Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
waqiyat

تذکرۂ معروف کَرْخِی علیہ رحمۃاللہ الغنی

تذکرۂ معروف کَرْخِی علیہ رحمۃاللہ الغنی
حمد ِ باری تعالیٰ:

سب خوبیاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے جو رء ُوف ،رحیم ،کریم اور انتہائی مہربان ہے۔بھلائی کے بدلے بھلائی(یعنی جنت ) عطافرمانے والا ۔وہ ایساواحدویکتا ہے کہ وحدت اس پراثراندازنہیں ہوتی اورنہ ہی بندوں سے انتہائی محبت پرفخرہے ۔وہ اپنی بادشاہت میں وزیر ، مشیراور قریبی سے بے نیازہے۔ ستاروں سے اوپراورزمین کی سرحدوں سے آگے جوکچھ ہے اسی کے علم میں ہے۔ پردۂ غیب اس پرکھلاہواہے ۔اس نے اپنی شان کے لائق عرش پر استواء فرمایا جو حرکت ،جلوس اورٹھہرنے سے پاک ہے ۔ مَیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد کرتا ہوں کہ اس نے خوفناک چیزوں کودورفرمادیا ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،ایسی گواہی جیسی حضورنبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے سچائی کی انتہاکوپہنچی ہوئی اپنی مبارک زبان سے دی۔کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی زبانِ اطہرکو غیرِ حق اوربے جا کی طرف جانے سے روک دیا۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک ہمارے سردار حضرت سیِّدُنا محمدمصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے اور رسول ہیں جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے معزز لوگوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے ۔ اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اس جنت کی خوشخبری دی جس کے( پھلوں کے)خوشے جھکے ہوئے ہیں اور اس آگ سے ڈرایا جو سخت بھڑکتی اور شعلے مارتی ہے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اُون کا لباس پہنااورپیوند لگے نعلین مبارک استعمال فرمائے ۔حالانکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم ،اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بلند و بالا مرتبے پرفائزاورتمام خوبیوں سے موصوف ہیں ۔ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اس نبئ کریم ، ہمارے سردار حضرت محمدمصطفی،احمدمجتبیٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم پر رحمت نازل فرما اور ان کے آل و اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر جو سردارانِ زمانہ ہیں۔اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم پر اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے آل و اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر سلامتی بھیج جب تک باجماعت نمازوں میں قطاردرقطار صفیں قائم ہوتی رہیں۔

ابتدائی حالات:

آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا نامِ نامی، اسمِ گرامی معروف علیہ رحمۃ اللہ الرء ُوف اورکُنْیَت ابو محفوظ ہے، والد ِ ماجد کا نام مبارَک فیروز ہے۔( بعض نے ”فَیْرُزَان” لکھا ہے) بغداد کے علاقے کرخ کی نسبت سے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کرخی کہلاتے ہیں۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے والدین عیسائی تھے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بھلائی کی صفت سے متصف تھے، بچپن ہی سے مسلمان بچوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھا کرتے اور والدین کو دعوتِ اسلام پیش کرتے رہتے لیکن وہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو ڈانٹتے ہوئے اُلَجھ پڑتے۔ ایک دن انہوں نے

آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو عیسائی مذہب کی تعلیم سیکھنے کے لئے ایک پادری کے سپرد کر دیا۔ اس نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو سامنے بٹھایا اور پوچھا: ”اے بیٹے! تم، تمہاراباپ اور تمہاری ماں تینوں مل کر کتنے ہوئے؟”آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا،”تین۔” تو کہنے لگا،”اب کہو! خدا تین ہیں۔” فوراً صدائے غیرت بلند ہوئی : ”اللہ واحدعَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی کا ذکر کرنے سے بچ کہ کہیں تو حیرت کے گڑھے میں نہ جا پڑے اور خدائے اَحد عَزَّوَجَلَّ سے کسی دوسرے کی طرف تجاوز کرنے سے بچ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تجھے ہجر وفراق کے کوڑے مارے جائیں۔” حضر ت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی فرماتے ہیں: ”مجھے وہ آواز بہت پسند آئی۔” پھر میرے سامنے سے حجاب اٹھا دیئے گئے اور میں نے محبت و اخلاص کا جام دیکھا، جس کی ایک طرف قبولیت واختصاص کے قلم سے لکھا تھا:

(1) وَ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ

ترجمۂ کنز الایمان :اور تمہارا معبود ایک معبود ہے۔(پ2،البقرۃ:163)
اوردوسر ی جانب لکھا تھا:

(2) لَا تَتَّخِذُوۡۤا اِلٰـہَیۡنِ اثْنَیۡنِ ۚ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ

ترجمۂ کنز الایمان : دو خدا نہ ٹھہراؤوہ تو ایک ہی معبود ہے۔(پ14،النحل:51)
اورتیسری سمت لکھا تھا:

(3)لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ۘ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ

ترجمۂ کنز الایمان :بے شک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے اور خدا تونہیں مگر ایک خدا۔(پ6،المائدہ:73)
جبکہ چوتھی طرف لکھا تھا:

(4) اِنَّنِیۡۤ اَنَا اللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیۡ ۙ

ترجمۂ کنزالایمان :بے شک میں ہی ہوں اللہ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری بندگی کر۔(پ16،طٰہٰ:14)
جب میں نے وہ جام پیا توخوف مجھ سے دُور ہو گیا اور شکوک وشبہات اور اطاعت نہ کرنے کی فضا بھی چَھٹ گئی تو میں اپنی ہی ہستی میں کھو گیااور حضوری ملنے پر خوش ہو کر میں نے اپنی سوچ کی زبان سے پکارا:
”میرا جسم تو ہمیشہ سے کمزور وناتواں ہے اور آنکھیں انسو ہی بہارہی ہیں،جبکہ دِل تمہاری حفاظت ورضامندی کے تابع ہے اور صدق و صفا کے قدموں پر سعی اور طواف کر رہا ہے اور کتنی ہی دفعہ مجھے عرفان کی دولت مل چکی پس اب کیونکر میری حالت کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ فضل یہی ہے کہ معروف کا انکار نہ کیا جائے۔”
پادری نے پھر کہا:”کہو! خد ا تین ہیں۔”آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”نہیں، خدا وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک ہے۔ ” تو پادری نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو مارنا شروع کر دیااور پھر کہنے لگا،” اب کہو! خدا تین ہیں۔”مگرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر

