دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
سینہ پہ تسلی کو ترا ہاتھ دَھرا ہو
کیوں اپنی گلی میں وہ روادارِ صدا ہو
جو بھیک لئے راہِ گدا دیکھ رہا ہو
گر وقتِ اَجل سر تری چوکھٹ پہ جھکا ہو
جتنی ہو قضا ایک ہی سجدہ میں ادا ہو
ہمسایۂ رحمت ہے ترا سایۂ دیوار
رُتبہ سے تنزل کرے تو ظِلِّ ہُما ہو
موقوف نہیں صبحِ قیامت ہی پہ یہ عرض
جب آنکھ کھلے سامنے تو جلوہ نما ہو
دے اس کو دَمِ نزع اگر حور بھی ساغر
منہ پھیر لے جو تشنۂ دِیدار ترا ہو
فردوس کے باغوں سے ادھر مل نہیں سکتا
جو کوئی مدینہ کے بیاباں میں گما ہو
دیکھا اُنہیں محشر میں تو رحمت نے پکارا
آزاد ہے جو آپ کے دامن سے بندھا ہو
آتا ہے فقیروں پہ اُنہیں پیار کچھ ایسا
خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتا کا بھلا ہو
وِیراں ہوں جب آباد مکاں صبح قیامت
اُجڑا ہوا دِل آپ کے جلووں سے بسا ہو
ڈھونڈھا ہی کریں صدرِ قیامت کے سپاہی
وہ کس کو ملے جو تِرے دامن میں چھپا ہو
جب دینے کو بھیک آئے سرِ ُکوئے گدایاں
لب پر یہ دعا تھی مرے منگتا کا بھلا ہو
جھک کر اُنہیں ملنا ہے ہر اِک خاک نشیں سے
کس واسطے نیچا نہ وہ دامانِ قبا ہو
تم کو تو غلاموں سے ہے کچھ ایسی محبت
ہے ترکِ اَدَب ورنہ کہیں ہم پہ فدا ہو
دے ڈالیے اپنے لبِ جاں بخش کا صدقہ
اے چارۂ دِل دَردِ حسنؔ کی بھی دوا ہو