بخطِّ نور اس دَر پر لکھا ہے یہ بابِ رحمتِ رَبِّ عُلا ہے
بخطِّ نور اس دَر پر لکھا ہے
یہ بابِ رحمتِ رَبِّ عُلا ہے
سرِ خیرہ جو اب دَر پر جھکا ہے
ادا ہے عمر بھر کی جو قضا ہے
مقابل دَر کے یوں کعبہ بنا ہے
یہ قبلہ ہے تو ُتو قبلہ نما ہے
درِ والا پہ اِک میلا لگا ہے
عجب اس دَر کے ٹکڑوں میں مزا ہے
یہاں سے کب کوئی خالی پھرا ہے
سخی داتا کی یہ دولت َسرا ہے
گدا تو ہے گدا جو بادشا ہے
اسے بھی تو اسی دَر سے ملا ہے
جسے جو کچھ ملا جس سے ملا ہے
حقیقت میں وہ اس دَر کی عطا ہے
اسی سرکار کا منگتا ہے عالم
گدا اس دَر کا ہر شاہ و گدا ہے
یہاں سے بھیک پاتے ہیں سلاطیں
اسی دَر سے انہیں ٹکڑا ملا ہے
اسی دَر سے پلے گا پل رہا ہے
اسی گھر سے زمانہ پل چکا ہے
شب معراج سے ظاہر ہوا ہے
رُسل ہیں مقتدی تو مقتدا ہے
خدائی کو خدا نے جو دیا ہے
اسی گھر سے اسی دَر سے ملا ہے
خدائے پاک تو گھر دَر سے ہے پاک
مگر یہ دَر درِ پاکِ خدا ہے
یہاں وہ باخدا ہے جلوہ فرما
جو کشتی کا جہاں کی ناخدا ہے
شہِ عرش آستاں اللّٰہ اللّٰہ
تصوّر سے خدا یاد آرہا ہے
یہ وہ محبوبِ حق ہے جس کی رُویت
یقیں مانو کہ دیدارِ خدا ہے
یَدُ اللّٰہ جس کا د ستِ پاک ٹھہرا
وہ بیعت جس کی بیعت باخدا ہے
رَمی جس کی رَمی ٹھہری خدا کی
کتاب اللّٰہ میں اَللّٰہ رَمٰی ہے
قسم قرآں میں جس کی رہ گزر کی
خدا نے یاد کی کیا مرتبہ ہے
وہی مطلوب جس کا ہر ہر اَنداز
وہی محبوب جس کی ہر ادا ہے
ہوا سے پاک جس کی ذاتِ قدسی
وہ جس کی بات بھی وَحیِ خدا ہے
نہیں کہتے ہوائے نفس سے کچھ
جو فرمائیں وہی وَحیِ خدا ہے
چمک سے جن کی روشن ہیں دو عالم
مہک سے جس کی ہر بستاں بسا ہے
وہ جلوہ جس سے حق ہے آشکارا
وہ صورت جو جمالِ حق نما ہے
وہ یکتا آئینہ ذاتِ اَحد کا
وہ مرآتِ صفاتِ کبریا ہے
وہ پیارا جس پہ رب ہے ایسا پیارا
کہ اس کے پیارے پر پیارا خدا ہے
وہ جس کا شہر بھی ہے ایسا پیارا
جہاں کی رات دن سے بھی سوا ہے
جہاں ہے بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ
جہاں شاہ و گدا سب کا ٹھیا ہے
دوا دُکھ دَرد کی ہے خاک جس کی
مَعاصی کا جہاں دارُالشفا ہے
کرم فرمائیے اے سروَرِ دِیں
جہاں منگتوں کی پیہم یہ صدا ہے
خزانے اپنے دے کے تم کو حق نے
نہ قاسم ہی کہ مالک کردیا ہے
جسے جو چاہو جتنا چاہو دو تم
تمہیں مختارِ ُکل فرما دیا ہے
دو عالم بھیک لیتے ہیں یہاں سے
جو جس کے پاس ہے تیرا دیا ہے
نہ مانگیں تم سے ہم تو کس سے مانگیں
ہیں سب دَر بند بس یہ دَر ُکھلا ہے