قائم رہے،تو اس نے پہلے سے زیادہ سخت مارا،پیٹااور آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے والدین سے کہا: ”اس کو جیل خانے میں قید کر ا دو۔” چنانچہ، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ تین دن جیل خانے میں رہے، روزانہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے ایک روٹی پھینکی جاتی اور پینے کو ایک گھونٹ پانی دیا جاتا۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی والدہ نے روتے روتے آپ کے والد سے کہا:”آپ کابیٹا بہت چھوٹا ہے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں پاگل نہ ہوجائے،اس کو جیل سے رہا کرا دو۔”چنانچہ، جب دروازہ کھولاگیاتو تینوں روٹیاں ویسی کی ویسی پڑی تھیں، والدین نے چلنے کو کہا توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے انکار کر دیاپھر انہو ں نے پوچھا، ”تم قید خانے میں کیوں قید رہنا چاہتے ہو؟” تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا: ”جس محبوب کی وجہ سے تم نے مجھے قید کیا میں نے اُسی کویہاں اپنے پاس پایا اور وہ بھی مجھ سے محبت کرتاہے۔”جب جیل والوں نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو قید سے آزاد کر دیا تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ گھر سے کہیں دور چلے گئے۔ کئی دن تک نہ کچھ کھایا پیا، نہ ہی کسی دیوار کے سائے میں بیٹھے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے والدین رو رو کر کہتے: ”کاش! ہمارا بیٹا لوٹ آئے، چاہے کسی بھی دین پر ہو ہم اس کی پیروی کریں گے اور اُس کے مذہب کو اپنانے کے لئے تیار ہیں۔ کچھ عرصہ بعد آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، آواز آئی،”کون؟”فرمایا ،”معروف۔” والدین نے پوچھا:”تمہارا دین کون سا ہے؟” فرمایا، ”اسلام ۔” والدین نے باہر نکل کر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو گلے سے لگا لیا۔ پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کر لیا۔

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مرویات:

(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی اپنی سند کے ساتھ حضرت سیِّدُنااَنَس بن مالک اورحضرت سیِّدُنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ ”ایک شخص نے سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عث ِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ سراپا رحمت وبرکت میں حاضر ہو کر عرض کی : ”یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”غصہ چھو ڑدو ۔”اس نے عر ض کی:”اگر یہ نہ ہو سکے تو؟ ” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”روزانہ بعد نمازِ عصر ستر مرتبہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے استغفار کرو تو وہ تیرے ستر برس کے گناہ بخش دے گا۔” عرض کی :”اگر میرے ستر برس کے گناہ نہ ہوں تو؟” ارشاد فرمایا: ” پھر تیری والدہ کے ستر برس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔”پھر عر ض کی:”اگر میری ماں دنیاسے کوچ کر چکی ہو اور اس پر بھی ستر سال کے گناہ نہ ہوں تو؟”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:” تیرے قریبی رشتے داروں کے ستر برس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔”

(تاریخِ بغداد، الرقم۷۷۸0، ابوعلی المفلوج، ج۱۴، ص۴۲۵۔حلیۃ الاولیاء، معروف الکرخی، الحدیث۱۲۷۱۹، ج۸،ص۴۱۱)

(2)۔۔۔۔۔۔حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی اپنی سند کے ساتھ حضر ت سیِّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت

کرتے ہیں کہ ”جس نے اپنے مسلمان بھائی کی کسی حاجت کوپورا کیا اس کے لئے حج و عمرہ کرنے والے کی مثل ثواب ہے۔”

(تا ریخ بغداد ، الرقم ۲۸۷۴ ، احمد بن محمد ابو الحسن النوری ، ج۵ ،ص ۳۳۹)

(3)۔۔۔۔۔۔حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی اپنی سند کے ساتھ حضرت سیِّدُناعمروبن دینارعلیہ رحمۃاللہ الغفَّار سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُناابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں: ”جس نے سوتے وقت یہ دعاپڑھی : ”اَللّٰھُمَّ اٰمَنَّا مِنْ مَّکْرِکَ وَلَا تُنْسِنَا ذِکْرَکَ وَلَاتَکْشِفْ عَنَّاسِتْرَکَ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنَ الْغَافِلِیْنَ، اَللّٰھُمَّ ابْعَثْنَا فِیْ اَحَبِّ السَّاعَاتِ اِلَیْکَ حَتّٰی نَذْکُرَکَ فَتَذْکُرُنَا وَنَسْأَلَکَ فَتُعْطِیَنَا وَنَدْعُوَکَ فَتَسْتَجِیْبُ لَنَا وَنَسْتَغْفِرَکَ فَتَغْفِرُلَنَا یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! ہمیں اپنی خفیہ تدبیر سے محفوظ فرما، ہمیں اپنا ذکر نہ بھلا،ہمارے گناہوں کوچھپائے رکھ، ہمیں غافلوں میں سے نہ کر، اے اللہ عَزَّوَجَلَّ ! ہمیں اپنے پسندیدہ لمحات میں بیدار فرماکہ ہم تیرا ذکر کریں توتُوہماراچرچاکر ، ہم تجھ سے سوال کریں توتُو ہمیں عطا کر، ہم تجھ سے دعا کریں توتُو ہماری دعا قبول کر،ہم تجھ سے مغفرت چاہیں توتُو ہمیں بخش دے۔” تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے پاس اپنی پسندیدہ ساعت میں (یعنی تہجد کے وقت) بیدار کرنے کے لئے ایک فرشتہ بھیجتاہے اگر وہ بیدار ہو جائے تو فبہا (یعنی ٹھیک ہے)، ورنہ وہ فرشتہ آسمان پر چلا جاتا ہے اور دوسرا فرشتہ بھیجا جاتاہے،وہ بیدار کرتاہے اگر وہ اُٹھ کر نماز ادا کرلے تو فبہا،ورنہ وہ فرشتہ بھی اپنے رفیق کے ساتھ جا کر کھڑاہوجاتاہے۔پھر اگر وہ شخص اُٹھ کر نمازِ تہجد پڑھے اور دُعا کرے تو اس کی دُعا قبول کر لی جاتی ہے اور اگر نماز نہ پڑھے تو بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے لئے ان ملائکہ کا ثواب لکھ دیتا ہے ۔”

(کنز العمال،کتاب المعیشۃ والعادات قسم الاقوال ،باب رابع،فصل اول، الحدیث ۴۱۳۱۹ ،ج۱۵ ، ص ۱۴۹۔بتغیرٍقلیلٍ)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کرامات:

