بہارِ جاںفزا تم ہو نسیم داستاں تم ہو بہارِ باغِ رِضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
بہارِ جاںفزا تم ہو نسیم داستاں تم ہو
بہارِ باغِ رِضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
حبیبِ رَبِّ رحمٰں تم مکینِ لامکاں تم ہو
سرِ ہر دو جہاں تم ہو شہِ شاہنشہاں تم ہو
حقیقت آپ کی مستور ہے یوں تو نہاں تم ہو
نمایاں ذَرّے ذَرّے سے ہیں جلوے یوں عیاں تم ہو
حقیقت سے تمہاری جز خدا اور کون واقف ہے
کہے تو کیا کہے کوئی چنیں تم ہو چناں تم ہو
خدا کی سلطنت کا دو جہاں میں کون دولہا ہے
تم ہی تم ہو تم ہی تم ہو یہاں تم ہو وہاں تم ہو
تمہارا نور ہی ساری ہے ا ن ساری بہاروں میں
بہاروں میں نہاں تم ہو بہاروں سے عیاں تم ہو
زمین و آسماں کی سب بہاریں آپ کا صدقہ
بہارِ بے خزاں تم ہو بہارِ جاوِداں تم ہو
تمہارے حسن و رنگ و بو کی گل بوٹے حکایت ہیں
بہارِ گلستاں تم ہو بہارِ بوستاں تم ہو
تمہاری تابشِ رُخ ہی سے روشن ذَرَّہ ذَرَّہہے
مَہ و خورشید و اَنجم برق میں جلوہ کناں تم ہو
نظر عارِف کو ہر عالم میں آیا آپ کا عالم
نہ ہوتے تم تو کیا ہوتا بہارِ ہر جہاں تم ہو
تمہارے جلوۂ رنگیں ہی کی ساری بہاریں ہیں
بہاروں سے عیاں تم ہو بہاروں میں نِہاں تم ہو
مجسم رحمتِ حق ہو کہ اپنا غم نہ اَندیشہ
مگر ہم سے سیہ کاروں کی خاطر یوں رَواں تم ہو
کجا ہم خاک اُفتادہ ُکجا تم اے شہ بالا
اگر مثل زمیں ہم ہیں تو مثل آسماں تم ہو
یہ کیا میں نے کہا مثل سما تم ہو مَعَاذَ اللّٰہ
مُنَزَّہ مثل سے برتر زِ ہر وہم و گماں تم ہو
میں بھولا آپ کی رِفعت سے نسبت ہی ہمیں کیا ہے
وہ کہنے بھر کی نسبت تھی کہاں ہم ہیں کہاں تم ہو
چہ نسبت خاک را با عالمِ پاکت کہ اے مولیٰ
گدائے بے نوا ہم ہیں شہِ عرش آستاں تم ہو
میں بیکس ہوں میں بے بس ہوں مگر کس کا تمہارا ہوں
َ تہِ دامن مجھے لے لو پناہِ بے کساں تم ہو
حقیقت میں نہ بیکس ہوں نہ بے بس ہوں نہ ناطاقت
میں صدقے جاؤں مجھ کمزور کے تاب و تواں تم ہو
ہمیں اُمید ہے روزِ قیامت اُن کی رحمت سے
کہ فرمائیں اِدھر آؤ نہ مایوس اَز جناں تم ہو
ستم کارو خطا کارو ِسیہ کارو جفا کارو
ہمارے دامنِ رحمت میں آجاؤ کہاں تم ہو
ستم کارو چلے آؤ چلے آؤ چلے آؤ
ہمارے ہو ہمارے ہو اگرچہ اَز بداں تم ہو
تمہارے ہوتے ساتے دَرد دُکھ کس سے کہوں پیارے
شفیعِ عاصیاں تم ہو وکیلِ ُمجرِماں تم ہو
مسیحِ پاک کے قرباں مگر جانِ دل و اِیماں
ہمارے دَرد کے دَرماں طبیبِ اِنس و جاں تم ہو
دکھائے لاکھ آنکھیں مہرِ محشر کچھ نہیں پروا
خدا رکھے تمہیں تم ہو مرے اَمن و اَماں تم ہو
رِیاضت کے یہی دن ہیں بڑھاپے میں کہاں ہمت
جو کچھ کرنا ہو اب کرلو ابھی نوریؔ جواں تم ہو
فقط نسبت کا جیسا ہوں حقیقی نوری ہوجاؤں
مجھے جو دیکھے کہہ اُٹھے میاں نوری میاں تم ہو
ثنا منظور ہے ان کی نہیں یہ مُدّعا نوریؔ
سخن سنج و سخنور ہو سخن کے نکتہ داں تم ہو