تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
اللّٰہ کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو
یہ کیوں کہوں مجھ کو یہ عطا ہو یہ عطا ہو
وہ دو کہ ہمیشہ میرے گھر بھر کا بھلا ہو
جس بات میں مشہورِ جہاں ہے لبِ عیسیٰ
اے جانِ جہاں وہ تری ٹھوکر سے ادا ہو
ٹوٹے ہوئے دَم جوش پہ طوفانِ معاصی
دامن نہ ملے ان کا تو کیا جانیے کیا ہو
یوں جھک کے ملے ہم سے کمینوں سے وہ جس کو
اللّٰہ نے اپنے ہی لئے خاص کیا ہو
مٹی نہ ہو برباد پس مرگ الٰہی
جب خاک اُڑے میری مدینہ کی ہوا ہو
منگتا تو ہے منگتا کوئی شاہوں میں دکھا دے
جس کو مِرے سرکار سے ٹکڑا نہ ملا ہو
قدرت نے اَزَل میں یہ لکھا اُن کی جبیں پر
جو اُن کی رضا ہو وہی خالق کی رضا ہو
ہر وقت کرم بندہ نوازی پہ تلا ہے
کچھ کام نہیں اس سے برا ہو کہ بھلا ہو
سو100 جا سے گنہگار کا ہو رختِ عمل چاک
پردہ نہ کھلے گر تِرے دامن سے بندھا ہو
اَبرار نکوکار خدا کے ہیں خدا کے
اُن کا ہے وہ اُن کا ہے جو بد ہو جو برا ہو
اے نفس اُنہیں رَنج دیا اپنی بدی سے
کیا قہر کیا تو نے اَرے تیرا برا ہو
اللّٰہ یوں ہی عمر گزر جائے گدا کی
سر خم ہو دَرِ پاک پر اور ہاتھ اُٹھا ہو
شاباش حسنؔ اَور چمکتی سی غزل پڑھ
دِل کھول کر آئینۂ اِیماں کی جلا ہو