دو جہاں میں کوئی تم سا دوسرا ملتا نہیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں مہر و مہ پتا ملتا نہیں
دو جہاں میں کوئی تم سا دوسرا ملتا نہیں
دو جہاں میں کوئی تم سا دوسرا ملتا نہیں
ڈھونڈتے پھرتے ہیں مہر و مہ پتا ملتا نہیں
ہے رگِ گردن سے اَقْرَب نفس کے اندر ہے وہ
یوں گلے سے مل کے بھی ہے وہ جدا ملتا نہیں
آبِ بحرِ عشقِ جاناں سینہ میں ہے موجزن
کون کہتا ہے ہمیں آبِ بقا ملتا نہیں
آبِ تیغِ عشقِ پی کر زندۂ جاوید ہو
غم نہ کر جو چشمۂ آبِ بقا ملتا نہیں
ڈوب تو بحرِ فنا میں پھر بقا پائے گا تو
قبل اَز بحرِ فنا بحرِ بقا ملتا نہیں
دنیا ہے اور اپنا مطلب بے غرض مطلب کوئی
آشنا ملتا نہیں نا آشنا ملتا نہیں
ذَرَّہ ذَرَّہ خاک کا چمکا ہے جس کے نور سے
بے بصیرت ہے جسے وہ مہ لقا ملتا نہیں
ذَرَّہ ذَرَّہ سے عیاں ہے ایسا ظاہر ہو کے بھی
قطرے قطرے میں نہاں ہے برملا ملتا نہیں
جو خدا دیتا ہے ملتا ہے اسی سرکار سے
کچھ کسی کو حق سے اس دَر کے سوا ملتا نہیں
کیا علاقہ دشمنِ محبوب کو اللّٰہ سے
بے رضائے مصطفیٰ ہرگز خدا ملتا نہیں
کوئی مانگے یا نہ مانگے ملنے کا دَر ہے یہی
بے عطائے مصطفائی مدعا ملتا نہیں
رہنماؤں کی سی صورت راہ ماری کام ہے
راہزن ہیں کوبکو اور رہنما ملتا نہیں
اہلے گہلے ہیں مشائخ آج کل ہر ہر گلی
بے ہمہ و باہمہ مردِ خدا ملتا نہیں
ہیں صفائے ظاہری کے سازو ساماں خوب خوب
جس کا باطن صاف ہو وہ باصفا ملتا نہیں
بر زباں تسبیح و در دل گاؤخر کا دور ہے
ایسے ملتے ہیں بہت اس سے وَرا ملتا نہیں
بس یہی سرکار ہے اس سے ہمیشہ پائیں گے
دینے والے دیتے ہیں کچھ دن سدا ملتا نہیں
دور ساحل موج حائل پار بیڑا کیجئے
ناؤ ہے منجدھار میں اور ناخدا ملتا نہیں
وَصلِ مولیٰ چاہتے ہو تو وسیلہ ڈھونڈ لو
بے وسیلہ نجدیو ہرگز خدا ملتا نہیں
دامنِ محبوب چھوڑے مانگے خود اللّٰہ سے
ایسے مردَک کو خدا سے مدعا ملتا نہیں
ذَرَّہ ذَرَّہ قطرہ قطرہ سے عیاں پھر بھی نہاں
ہو کے شہ رگ سے قریں تر ہے جدا ملتا نہیں
طائر جاں کی طرح دِل اُڑ کے جا بیٹھا کہاں
میرے پہلو میں ابھی تھا کیا ہوا ملتا نہیں
دَہریہ اُلجھا ہوا ہے دَہر کے پھندوں میں یوں
سارا اُلجھا سامنے ہے اور سرا ملتا نہیں
علم صانع ہوتا ہے مصنوع سے لیکن اسے
دیکھ کر مصنوع صانع کا پتا ملتا نہیں
نعمتِ کونین دیتے ہیں دوعالم کو یہی
مانگ دیکھو ان سے تم دیکھو تو کیا ملتا نہیں
سب سے پھر کر آئے ہیں اب شاہِ والا کے حضور
جز تمہارے شافعِ روزِ جزا ملتا نہیں
دَرد مندی کے لیے آدم سے تا عیسیٰ گئے
دے جو اپنے دَرد کی حکمی دوا ملتا نہیں
جن سے امیدِ کرم تھی دے دیا سب نے جواب
آج کے کام آنے والا خسروا ملتا نہیں
یاس کا عالم ہے سب سے آس توڑے آئے ہیں
ذاتِ والا کے سوا اور آسرا ملتا نہیں
جل رہے ہیں پھنک رہے ہیں عاشقانِ سوختہ
دھوپ ہے اور سایۂ زُلفِ رَسا ملتا نہیں
وہ ہیں خورشید رسالت نور کا سایہ کہاں
اس سبب سے سایۂ خیر الوریٰ ملتا نہیں
دشمنِ جاں سے کہیں بدتر ہے دشمن دِین کا
ان کے دشمن سے کبھی ان کا گدا ملتا نہیں
قاسم نعمت سے ہم مانگیں تو نجدی یوں بکیں
کیوں نبی سے مانگئے اللّٰہ سے کیا ملتا نہیں
مُصْطَفٰی مَا جَآئَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
چارہ سازِ دَو سرا تیرے سوا ملتا نہیں
خود خدا بے واسطہ دے یہ ہمارا منہ کہاں
واسطہ سرکار ہیں بے واسطہ ملتا نہیں
ہم تو ہم وہ انبیاء کے بھی لیے ہیں واسطہ
ان کو بھی جو ملتا ہے بے واسطہ ملتا نہیں
اَنبیاء بعض اَولیاء فائز ہیں اس سرکار میں
ہر ولی کو راستہ بے واسطہ ملتا نہیں
دونوں عالم پاتے ہیں صدقہ اسی سرکار کا
خود خدا سے پائے جو ان کے سوا ملتا نہیں
زَن زَمین و زَور اور زَر کے ہیں گاہک ہر کہیں
دل سے جو ہو طالب ذِکر خدا ملتا نہیں
چارزا اِک ذال کے بدلے میں لیں چوکس رہے
یہ نہ سمجھے یہ اِکائی سیکڑا ملتا نہیں
دادِ دُنیا کیسا اُف سنتے نہیں فریاد بھی
سننے والا دَرد کا کوئی شہا ملتا نہیں
باپ ماں بھائی بہن فرزَندو زَن اِک اِک جدا
غم زَدہ ہر ایک ہے اور غم زُدہ ملتا نہیں
جو محب کی چیز ہے محبوب کے قبضے کی ہے
ہاتھ میں ہو جس کے سب کچھ اس سے کیا ملتا نہیں
دِل ستانی کرنے والے ہیں ہزاروں دِلربا
دِل نوازی کرنے والا دِلربا ملتا نہیں
دِل گیا اچھا ہوا اس کا نہیں غم غم ہے یہ
لے گیا پہلو سے جو وہ دِلربا ملتا نہیں
محی سنت حامی ملت وہ مجدد دِین کا
پیکر رُشد و ہدیٰ احمد رضا ملتا نہیں
بے نوا کو بے صدا ملتا ہے اس سرکار سے
دودھ بھی بیٹے کو ماں سے بے صدا ملتا نہیں
کس طرح ہو حاضرِ دَر نوریؔٔ بے پر شہا
ناکے روکے دشمنوں نے راستہ ملتا نہیں