راہب کے62 سوالات اور ابو یزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہ، النُّوْرَانِی کے جوابات:
راہب کے62 سوالات اور ابو یزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہ، النُّوْرَانِی کے جوابات:
حضرت سیِّدُنا ابویزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہ، النُّوْرَانِی فرماتے ہیں:”ایک دن میں کسی سفر میں اپنی خلوت وراحت سے لطف پا رہا تھا۔ غوروفکرمیں مشغول اوریادِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے مانوس تھا کہ اچانک میرے دل میں ندا دی گئی:”اے ابو یزید ! سمعان کے گرجا
گھر میں جاؤاورراہبوں کے ساتھ اُن کی عید اور قربانی میں شرکت کرو۔اس میں ایک خبر اور اہم معاملہ ہے۔” فرماتے ہیں:میں نے اس خیال سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ طلب کی اور کہا،” میں اس کی پرواہ نہیں کروں گا۔”جب رات ہوئی تو خواب میں ہاتِفِ غیبی کی آواز آئی۔ اس نے وہی بات دہرائی۔ میں ہانپتے کانپتے بیدار ہوکر اٹھ بیٹھا اورابھی اسی سوچ میں گم تھا کہ دل میں پھر نداآئی”تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں،تم ہمارے ولی و نیک بندے ہو، تمہارا نام فرمانبرداروں کے رجسٹر میں درج ہے۔ لیکن ہماری خاطر راہبوں کا سا لباس اور زُنّار پہن لو، تم پر کوئی گناہ نہیں۔”آپ فرماتے ہیں:”میں صبح سویرے اٹھا اور حکم کی بجاآوری میں جلدی کی۔ راہبوں کاسالباس پہنا اور سمعان کے گرجا گھرپہنچ گیا۔ جب ان کا بڑا پادری آیا تو تمام راہب اکٹھے ہوگئے اوراس کو سننے کے لئے سب نے کان لگادئیے لیکن اس کے پاؤں لڑکھڑاگئے اور وہ کوئی بات نہ کر سکا گویا اس کے منہ میں لگام دے دی گئی ہو۔ یہ کیفیت دیکھ کرپادریوں اور راہبوں نے اس سے پوچھا:”اے سردار!کون سی چیز آپ کو گفتگو سے مانع ہے؟ ہم تو آپ کی باتوں سے ہدایت پاتے اور آپ کے علم کی پیروی کرتے ہیں۔” اس نے جواب دیا: ”مجھے یہ چیز گفتگوسے مانع ہے کہ آج تمہارے درمیان کوئی محمدی بیٹھا ہے اور وہ تمہارے دین کاامتحان لینے اور تم پرحملہ کرنے آیا ہے ۔” انہوں نے کہا: ”ہمیں دکھادیں ہم اسے ابھی قتل کردیتے ہیں۔”اس نے کہا:”اسے دلیل و برہان کے ساتھ قتل کرو،میں اس سے امتحان لینا چاہتا ہوں، اس سےعِلْمُ الاَدْیَان(یعنی دینوں کے علم) کے متعلق سوالات کروں گا،اگر اس نے صاف صاف جوابات دے دئیے تو ہم اسے کچھ نہ کہیں گے اور اگر وضاحت نہ کرسکا تو اسے قتل کر دیں گے۔ امتحان کے وقت ہی آدمی عزت پاتا یا ذلیل ہوتا ہے۔”