حضرت سیِّدُنا ابنِ مردویہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کی صحبت میں بیٹھے ہوئے تھے، اس دن میں نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا چہرہ مبارک کِھلاہوا دیکھ کر عرض کی: ”اے ابو محفوظ! مجھے پتا چلا ہے کہ آپ پانی پر چلتے ہیں؟”تو ارشادفرمایا:”میں کبھی پانی پر نہیں چلابلکہ جب میں پانی عبور کرنے کا ارادہ کرتاہوں تو اس کی دونوں طرفیں اکٹھی ہو جاتی ہیں اورمیں اس پر قدم رکھ کر چلنے لگ جاتا ہوں۔
حضرت سیِّدُنامحمد بن واسع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اذانِ مغرب کے وقت حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کے پاس تھا اس وقت آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے چہرے پر کسی چوٹ کا نشان نہ تھالیکن جب اگلے دن حاضر ہوا تو چوٹ کا نشان دیکھا۔میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے بزرگ جو کہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے خاصے مانوس تھے،سے عرض کی کہ”آپ ان سے اس کی وجہ پوچھئے۔” چنانچہ، انہوں نے پوچھا:”اے ابو محفوظ !کل تک توآپ کے چہرے پر کوئی نشان نہ تھا، پھر آج یہ نشان کیسے بنا؟” ارشاد فرمایا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں معاف فرمائے! فضول باتوں کے متعلق سوال مت کرو۔” لیکن اس بزرگ نے پھر عرض

کی: ”میں آپ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم دیتاہوں کہ آپ ہمیں ضرور بتایئے؟”حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی نے پوچھا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ تم پر رحم کرے، تمہیں کس نے یہ بات پوچھنے پر اُبھارا ؟”پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا چہرہ متغیَّر ہو گیا پھر ارشاد فرمایا: ”رات نمازِ عشاء کے بعد میرے دل نے بیت اللہ شریف کا طواف کرنے کی خواہش کی تو میں مکہ شریف جا پہنچا۔ طواف کر کے زمزم شریف کی طرف پانی پینے گیاتو اچانک ایک حسین صورت دکھائی دی۔ میری نظر اس پر جم گئی تو اچانک میرا پاؤں دروازے میں پھسل گیاجس سے میرے چہرے پر چوٹ لگ گئی۔پھر میں نے کسی کی آواز سنی:”اگرتم مزید دیکھتے تو مزید چوٹیں کھاتے۔”
حضرت سیِّدُناعلی حسن بن عبد الوہاب رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ” لوگ کہتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی پانی پر چلتے ہیں، اگر مجھے کہاجائے کہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ہوا میں اڑتے ہیں تو میں اس بات کی بھی تصدیق کروں گا۔”
حضرت سیِّدُناعبد الوہاب رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی سے بڑا زاہد کوئی نہیں دیکھا۔

(تاریخ بغداد،الرقم۷۱۷۷معروف بن الفیرزان ابومحفوظ العابدالمعروف بالکرخی،ج۱۳،ص۲0۷)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ارشاداتِ عالیہ :

حضرت سیِّدُناابراہیم بکاء علیہ رحمۃاللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کو ارشاد فرماتے سنا: ”جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتاہے تواس کے لئے عمل کا دروازہ کھول دیتاہے اور بحث و مباحثہ کا دروازہ بند کر دیتاہے اور جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی بندے سے شَر کا ارادہ فرماتاہے تو اس کے لئے عمل کا دروازہ بند کر دیتاہے اور بحث و مباحثہ کادروازہ کھول دیتاہے۔”

(حلیۃ الاولیاء،معروف الکرخی،الحدیث۱۲۶۹0،ج۸،ص۴0۵)

حضرت سیِّدُنایحیٰ بن معین اورحضرت سیِّدُناامام احمد بن حنبل رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما دونوں اپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔حضرت سیِّدُنایحیی بن معین رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے کہاکہ میں ان سے سجدۂ سہو کے متعلق پوچھنا چاہتاہوں۔حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے خاموش رہنے کا حکم دیا لیکن وہ خاموش نہ رہے اور عر ض کی :”اے ابو محفوظ!آپ سجدۂ سہو کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟” حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی نے ارشاد فرمایا:”یہ دل کے لئے سزا ہے کہ وہ نماز سے غافل ہو کر دوسری طرف کیوں متوجہ ہوا۔” یہ سن کرحضرت سیِّدُنااحمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:”یہ بات آپ کی ذہانت پر دلالت کرتی ہے۔”

(تاریخ بغداد ، الرقم ۷۱۷۷معروف بن الفیرزان ابو محفوظ العابد المعروف بالکرخی،ج۱۳،ص۲0۱)

ایک دن حضرت سیِّدُنا معروف کرخی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے نماز کے لئے اقامت کہی۔پھرحضرت سیِّدُنامحمد بن ابی توبہ علیہ رحمۃ اللہ سے ارشاد فرمایا:”آگے بڑھ کر ہمیں نماز پڑھائیے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ امامت نہیں کراتے تھے ، بلکہ صرف

اذان و اقامت کہتے تھے جبکہ امامت کوئی اور کرتا تھا۔”حضرت سیِّدُنامحمد بن ابی توبہ علیہ رحمۃ اللہ نے عرض کی: ”اگر میں تمہیں یہ نماز پڑھاؤں تو دوسری نماز کی امامت نہیں کروں گا۔” یہ سن کرآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:”کیا تم دوسری نماز کی اُمید کرتے ہو؟ ہم لمبی اُمیدوں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ طلب کرتے ہیں کیونکہ یہ بہترین عمل سے روک دیتی ہے۔”

(حلیۃ الاولیاء، معروف الکرخی، الحدیث۱۲۶۸۸، ج۸، ص۴0۵)

حضرت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی فرمایاکرتے تھے: ”دُنیاچار چیزوں کا نام ہے: (۱)۔۔۔۔۔۔مال(۲)۔۔۔۔۔۔کلام (۳)۔۔۔۔۔۔سونا اور (۴)۔۔۔۔۔۔ کھانا ۔کیونکہ مال سرکشی کا سبب ہے، کلام لہو و لعب میں مبتلا کر دیتا ہے،نیند غافل کر دیتی ہے اور کھانا دل کی سختی کا باعث ہے۔”
حضرت سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کو یہ ارشاد فرماتے سنا: ”جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مقابلے میں بڑائی چاہنے کا ارادہ کیاتووہ اُسے بری طرح پچھاڑ دے گا،جس نے اس سے لڑائی کا ارادہ کیا تو وہ اسے ذلیل کر دے گا، جس نے اس کو دھوکا دیناچاہا تووہ اسے اس کی سزا دے گا اور جس نے اس پر بھروسہ کیا تووہ اسے نفع دے گا اور جس نے اس کے لئے عاجزی کی تو وہ اُسے بلند رتبہ عطا فرمائے گا۔” (سیر اعلام النبلاء،الرقم۱۴۲۵معروف الکرخی، ج۸، ص۲۱۸)

حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کی بارگاہ میں عرض کی گئی: ”دل سے دنیا کی محبت نکالنے کا نسخہ کیا ہے؟”ارشاد فرمایا:”اللہ عَزَّوَجَلَّ سے سچی محبت اور لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤکرنا۔ اور خالص محبت کی علامات تین ہیں:(۱)۔۔۔۔۔۔وعدہ پورا کرنا (۲)۔۔۔۔۔۔بغیرسوال کے عطا کرنا اور (۳)۔۔۔۔۔۔کوئی سخاوت نہ کرے پھر بھی اس کی تعریف کرنا۔اورمُحَبِّین کی علامات بھی تین ہیں: (۱)۔۔۔۔۔۔ رضائے الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی جستجومیں رہنا (۲)۔۔۔۔۔۔ اسی کی ذات میں مشغول رہنا اور (۳)۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ اسی کی پناہ طلب کرنا۔” (حلیۃ الاولیاء، معروف الکرخی، الحدیث۱۲۷۱۸، ج۸، ص۴۱۱)

مصائب پر صبر قربِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا ذریعہ ہے:

ایک شخص حضرت سیِّدُنامعروف کرخی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا:”یاسیِّدی!مجھے بتایئے کہ میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ تک کیسے رسائی حاصل کر سکتاہوں؟”تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک امیر کے دروازے پر لے گئے۔ دروازے پرایک غلام کھڑا ہواتھاجس کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی ۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس غلام کی طرف اشارہ کیا اور اس شخص کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا:”اس کی مثل ہو جاؤ، خود ہی اللہ عَزَّوَجَلَّ تک رسائی حاصل کر لو گے۔”(یعنی جس طرح یہ غلام ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے باوجود اپنے آقا کے در وازے پر حاضر ہے اس طرح تو بھی ہر حال میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا پر راضی رہ اور اس کی عبادت کرتا رہ)۔

آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کاخوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ:

حضرت سیِّدُناابو بکر بن ابی طالب علیہ رحمۃاللہ الخالق فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کی مسجد میں داخل ہوا۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ گھر میں تشریف فرماتھے ۔پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ہمارے پاس تشریف لائے۔ہم قافلے کی صورت میں تھے ۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ہمیں سلام کیا ہم نے بھی جواباً سلام پیش کیا۔پھر ہمیں دعا دیتے ہوئے فرمایا:”اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ سب کو اسلامی مملکت میں سلامتی کے ساتھ زندہ رکھے اور دنیا میں ہم سب کو احسان کی نعمت سے نوازے اور آخرت میں ہماری مغفرت فرمائے۔” پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اذان دینی شروع کی۔ جب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ”اَشْھَدُ اَنْ لَّا ۤاِلٰہَ اِلَّا اللہُ” پر پہنچے توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پرشدَّتِ اضطراب سے لرزہ طاری ہوگیا اور اَبْرُو اور داڑھی کے بال کھڑے ہو گئے اور آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اس قدر بے چین ہوئے کہ مجھے خوف ہوا کہ اذان مکمل نہ کر سکیں گے پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اس قدر جھک گئے کہ قریب تھا کہ گر جاتے۔

(حلیۃ الاولیاء، معروف الکرخی، الحدیث۱۲۶۸۵، ج۸، ص۴0۴)

حضرت سیِّدُناعبداللہ بن محمد وراق علیہ رحمۃاللہ الرزّاق فرماتے ہیں کہ کبھی کبھار ہم حضرت سیِّدُناابو محفوظ علیہ رحمۃاللہ الوَدود کی مجلس میں ہوتے اور آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بیٹھ کر غور وفکر کر رہے ہوتے، پھراچانک آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ پر بے چینی طاری ہو جاتی اوربارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں عرض گزار ہوتے: ”وَاغَوْثَاہ، ”اے میرے مددگار! (یعنی اپنے حقیقی مددگار کو پکارتے)۔”

(المرجع السابق، الحدیث ۱۲۷0۹،ص۴0۹)

حضرت سیِّدُناقاسم بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں :”میں حضرت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃ اللہ القوی کا پڑوسی تھا، ایک رات میں نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو گریہ وزاری کرتے اور درج ذیل اشعار پڑھتے سنا:

أیُّ شَیْءٍ تُرِیْدُ مِنِّی الذُّنُوْب شَغَفَتْ بِیْ فَلَیْسَ عَنِّی تَغِیْب
مَا یَضُرُّ الذُّنُوْبُ لَوْ أعْتَقْتَنِی رَحْمَۃً لِّیْ فَقَدْ عَلَانِیَ المَشِیْب

ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔کون سی چیز مجھ سے گناہ کرانا چاہتی ہے، مجھے گناہوں میں مشغول رکھتی ہے اور مجھ سے دور نہیں ہوتی۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ اگر تو مجھے رحم فرماتے ہوئے بخش دے تو گناہ مجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے، اب تو مجھ پر بڑھاپا آ چکا ہے۔

(صفۃ الصفوۃ، ذکر المصطفین من اھل بغداد، الرقم۲۶0معروف بن الفیرزان الکرخی،ج۲،ص۲۱۲)

ایک نوجوان کی حکایت:

حضرت سیِّدُنایحیی بن حسن رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کو فرماتے سنا: ”میں نے ایک بستی میں خوبصورت اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک نوجوان دیکھا،اس نے زُلفیں رکھی ہوئی تھیں،سر پر اُونی چادر، جسم پر سُوتی کپڑے کی قمیص اورپاؤں میں لکڑی کا جوتا تھا۔مجھے اس کو اس جگہ دیکھ کر بڑی حیرانگی ہوئی۔پھر میں نے

