حجِ مبرورکی تعریف:
حجِ مبرورکی تعریف:
علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حج مبرور وہ ہے جس کے بعد گناہ نہ ہو، جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک حاجی سے فرمایا :”اے حاجی! بلا شبہ اللہ عزَّوَجَلَّ حاجی کے عمل پر نور کی مہرلگا دیتاہے،لہٰذا تو اس سے بچ کہ اللہ عزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرکے اس مہر کو توڑ دے۔”
والدین کی طرف سے حج کرو:
حضرتِ سیِّدُنا ابورزین عقیلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی: ”یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! میرے والد بوڑھے ہیں اورحج کی استطاعت نہیں رکھتے ۔”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ” اپنے باپ کی طرف سے حج وعمرہ کرلو۔”
(جامع ا لترمذی ،ابواب الحج ، باب منہ ۸۷، الحدیث۹۳0، ص۱۷۴0)
حج اور عمرہ عورتوں کاجہاد ہے:
ام المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: ”یارسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کیا عورتوں پر بھی جہاد فرض ہے؟”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”ہاں! ان پر ایسا جہاد ہے جس میں لڑنا نہیں(یعنی) حج وعمرہ۔” (سنن ابن ماجۃ، ابواب المناسک ،باب الحج جھاد النساء، الحدیث ۲۹0۱ ،ص ۲۶۵۲)
اے میرے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! تم کیسے حج سے پیچھے رہ جاتے ہوحالانکہ اللہ عزَّوَجَلَّ نے تم پر حج فرض کیا ہے اور تم اس میں رغبت کیوں نہیں رکھتے حالانکہ یہ تمہارے لئے روزِ محشر کا ذخیرہ ہے اور کیونکر اس کا اہتمام نہیں کرتے حالانکہ منقول ہے کہ ”صرف ایک حج کی برکت سے تین افراد جنت میں داخل ہوں گے: (۱)۔۔۔۔۔۔ حج کی وصیت کرنے والا (۲)۔۔۔۔۔۔وصیت پوری کرنے والا اور(۳)۔۔۔۔۔۔مرنے والے کی طرف سے حج کرنے والا۔”