میں دَر دَر کیوں پھروں دُردُر سنوں کیوں
مرے سروَر مرا کیا سر پھرا ہے
عطا فرماتے ہو بے مانگے سب کچھ
یہ منگتا تم سے تم کو مانگتا ہے
تمہارا ملنا ملنا ہے خدا کا
خدا مل جائے تو پھر کیا رہا ہے
عطا فرمائیے اپنے کرم سے
مرے مولیٰ جو دل کا مُدَّعا ہے
یہی سرکارِ فیض آثار ہے وہ
جہاں سے فیض کا دریا بہا ہے
یہیں سے پاتے ہیں سب اپنے مطلب
ہر اِک کے واسطے یہ در ُکھلا ہے
بہ ہر لحظہ بہ ہر ساعت بہ ہر دم
دَرِ سرکارِ فیض آثار وا ہے
نہیں تقسیم میں تفریق کچھ بھی
کہ دشمن بھی یہیں کا کہہ رہا ہے
یہ وہ در ہے ہوا ہے وہ بھی حاضر
جو اس سرکار کا دشمن چھپا ہے
سلامِ رُوستائی بے غرض نیست
وہ کیا تعظیم کو حاضر ہوا ہے
عقیدے میں تو اس کے شرک ہے یہ
دِکھانے کو تَقِیَّہ کرلیا ہے
جلا اِیمان سے ہوتی ہے دل پر
وہ اَندھا شیشہ ہے جو بے جلا ہے
نہیں شیشہ نہیں وہ دل تو جس پر
خدا نے ختم فرما دی توا ہے
نہ ٹھہرے مَطرِ حق کی بوند جس پر
لہابی کیا ہے اِک چکنا گھڑا ہے
بہت بد فرقے پیدا ہوچکے ہیں
سبھی نے اِک نیا مذہب گڑھا ہے
جو مذہب اَہلِ سنت کے علاوہ
بنا ہے وہ جہنم کا گڑھا ہے
جماعت پر یدِ رحمت ہے حق کا
جدا فرقہ جہنم میں گرا ہے
ہے ان میں ایک فرقہ سب سے بدتر
جسے شرک اَز اُمورِ عامَّہ ہے
نہیں جس سے کوئی موجود خالی
کوئی بھی اس کی زَد سے بچ سکا ہے
ہر اک اس شرک سے ٹھہرا جو ُمشرک
جو ہے یا ہوگا یا آگے ہوا ہے
صحابہ خود نبی بلکہ خود اللّٰہ
سبھی پر حکم شرک اس نے جڑا ہے
جسے بدعت کی لت اتنی پڑی ہے
کہ سنت کو بھی بدعت بولتا ہے
مئے بدعت سے ہے سرشار ایسا
کہ سب کچھ اس کو بدعت سوجھتا ہے
تھی اتنی تند مئے جس کے نشے میں
کہ خود اپنے ہی کو بھولا ہوا ہے
یہ خود ہے بدعتی مشرک یقینا
مگر ُسنی کو بدعی جانتا ہے
ہیں اس کے شرک و بدعت اہلے گہلے
سراپا جن میں خود ڈوبا ہوا ہے
یہ ایسا اس کا حکمِ شرک و بدعت
اسے ساوَن کے اندھے کا ہرا ہے
ہے سنی آئینہ اس نے جو دیکھا
نظر اپنا ہی چہرہ آگیا ہے
اسے مَنِ ا بْتَدَعَ تو رہ گیا یاد
مگر مَنْ سَنَّ یہ بھولا ہوا ہے
خود اپنے فتوؤں سے ہے آپ مشرک
نہ بس مشرک ہی یہ مشرک جنا ہے
نہیں ہے باپ ہی مشرک کہ جد بھی
اور اس کا جد جہاں تک سلسلہ ہے
کھلی تَنْقِیصیں محبوبانِ حق کی
یہ فرقہ برمَلا کرتا رہا ہے
کھلی توہین کی ہے خود خدا کی
کہ اس کو کذب پر قادِر کہا ہے
نہ ممکن ہی کہا بلکہ یہاں تک
بڑھا ہے یہ کہ واقع کہہ گیا ہے
نہ بس اِک کذب پر ہی اس نے بس کی
کہ جہل و ظلم و َسرقہ بھی کہا ہے