اسے سلام کیااور اس نے بھی سلام کا جواب دیا۔ میں نے پوچھا:” کہاں سے آرہے ہو؟” کہنے لگا:” دمشق سے آ رہا ہوں۔” میں نے پھر پوچھا:”وہاں سے کب چلے تھے؟”جواب دیا:” دوپہرکے وقت وہاں سے چلاتھا۔”مجھے اس پربڑا تعجب ہواکیونکہ دمشق او ر اس بستی کے درمیان بہت زیادہ مسافت اور کئی منزلیں تھیں۔بہرحال میں نے پھر پوچھا:”کہا ں کا ارادہ ہے؟”تواس نے جواب دیا: ”مکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَکْرِیْماً جانے کا ارادہ ہے۔”میں سمجھ گیاکہ اس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خاص لطف وکرم ہے۔ خیر میں نے اسے الوداع کہااور وہ چلاگیا۔تین سال کے بعدایک دن میں اپنے گھر میں بیٹھا سوچ میں ڈوبا ہوا تھاکہ دروازے پردستک ہوئی۔میں نے دروازہ کھولاتو وہی شخص تھا۔ میں نے سلام کرنے کے بعد کہا: ”خوش آمدید! اور اسے اپنے گھر آنے کی اجازت دے دی۔ایسا لگ رہا تھاجیسے وہ حسرت زدہ ،پریشان اور غمگین ہو۔ میں نے پوچھا:”کیا ہوا؟” تو اس نے بتایا: ”اے استاذِمحترم! اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مجھ پر خاص کرم ہے یہاں تک کہ پہلے اس نے مجھے مصیبت میں مبتلا کیا پھر اس سے نجات دی۔ وہ مجھ پر کبھی تو اپنے لطف و کرم کی بارش برساتا ہے اور کبھی خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کبھی بھوکا رکھتاہے اور کبھی معزز بنا دیتا ہے۔ کاش! ایک مرتبہ وہ مجھے اپنے کسی خاص بندے کے بھیدوں پر آگاہ فرمادے پھر میرے ساتھ جو چاہے کرے ۔” حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں کہ اس کے اس کلام سے مجھے رونا آ گیا۔ میں نے مزید پوچھا:”جب سے تم مجھ سے جد اہوئے اس وقت سے تمہارے ساتھ کیا کیا معاملات پیش آئے ؟” اس نے کہا: ”میں توان کو ظاہر کرنا چاہتاہوں لیکن وہ مخفی رکھنا چاہتا ہے۔”پھر وہ رونے لگا۔تو میں نے اس سے پوچھا:”بتاؤ تو سہی کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا؟”چنانچہ، اس نے بتانا شروع کیا: ”آپ سے ملاقات کے بعد میں تیس (30)دن تک بھوکا رہا۔ ایک وادی میں پہنچا جہاں ککڑیاں کاشت کی ہوئی تھیں۔ میں پتوں کو توڑ کر کھانے بیٹھ گیا۔ مالک نے جب دیکھا تو مجھے پکڑ لیا اور میری پشت اور پیٹ پر مُکِّے مارتے ہوئے کہنے لگا:”اے چور!تیرے علاوہ میری ککڑیاں کسی نے نہیں توڑیں،میں کب سے تیری تاک میں تھاکہ توآئے اورمیں تجھے پکڑ لوں، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اب تومیں تجھے سخت سزا دوں گا۔”وہ ابھی مجھے مار ہی رہا تھاکہ ایک گھوڑے سوار بڑی تیزی سے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا آیا، اس کے سر پر کوڑا برسایا اور کہنے لگا:”تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ایک دوست کو چور کہہ رہے ہواور اس کو مارتے اور ڈانٹتے ہو حالانکہ اس نے تو پتوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں کھائی۔” یہ سن کر وہ مالک میرے پاس آیا اور میرے ہاتھوں اور سر کو چومنے لگا۔پھر مجھ سے معذرت کی اور اپنے گھر لے جاکر بہت عزت کی اور حسن سلوک سے پیش آیا۔میرے لئے اپنی ککڑیاں فقراء و مساکین کو صدقہ کر دیں۔ پھر جب میں نے بتایا کہ میں حضرت سیِّدُنامعروف کرخی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے دوستوں میں سے ہوں تو اس نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں کچھ بیان کرنے کو کہا۔ میں نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے کچھ اوصاف بیان کئے تو اس نے پہچان لیا۔”ابھی اس نوجوان کی گفتگو پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ ککڑیوں کے مالک نے دروازے پر دستک دی اور ہمارے پاس آگیا۔وہ

بہت خوشحال تھا۔اور اپنا سارا مال فقراء پر صدقہ کر کے ایک سال اس نوجوان کی صحبت میں رہا ۔پھر وہ دونوں حج کے لئے روانہ ہوئے، حج و عمرہ کیا اور دونوں کا وہیں انتقال ہو گیااور مکۂ مکرمہ کے قبرستان ”جنَّتُ المَعْلٰی”میں مدفون ہوئے۔

(صِفّۃ الصفوۃ،ذکر المصطفین من عباد اھل الشام المجھولی الاسماء، الرقم۸۱۳، عابد آخر،ج۴،ص۲۴0)

حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ القوی اس طرح دعا کیا کرتے تھے: ”اَللّٰھُمَّ یَا مَنْ وَفَّقَ اَھْلَ الْخَیْرِ لِلْخَیْرِ وَاَعَانَھُمْ عَلَیْہِ وَفِّقْنَا لِلْخَیْرِ وَاَعِنَّا عَلَیْہِ یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ !اے وہ ذات جس نے نیک بندوں کو اُمورِ خیرکی توفیق دی اور اس پر ان کی مدد بھی فرمائی! ہمیں بھی بھلائی کی توفیق عطا فرما اور اس پر ہماری مدد بھی فرما۔”

دُعائے معروف علیہ رحمۃ اللہ الرء ُوف کی برکات:

