ہے تباہی میں بیڑا ہمارا
سہارا لگا دو ذرا غوثِ اعظم
مشائخ جہاں آئیں بہر گدائی
وہ ہے تیری دولت سرا غوثِ اعظم
مری مشکلوں کو بھی آسان کیجے
کہ ہیں آپ مشکل کشا غوثِ اعظم
وہاں سر جھکاتے ہیں سب اُونچے اُونچے
جہاں ہے ترا نقش پا غوثِ اعظم
قسم ہے کہ مشکل کو مشکل نہ پایا
کہا ہم نے جس وقت یاغوثِ اعظم
مجھے پھیر میں نفسِ کافر نے ڈالا
بتا جائیے راستا غوثِ اعظم
کھلا دے جو مرجھائی کلیاں دِلوں کی
چلا کوئی ایسی ہوا غوثِ اعظم
مجھے اپنی اُلفت میں ایسا گما دے
نہ پاؤں پھر اپنا پتا غوثِ اعظم
بچا لے غلاموں کو مجبوریوں سے
کہ تو عبدِ قادِر ہے یاغوثِ اعظم
دکھا دے ذرا مہر رُخ کی تجلی
کہ چھائی ہے غم کی گھٹا غوثِ اعظم
گرانے لگی ہے مجھے لغزشِ پا
سنبھالو ضعیفوں کو یاغوثِ اعظم
لپٹ جائیں دامن سے اُس کے ہزاروں
پکڑ لے جو دامن ترا غوثِ اعظم
سروں پر جسے لیتے ہیں تاج والے
تمہارا قدم ہے وہ یاغوثِ اعظم
دوائے نگاہے عطائے سخائے
کہ ُشد دردِ مَا لادوا غوثِ اعظم
ز ہر رُو ہر راہ رَوِیم بگرداں
سوئے خویش راہم نما غوثِ اعظم
اسیرِ کمندِ ہوایم کریما
بہ بخشائے بر حالِ ما غوثِ اعظم
فقیر تو چشم کرم از تو دارد
نگاہے بحالِ گدا غوثِ اعظم
گدایم مگر اَز گدایانِ شاہے
کہ گویندش اَہلِ صفا غوثِ اعظم
کمر بست بَر خونِ َمن نفسِ قاتل
اَغِثْنِیْ برائے خدا غوثِ اعظم
اَدھر میں پیا موری ڈولت ہے نیّا
کہوں کا سے اپنی بتھا غوثِ اعظم
بپت میں کٹی موری سگری عمریا
کرو مو پہ اپنی دَیا غوثِ اعظم
بھیو دو جو بیکنٹھ بگداد تو سے
کہو موری نگری بھی آ غوثِ اعظم
کہے کس سے جا کر حسنؔ اپنے دل کی
سنے کون تیرے سوا غوثِ اعظم