تجلیٔ نورِ ِقدَم غوثِ اعظم ضیائے سراج الظلم غوثِ اعظم
تجلیٔ نورِ ِقدَم غوثِ اعظم
ضیائے سراج الظلم غوثِ اعظم
ترا حل ہے تیرا حرم غوثِ اعظم
عرب تیرا تیرا عجم غوثِ اعظم
کرم آپ کا ہے اَعم غوثِ اعظم
عنایت تمہاری اَتم غوثِ اعظم
مخالف ہوں گو سو پدم غوثِ اعظم
ہمیں کچھ نہیں اس کا غم غوثِ اعظم
چلا ایسی تیغِ دودَم غوثِ اعظم
کہ اَعدا کے سر ہوں قلم غوثِ اعظم
وہ اک وار کا بھی نہ ہوگا تمہارے
کہاں ہے مخالف میں دم غوثِ اعظم
ترے ہوتے ہم پر ستم ڈھائیں دشمن
ستم ہے ستم ہے ستم غوثِ اعظم
کہاں تک سنیں ہم مخالف کے طعنے
کہاں تک سہیں ہم ستم غوثِ اعظم
بڑھے حوصلے دشمنوں کے گھٹا دے
ذرا لے لے تیغ دو دم غوثِ اعظم
نہیں لاتا خاطر میں شاہوں کو شاہا
ترا بندۂ بے دِرَم غوثِ اعظم
کرم چاہیے تیرا تیرے خدا کا
کرم غوثِ اعظم کرم غوثِ اعظم
گھٹا حوصلہ غم کی کالی گھٹا کا
بڑھی ہے گھٹا دم بدم غوثِ اعظم
بڑھا ناخدا سر سے پانی اَلم کا
خبر لیجئے ڈوبے ہم غوثِ اعظم
کرو پانی غم کو بہا دو اَلم کو
گھٹائیں بڑھیں ہو کرم غوثِ اعظم
نظر آئے مجھ کو نہ صورت اَلم کی
نہ دیکھوں کبھی رُوئے غم غوثِ اعظم
بڑھا ہاتھ کر دستگیری ہماری
بڑھا اَبرِ غم دَم بدم غوثِ اعظم
خدارا ذرا ہاتھ سینے پہ رکھ دو
ابھی مٹتے ہیں غم اَلم غوثِ اعظم
خدا نے تمہیں محو و اِثبات بخشا
ہو سلطانِ لوح و قلم غوثِ اعظم
ہے قسمت میری ٹیڑھی تم سیدھی کردو
نکل جائیں سب پیچ و خم غوثِ اعظم
خبر لو ہماری کہ ہم ہیں تمہارے
کرو ہم پہ فضل و کرم غوثِ اعظم
تم ایسے غریبوں کے فریاد رَس ہو
کہ ٹھہرا تمہارا علم غوثِ اعظم
َبعینِ عنایت بچشمِ کرامت
ِبدِہ جرعۂ ناچشم غوثِ اعظم
ترا ایک قطرہ عوالم نما ہے
نہیں چاہیے جامِ جم غوثِ اعظم
کچھ ایسا گما دے محبت میں اپنی
کہ خود کہہ اُٹھوں میں منم غوثِ اعظم
جسے چاہے جو دے جسے چاہے نہ دے
ترے ہاتھ میں ہے نِعَم غوثِ اعظم
ترا حسن نمکیں بھرے زخم دل کے
ِبنہ مرہمے بَر دَِلم غوثِ اعظم
ترقی کرے روز و شب دَردِ اُلفت
نہ ہو قلب کا دَرد کم غوثِ اعظم
خدا رکھے تم کو ہمارے سروں پر
ہے بس اِک تمہارا ہی دَم غوثِ اعظم
دمِ نزع سرہانے آجاؤ پیارے
تمہیں دیکھ کر نکلے دَم غوثِ اعظم
تری دِید کے شوق میں جانِ جاناں
کھنچ آیا ہے آنکھوں میں دم غوثِ اعظم
کوئی دَم کے مہماں ہیں آجاؤ اس دَم
کہ سینے میں اَٹکا ہے دم غوثِ اعظم
دمِ نزع آؤ کہ دم آئے دم میں
کرو ہم پہ یٰس دم غوثِ اعظم
یہ دل یہ جگر ہے یہ آنکھیں یہ سر ہے
جہاں چاہو رکھو قدم غوثِ اعظم
سرِ ُخود َبہ شمشیرِ اَبرو فروشم
بَمِژگانِ تو سینہ اَم غوثِ اعظم
َبہ پیکانِ تِیرت جگر ِمی فروشم
َبہ تیرِ نگا َہت دَِلم غوثِ اعظم
دِماغم رَسد بَر سرِ عرشِ اعلیٰ
َ َبپایت اگر سر نہم غوثِ اعظم
مری سر بلندی یہیں سے ہے ظاہر
کہ ُشد زیرِ پا َیت سَرَم غوثِ اعظم
لگا لو مرے سر کو قدموں سے اپنے
تمہیں سِرِّ حق کی قسم غوثِ اعظم
قدم کیوں لیا اَولیا نے سروں پر
تمہیں جانو اس کے حکم غوثِ اعظم
کیا فیصلہ حق و باطل میں تم نے
کیا حق نے تم کو حکم غوثِ اعظم
تمہاری مہک سے گلی کوچے مہکے
ہے بغداد رَشکِ اِرَم غوثِ اعظم
کرم سے کیا رَہ نما رَہزنوں کو
ادھر بھی نگاہِ کرم غوثِ اعظم
مرا نفسِ سرکش بھی رَہزن ہے میرا
یہ دیتا ہے دَم دَم بدم غوثِ اعظم
دِکھا دے تو اِنِّیْ عَزُوْمٌ کے جلوے
سنادے صدائے منم غوثِ اعظم
مرے دم کو اس کے دموں سے بچادے
کرم کر کرم کر کرم غوثِ اعظم
میں ہوں ناتواں سخت کمزور حد کا
ہیں زوروں چڑھے اس کے دم غوثِ اعظم
نہ پلہ ہو ہلکا ہمارا نہ ہم ہوں
نہ بگڑے ہمارا بھرم غوثِ اعظم
کہاں تک ہماری خطائیں گنیں گے
کریں عفو سب یک قلم غوثِ اعظم
ہماری خطاؤں سے دَفتر بھرے ہیں
کرم کر کہ ہوں کالعدم غوثِ اعظم
تمہارے کرم کا ہے نوریؔ بھی پیاسا
ملے یم سے اس کو بھی نم غوثِ اعظم