ایک شخص نے حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ القوی کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: ”دعا فرمائیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ میرے دل کو نرم کر دے ۔”توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اسے اس دعا کی تلقین فرمائی: ”یَا مُلَیِّنَ الْقُلُوْبِ! لَیِّنْ قَلبِیْ قَبْلَ اَنْ تُلَیِّنَہ، عِنْدَ الْمَوْتِ یعنی اے دلوں کونرم فرمانے والے !میرے دل کو بھی نرم کر دے اس سے پہلے کہ تو موت کے وقت اسے نرم کرے۔”(آمین)
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃاللہ العلی فرماتے ہیں کہ میں دل کی سختی کے مرض میں مبتلاتھا اور مجھے حضرت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃاللہ القوی کی دعا کی برکت سے چھٹکارا مل گیا۔ہوا یوں کہ میں نمازِ عید پڑھنے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا کہ حضرت سیِّدُنامعروف کرخی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھا ۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ ایک بچہ بھی تھاجس کے بال اُلجھے ہوئے تھے۔دل ٹوٹنے کے سبب روئے جا رہاتھا۔میں نے عرض کی :”یاسیِّد ِی! کیا ہوا؟ آپ کے ساتھ یہ بچہ کیوں روئے جا رہاہے؟”توآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا:”میں نے چند بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھالیکن یہ بچہ ایک طرف کھڑا ہوا تھا۔ان بچو ں کے ساتھ نہ کھیلنے کی وجہ سے اس کا دل ٹوٹ گیاہے ۔میں نے بچے سے پوچھاتواس نے بتایا: ”میں یتیم ہوں، میرا باپ انتقال کر گیاہے، میرا کوئی سہارا نہیں اور میرے پاس کچھ رقم بھی نہیں کہ میں اخروٹ خرید کر ان بچوں کے ساتھ کھیل سکوں۔”چنانچہ، میں اس کو اپنے ساتھ لے آیا ہوں تاکہ اس کے لئے گُٹھلیاں اکٹھی کروں جن سے یہ اخروٹ خرید کر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل سکے۔”میں نے عرض کی:”آپ یہ بچہ مجھے دے دیں تاکہ میں اس کی حالت بدل سکوں۔” آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”چلو اس کو پکڑ لو، اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہارا دل ایمان کی برکت سے غنی کرے اوراپنے راستے کی ظاہری و باطنی پہچان عطا فرما دے ۔”
حضرت سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:”میں اس بچے کو لے کر بازار چلاگیااور اچھے کپڑے پہنائے، اخروٹ خرید کر دیئے اور وہ عید کے دن دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے چلا گیا۔دوسرے بچوں نے پوچھا:”تجھ پر یہ احسان کس نے کیا؟”اس نے جواب دیا:”حضرت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃاللہ القوی اورسری سقطی علیہ رحمۃاللہ القوی نے ۔”جب بچے کھیل کود

کے بعد چلے گئے تو وہ بچہ خوشی خوشی میرے پاس آیا ۔میں نے اس سے پوچھا:”بتاؤ! عید کا دن کیسا گزرا؟”اس نے کہا: ”اے میرے محترم ! آپ نے مجھے اچھا کپڑاپہنایا،مجھے خوش کر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے بھیجا ، میرے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑا، اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کو اپنی بارگاہ میں حاضری کی کمی پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے لئے اپنا راستہ کھول دے۔” حضرت سیِّدُنا سری سقطی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں کہ مجھے بچے کے اس کلام سے بے حد خوشی ہوئی جس نے عید کی خوشیاں دوبالا کردیں۔

(تذکرۃ الاولیاء،ج۱،حصہ اول،حضرت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃ اللہ الغنی،ص۲۴۲۔۲۴۳،ملخصاً )

عیسائی والدین کا قبولِ اسلام :

(2)۔۔۔۔۔۔حضرت سیِّدُنا عامر بن عبد اللہ کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی فرماتے ہیں کہ میرے پڑوس میں ایک عیسائی رہا کرتا تھا۔ ایک دن میں اپنے گھر میں موجود تھاکہ وہ میرے پاس آیااور کہنے لگا:”اے ابو عامر !پڑوسی ہونے کی حیثیت سے میرا آپ پر حق ہے،میں آپ کو رات اور دن کے خالق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ ” مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کسی ولی کے پاس لے چلئے تاکہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے میرے لئے بیٹے کی دعا کرے۔ میرے دل میں اولاد کی بہت خواہش ہے اور میرا جگر جلتا رہتا ہے۔” چنانچہ، میں اس کو ساتھ لے کر حضرت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں اس عیسائی کا معاملہ عرض کیا۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اسے اسلام کی دعوت دی توکہنے لگا:”اے معروف! جب تک اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے ہدایت نہ دے آپ نہیں دے سکتے، میں آپ کے پاس صرف دعاکے لئے حاضر ہوا ہوں ۔”
آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ہاتھوں کو بلند کر کے دعاکی: ”یااللہ عَزَّوَجَلَّ! میں تیری بارگاہ میں عرض کرتاہوں کہ اسے ایسا لڑکا عطا فرما جو والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اوروہ اس کے ہاتھ پر مسلمان ہو جائیں۔”چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اوراس کو ایک ایسا لڑکا عطافرمایاجو اپنی عقلِ کامل کے سبب تمام اہلِ زمانہ پرفوقیت لے گیا، وہ اپنی شرافت کی بلندی کے باعث اپنے جیسے تمام لڑکوں پر بلند مقام رکھتاتھا۔جب وہ کچھ بڑا ہوا تو باپ اسے عیسائیت کی تعلیم دلانے کے لئے ایک پادری کے پاس چھوڑآیا۔پادری نے اُسے سامنے بٹھایا اور ہاتھ میں تختی پکڑا کر ابھی ”بولو” ہی کہا تھا تو وہ بچہ کہنے لگا: ”کیا بولوں؟ میری زبان تمہارے تین خداماننے کے عقیدے سے روک دی گئی ہے اور میرادل میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں مشغول ہے۔” پادری کہنے لگا: ”اے بیٹے!میں نے تجھے یہ تو نہیں کہا تھا۔”تو بچے نے کہا :”پھر تم نے مجھے کیا کہا تھا؟” پادری نے کہا: ”تم میرے پاس جس تعلیم کے لئے آئے ہو میں تو تمہیں وہ سکھا رہا ہوں جبکہ تم نے مجھے پڑھانا شروع کردیا ۔”یہ سن کر بچہ کہنے لگا: ”پھر مجھے کوئی ایسی بات بتلائیے، جسے میری عقل بھی قبول کر ے اور میرا ذہن بھی تسلیم کر ے۔”