تمہیں حق نے دئے ہیں وہ فضائل
کہ شرکت ان میں ہونا نارَوا ہے
مماثل ہو نہیں سکتا تمہارا
تمہیں وہ فضلِ ُکل رب نے دیا ہے
تمہاری بے مثالی اس سے ظاہر
کہ محبوبِ خدا تم کو کیا ہے
محب کیا چاہتا ہے مثلِ محبوب
محب تو بے مثالی چاہتا ہے
مگر یہ فرقہ محبوبِ خدا کے
کروروں مثل ممکن مانتا ہے
نہ ممکن ہی کہ چھ مثل واقع
کہا کرتا کتب میں چھاپتا ہے
یونہی ختم نبوت کا ہے مانع
شفاعت سے بھی منکر ہوگیا ہے
مسلمانوں کے ڈر سے لفظ مانے
مگر معنٰے کا مانع برملا ہے
جو معنی ان کے ہیں ماثور اب تک
صراحت سے انہیں رَد کررہا ہے
کہاں تک ظلم میں اس کے گناؤں
کہاں تک میں گنوں کیا کیا بکا ہے
نفی جس علم کی سرکار سے کی
اسی کو نص سے شیطاں کردیا ہے
محیطِ اَرض کا شیطان کو جب
یہ نص سے علم ثابت مانتا ہے
شریک اِبلیس کو کرتا ہے حق کا
کہ شیطاں ہی کو یہ حق جانتا ہے
وہ کچھ مانے بہر صورت وہ خود ہی
بڑا مشرک بحکمِ خود بنا ہے
مَجانین و صبی حیواں بہائم
یہ ان سب کے لیے بھی مانتا ہے
نبی غیرِ نبی میں فرق پوچھا
بتاؤ اِن میں اُن میں فرق کیا ہے
اُنہیں جیسا بتایا علمِ اَقدس
کہا ہے بعض میں تخصیص کیا ہے
نفی شہ سے بوجہ شرک کی بھی
مگر پھر بھی اسی میں مبتلا ہے
جو قسمت میں لکھا تھا کیوں نہ ہوتا
کہیں تقدیر کا لکھا مٹا ہے
کریں لاکھوں جتن ہوتا ہے وہ ہی
وہی ہوگا جو قسمت میں بدا ہے
خیالِ خر میں اِستغراق سے بد
جو تعظیم نبی کو جانتا ہے
اگر اس کو کوئی اتنا کہے گا
کہ وہ انساں نہیں خاصا گدھا ہے
بکھر جائیں گے اس پر کیسا کیسا
جنہیں تہذیبِ نو کا اِدَّعا ہے
بیانِ عیبِ دُشمن نعت ہی ہے
کہ قرآں میں بھی تو تَبَّتْ یَدَا ہے
ضیائے کعبہ سے روشن ہیں آنکھیں
منوّر قلب کیسا ہوگیا ہے
ہماری حاضری نُوْرٌ عَلٰی نُوْر
کہ بعدِ حج ہمیں حاضر کیا ہے
ضیائے روضہ کا عالم کہوں کیا
کہ وہ تو نورِ کعبہ سے سوا ہے
یہاں محبوبِ رب ہے جلوہ آرا
وہاں بس اِک تجلی کی ضیا ہے
ہے یہ تو وصل سے سرسبز دل شاد
وہ نارِ ِہجر سے دل سوختا ہے
مہ و خور بھیک پاتے ہیں یہاں سے
ضیائے روضہ کا کہنا ہی کیا ہے
فضائے طیبہ کے قربان جاؤں
نسیمِ خلد سی جس کی ہوا ہے
خفیف و خوش مزا بے مثل پانی
کہیں دنیا میں ایسا کب پیا ہے
زمینِ پاک وہ جس کو خدا نے
کتاب اللّٰہ میں اَرْضُ اللّٰہ کہا ہے
ہمیں تو طیبہ ہے جنت سے بڑھ کر
جہاں محبوبِ حق جلوہ نما ہے
قدم ہم جیسوں کے اس سرزمیں پر
کرم سرکار کا ہے اور کیا ہے
وطن کی ہر سہانی صبح نوریؔ
یہاں کی شامِ غربت پر فدا ہے