استاد نے کہا: ”ٹھیک ہے، تو پھر کہو !الف۔”بچے نے کہا: ”الف تو وَصلی یعنی ملانے والا ہے،جس نے ہر دل کو اس محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کا گرویدہ کر دیا جس کی صفات اَزَلی ہیں۔”استاد نے کہا: ”اے بیٹے! کہو! باء۔”بچے نے کہا: ”باء سے مراد حقیقی بقاء ہے، جس نے دلوں کو زندہ کیا اور ان میں محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے سوا کچھ نہ چھوڑا۔” استاد نے کہا:”اے بیٹے !کہو!تاء۔” توبچے نے کہا: ”تاء سے مراد دل کا جذبہ وشوق ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ کے متعلق دل میں کھٹکنے والے تمام شکوک و شبہات کودور کرتا ہے۔” پادری نے کہا:”اے بیٹے! کہو!ثاء۔”توبچے نے کہا: ”ثاء سے مراد اس نورانی لباس کے لئے پردہ ہے جو مقامِ قرب پانے والوں کوثابت رکھے ہوئے ہے۔ استادنے کہا:”اے بیٹے !کہو! جیم۔” تو بچے نے کہا:”جیم تو نورِجمالِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا نام ہے، جو انسانوں پر صبح و شام اپنے انوار وتجلیات ڈالتاہے۔”استاد نے کہا:”اے بیٹے! پڑھو! حاء۔” توبچے نے کہا:”حاءسے مراد اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد ہے،جس نے دلوں کی حفاظت کی اوربری خصلتوں سے پاک وصاف کردیا۔”استاد نے کہا:”اے بیٹے! کہو! خاء۔”توبچے نے کہا:”خاء سے مرادخوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ ہے،جس نے برگُزیدہ بندوں کی تمام تکالیف اور دکھ دَرد دُور کر دیئے۔”
یہاں تک کہ پادری بچے کو ایک ایک حرف پڑھنے کے لئے کہتارہا اور بچہ اس حرف کے متعلق ہم وزن و منظوم کلام سے جواب دیتا رہا۔ پادری کی عقل دنگ رہ گئی اور ایسی گفتگوسن کر اس کا دل زندہ ہو گیااور اس نے جان لیاکہ دینِ اسلام ہی سچا دین ہے۔ پھر کہنے لگا: اے وحدانیتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کو ماننے والے پیارے بچے! میں تجھے شاباش دیتا ہوں۔” اس کے بعد بچے نے چند اشعار پڑھے، جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:
”کیا وہی برحق نہیں جو رلاتا و ہنساتا ، زندگی و موت دیتا اور مخلوق کے لئے کھیتی اُگاتا ہے؟ یقینا وہی معبودِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ ہے لہٰذا جو اس کا دروازہ چھوڑ کر کسی اور کے دروازے پرجاتا ہے وہ نقصان اٹھاتاہے اور جو اسے چھوڑ کرکسی دوسرے کی عبادت کرتا ہے گمراہ ہو جاتا ہے ۔ اے خائب وخاسر کوشش کرنے والے! جب بندے کا مقصودِ حقیقی وہی ذات ہے تو اب کون اس مقصد کے غیر کی طرف کامیاب کوشش کر سکتا ہے؟ پس وہی برتر،غالب اور رحیم ہے کہ اس کی طاقت کے بغیرکوئی کسی کو نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ وہ اپنے بندے کو گناہ کرتے ہوئے دیکھتاہے پھر بھی اس کی پردہ پوشی فرماتاہے اور اس کو بن مانگے عطا کرتا ہے۔ عاصیوں اور گنہگاروں سے بخشش کامعاملہ کرتاہے ا ور ہجر وفراق کے ماروں کو وصال کی دولت سے نوازتاہے۔پاک ہے وہ ذات جس کے علاوہ حقیقی پروردْگار کوئی نہیں،وہ اپنے اس بندے کو پسند کرتا ہے جو اس کا حکم توجہ سے سنتا ہے۔”
راوی کہتے ہیں کہ جب پادری نے بچے کا ایسا کلام سنا جس نے اس کے ہوش اڑا دئیے اور اسے رنج و غم میں مبتلا کر دیا تو اس نے جان لیا اور اسے یقین ہوگیاکہ اس بچے کو قوتِ گویائی عطا کرنے والا وہی ہے جس نے مجھے پیداکیا ہے۔چنانچہ، اس نے دل ہی دل میں کلمۂ شہادت ”اَشْھَدُ اَنْ لَّا ۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ” پڑھا۔ پھر بچے کواس کے باپ کے پاس

لے آیا۔ جب باپ نے ان دونوں کو آتے دیکھاتو اس کا چہرہ خوشی سے دَمَک اٹھا۔ اس نے پادری سے پوچھا: ”آپ نے میرے بچے کی ذہانت کو کیسا پایا؟”تو وہ کہنے لگا:” ذرا اس کا عارفانہ کلام تو سنیں۔” پھر اس نے ساری گفتگوبچے کے باپ کو سنا دی۔ یہ سن کر باپ بولا: ”اس خدا کی قسم جوہر لاچار وبے بس کی مدد فرماتا ہے! میرا بیٹامحض حضرت سیِّدُنامعروف کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دُعا کی برکت سے اس مقام و مرتبے تک پہنچا ہے۔” پھر کہنے لگا : ” اے میرے بیٹے! سب خوبیاں خدائے واحدعَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے تیرے سبب ہم سب کوگمراہی سے نجات عطا فرمائی۔میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت سیِّدُنا محمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس کے سچے رسول ہیں۔” اس کے بعد بچے کی ماں اور تمام گھروالے اسلام لے آئے اور اپنے گلے سے (عیسائیوں کے نشان ) صلیب کو اُتارپھینکا۔ (سُبْحَانَ اللہ !) اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کی دعا کی بدولت ان سب کو جہنم سے چھٹکارا دے دیا۔

مزارات اولیاءِ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین كي برکات:

حضرت سیِّدُنااحمد بن عباس رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں بغداد سے حج کے ارادے سے نکلاتو ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جس پر عبادت کے آثار نمایاں تھے۔اس نے پوچھا:”آپ کہاں سے آرہے ہیں؟”میں نے جواب دیا: ”بغداد سے بھاگ کر آرہاہوں کیونکہ میں نے وہاں فساد دیکھا ہے،مجھے خوف ہے کہ اہلِ بغداد کو چاند گرہن نہ لگ جائے۔” اس بزرگ نے فرمایا: ”آپ واپس چلے جائیے اور ڈریئے مت، کیونکہ بغداد میں چار ایسے اولیائے کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی قبریں ہیں جن کی برکت سے اہلِ بغداد تمام بلاؤں اور مصائب سے محفوظ ہیں۔”میں نے پوچھا:”وہ کون ہیں؟”جواب دیا:”وہ حضرت سیِّدُناامام احمد بن حنبل ،حضرت سیِّدُنامعروف کرخی، حضرت سیِّدُنا بشر حافی اورحضرت سیِّدُنامنصور بن عماررحمۃاللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔” چنانچہ، میں واپس آ گیااور ان مردانِ حق کی قبروں کی زیارت کی تو مجھے بہت کیف وسرور حاصل ہوا۔

(تاریخ بغداد،باب ما ذکر فی مقابر بغداد المخصوصۃ بالعلماء والزہاد،ج۱،ص۱۳۳)

جس کا عمل ہو بے غرض اُس کی جزا کچھ اور ہے:

حضرت سیِّدُناابو الفتح بن بشر رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”میں نے عالَمِ خواب میں حضرت سیِّدُنا بِشْر حافی علیہ رحمۃاللہ الکافی کو ایک باغیچہ میں دیکھا۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے ایک دسترخوان بِچھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا:”مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟” تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:”اس نے رحم فرماتے ہوئے مجھے بخش دیااور تخت پر بٹھاکر فرمایا:”اس دستر خوان پر موجود پھلوں میں سے جو چاہوکھاؤ اور لطف اٹھاؤکیونکہ تم دنیامیں اپنے نفس کوخواہشات سے

روکتے تھے۔”میں نے پوچھا:”آپ کے بھائی حضرت سیِّدُناامام احمد بن حنبل رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کہاں ہیں؟” فرمایا: ”وہ جنت کے دروازے پر کھڑے اہلِ سنت کے ان افراد کی شفاعت کر رہے ہیں جن کا عقیدہ تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلام قرآنِ کریم غیر مخلوق ہے۔” میں نے پھر پوچھا:”اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟” تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے جواباً فرمایا: ”افسوس! مجھے معلوم نہیں کیونکہ ہمارے اور ان کے درمیان پردے حائل ہیں، انہوں نے جنت کے شوق یا جہنم کے ڈر سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت نہ کی تھی بلکہ ان کی عبادت تو محض دیدارِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے لئے تھی۔چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں اعلیٰ ترین مقام عطافرمایا اور اپنے اور ان کے درمیان سب پردے اٹھادیئے۔ اب جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں کوئی حاجت پیش کرنی ہو تواُسے چاہے کہ حضر ت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کے مَزارِ پُرانوار پرحاضر ہو کر دعا کرے، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی دعا قبول کی جائے گی۔”

(صفۃ الصفوۃ، ذکر المصطفین من اھل بغداد، الرقم۲۶0،ج۲،ص۲۱۴)

حضرت سیِّدُنامحمد بن عبدالرحمن زہری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے باپ حضر ت سیِّدُنا عبدالرحمن رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو یہ فرماتے سنا کہ ” حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کی قبرِ انور پر تمام حاجات پوری ہوتی ہیں۔”
حضرت سیِّدُنایحیی بن سلیمان علیہ رحمۃاللہ المنَّان فرماتے ہیں کہ مجھے ایک حاجت تھی اورمیں کافی تنگدست تھا۔ حضرت معروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کی قبرِ اَنور پر میری حاضری ہوئی،میں نے تین بار سورۂ اخلاص کی تلاوت کی اور اس کا ثواب آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اور تمام مسلمانوں کی ارواح کو پہنچایا،پھر اپنی حاجت بیان کی۔ جوں ہی میں وہاں سے واپس گیا میری حاجت پوری ہو چکی تھی۔
حضرت سیِّدُناابوبکر خیَّاط علیہ رحمۃاللہ الْجَوَاد فرماتے ہیں کہ میں نے عالم خواب میں خود کو قبرستان میں دیکھا۔قبر والے اپنی قبروں پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے پھولوں کے پودے ہیں۔اچانک حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کو ان کے درمیان کھڑا پایا کہ کبھی اِدھر جاتے ہیں اور کبھی اُدھر ۔میں نے پوچھا:”اے ابو محفوظ! ”مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟”اور کیا آپ اس دنیاسے کوچ نہیں کر چکے؟”تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے جواباً فرمایا:”کیوں نہیں،پھرچند اشعار پڑھے، جن کا مفہوم کچھ یوں ہے :
”مُتَّقی انسان کی موت درحقیقت حیاتِ جاوِدانی ہے یعنی ایسی زندگی ہے جو ختم ہونے والی نہیں۔ کئی لوگ اس جہانِ فانی سے کوچ کر چکے ہیں لیکن ان کا نام ابھی تک لوگوں میں(اچھائی کے ساتھ )زندہ ہے۔ فخرکرناصرف اہلِ علم کو روا ہے کیونکہ وہ ہدایت پر ہوتے ہیں اور جو بھی ان سے ہدایت حاصل کرناچاہے، یقینا ہدایت پا جاتاہے۔وہ خود تو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے لیکن ان کے چاہنے والے ان کے وصال کے بعدبھی ان کا نام زندہ رکھے ہوئے ہیں اور ہم بھی انہی مرنے والوں کی صف میں ہیں جوزندہ ہیں۔ ”

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وصالِ باکمال:

حضرت سیِّدُنا ابو بکر عجوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت سیِّدُناثعلب رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”حضرت سیِّدُنا معروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کی وفات200ھ میں ہوئی۔” حضرت سیِّدُناابو القاسم نضری علیہ رحمۃاللہ القوی جن کا تعلق قبیلہ بنو نضر بن معین سے ہے، فرماتے ہیں کہ ”مجھے یہ خبر ملی ہے کہ حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کی نما ز جنازہ میں تین لاکھ افراد نے شرکت کی ۔”
حضرت سیِّدُناعبدالرحمن بن محمد وراق علیہ رحمۃاللہ الرزّاق فرماتے ہیں کہ ایک شامی شخص حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوا، سلام عرض کرنے کے بعد کہنے لگا: ”مجھے خواب میں حکم ہواہے کہ حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کرو کیونکہ وہ زمین و آسمان والوں میں مشہور ومعروف ہیں۔”
ایک بزرگ سے منقول ہے کہ میں نے اپنے بھائی کو مرنے کے ایک سال بعد خواب میں دیکھ کر پوچھا:”اے میرے بھائی! ”مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟” تو اس نے جواب دیا:”اب مجھے آزاد کر دیاگیاہے کیونکہ جب حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃاللہ الغنی ہمارے پاس مدفون ہوئے تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے دائیں،بائیں ،آگے، پیچھے سے عذاب میں گرفتار تیس تیس ہزارگنہگاروں کو نجات دے دی گئی ۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا)

وَصَلَّی اللہ عَلٰی سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ اَجْمَعِیْن

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!