سب راہب بولے:” آپ جوچاہتے ہیں کریں، ہم یہاں مفید باتیں سیکھنے کے لئے ہی حاضر ہوئے ہیں۔” اب ان کا بڑا سردار کھڑا ہوا اور زور سے آواز دی:” اے محمدی ! تجھے محمد (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) کا واسطہ! جہاں بھی ہے کھڑا ہو جا تا کہ سب تجھے دیکھ لیں۔” حضرت سیِّدُناابویزید علیہ رحمۃ اللہ المجیداس طرح کھڑے ہوئے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبان پر حمد و ثناء اور ذکر ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ جاری تھا۔” پادریوں کے سردار نے کہا : ”اے محمدی!میں تجھ سے کچھ سوالات کروں گااورسُن!اگر تو نے ان کے جوابات وضاحت کے ساتھ دے دئیے تو ہم تیری پیروی کریں گے ورنہ تجھے قتل کر دیں گے۔”
حضرت سیِّدُنا ابویزید علیہ رحمۃ اللہ المجید نے ارشاد فرمایا: ”نقلی وعقلی علوم میں سے جو چاہو پوچھو، اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری گفتگو کو ملاحظہ فرمارہاہے ۔” بڑے پادری نے پوچھا: (1)۔۔۔۔۔۔ مجھے اُس ایک کے متعلق بتاؤ جس کا دوسرا نہیں(2)۔۔۔۔۔۔اُن دوکے متعلق بتاؤ جن کا تیسرا نہیں(3)۔۔۔۔۔۔ان تین کے متعلق بتاؤجن کا چوتھا نہیں (4)۔۔۔۔۔۔ان چار کے متعلق بتاؤ جن کا پانچواں نہیں (5)۔۔۔۔۔۔ان پانچ کے متعلق بتاؤ جن کا چھٹا نہیں(6)۔۔۔۔۔۔ان چھ کے متعلق بتاؤ جن کا ساتواں نہیں(7)۔۔۔۔۔۔ان سات کے متعلق بتاؤ جن کا آٹھواں نہیں(8)۔۔۔۔۔۔ان آٹھ کے متعلق بتاؤ جن کانواں نہیں(9)۔۔۔۔۔۔ان نو کے متعلق بتاؤ جن کا
دسواں نہیں(10)۔۔۔۔۔۔ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ (یعنی مکمل دس دن) سے مراد کون سے دن ہیں؟(11)۔۔۔۔۔۔اُن گیارہ کے متعلق بتاؤ جن کا بارہواں نہیں (12)۔۔۔۔۔۔اُن بارہ کے متعلق بتاؤ جن کاتیرہواں نہیں(13)۔۔۔۔۔۔ان تیرہ کے متعلق بتاؤ جن کا چودہواں نہیں (14)۔۔۔۔۔۔ایسی قوم کے متعلق بتاؤ جنہوں نے جھوٹ بولاپھر بھی جنت میں داخل کر دئیے گئے (15)۔۔۔۔۔۔اس قوم کے متعلق بتاؤجنہوں نے سچ بولامگر آگ میں داخل کردئیے گئے(16)۔۔۔۔۔۔ تمہارے جسم میں تمہارے نام کا ٹھکانہ کہاں ہے؟ (17)۔۔۔۔۔۔اَلذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا (18)۔۔۔۔۔۔اَلْحٰمِلٰتِ وِقْرًا(19)۔۔۔۔۔۔اَلْجٰرِیٰتِ یُسْرًا اور (20)۔۔۔۔۔۔ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا سے کیا مراد ہے؟ (پ۲۶، الذّٰریٰت: ۱تا۴) (21)۔۔۔۔۔۔کون سی شئے بغیر روح کے سانس لیتی ہے؟ (22) ۔۔۔۔۔۔ ان چودہ کے متعلق بتاؤ جنہوں نے ربُّ العلمین جَلَّ جَلَالُہٗسے کلام کیا؟(23)۔۔۔۔۔۔کون سی قبر صاحب ِ قبرکو لے کر چلی؟ (24)۔۔۔۔۔۔ وہ کون سا پانی ہے جو آسمان سے اُترا نہ زمین سے نکلا؟ (25)۔۔۔۔۔۔ان چار کے نام بتاؤ جوباپ کی پشت سے پیدا ہوئے، نہ ماں کے بطن سے؟ (26)۔۔۔۔۔۔زمین پر سب سے پہلا خون کس کا بہایا گیا؟(27)۔۔۔۔۔۔ اس شئے کے متعلق بتاؤ جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے پیدا کیا او ر پھر خود ہی خرید لیا؟ (28)۔۔۔۔۔۔ایسی شئے کے متعلق بتاؤ جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے پیدا کیا اور خود ہی ناپسند فرمایا؟ (29)۔۔۔۔۔۔اس چیز کے متعلق بتاؤ جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے پیدا کیا اور عظمت بھی بخشی؟ (30)۔۔۔۔۔۔اس چیز کے متعلق بتاؤ جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے پیدا کیا اور پھر خود ہی اس کے متعلق سوال کیا؟ (31)۔۔۔۔۔۔سب سے افضل عورتیں کون ہیں؟ (32)۔۔۔۔۔۔سب سے افضل دریا کون سے ہیں؟ (33)۔۔۔۔۔۔ افضل ترین پہاڑ کون سا ہے؟ (34)۔۔۔۔۔۔ سب سے افضل چوپایہ کون سا ہے ؟ (35)۔۔۔۔۔۔ افضل ترین مہینہ کون ساہے؟ (36)۔۔۔۔۔۔سب سے افضل رات کون سی ہے؟ (37)۔۔۔۔۔۔ ”اَلطَّامَّۃُ” سے کیا مرادہے؟ (38)۔۔۔۔۔۔وہ کون سا درخت ہے جس کی بارہ شاخیں ہیں، ہر شاخ پر تیس(30) پتے ہیں اور ہر پتے میں پانچ رنگ ہیں،دوسورج کی روشنی میں اور تین سائے میں؟ (39)۔۔۔۔۔۔وہ کون سی چیز ہے جس نے بیت الحرام کا حج کیا اور طواف کیا حالانکہ اس میں روح نہیں اور نہ ہی اس پر حج فرض تھا؟ (40)۔۔۔۔۔۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کتنے نبی پیدا فرمائے ؟ (41)۔۔۔۔۔۔ان میں سے کتنے مُرسَل اور کتنے غیر مرسل ہیں؟ (42)۔۔۔۔۔۔وہ کون سی چار چیزیں ہیں جن کا رنگ اور ذائقہ مختلف ہے مگر اصل ایک ہے؟ (43)۔۔۔۔۔۔نَقِیْر کیا ہے؟ (44)۔۔۔۔۔۔قِطْمِیْر کیا ہے؟ (45)۔۔۔۔۔۔ فَتِیْلکیا ہے؟ (46)۔۔۔۔۔۔اَلسَّبَد کیا ہے ؟ (47)۔۔۔۔۔۔ اَللَّبَد کیا ہے؟ (48)۔۔۔۔۔۔اَلطِّمّ کیا ہے؟ (49)۔۔۔۔۔۔اَلرِّمّ کیا ہے ؟ (50)۔۔۔۔۔۔ کتا بھونکنے میں کیا کہتاہے؟ (51)۔۔۔۔۔۔ گدھارَینکنے میں کیا کہتا ہے؟ (52)۔۔۔۔۔۔ بیل ڈکرانے میں کیا کہتا ہے؟ (53)۔۔۔۔۔۔ گھوڑا ہنہنانے میں کیا کہتاہے؟ (54)۔۔۔۔۔۔اونٹ بِلبِلانے میں کیا کہتا ہے؟(55)۔۔۔۔۔۔مور اپنی چیخ و پکار میں کیا کہتا ہے؟ (56)۔۔۔۔۔۔تیتر اپنی سیٹی میں کیا کہتا ہے؟ (57)۔۔۔۔۔۔بلبل اپنے نغموں میں کیا کہتا ہے؟ (58)۔۔۔۔۔۔
مینڈک اپنی تسبیح میں کیا کہتا ہے؟ (59)۔۔۔۔۔۔ ناقوس (نصارٰی کا گھنٹہ جسے وہ اپنی عبادت کے وقت بجاتے ہیں) اپنی آواز میں کیا کہتا ہے؟ (60)۔۔۔۔۔۔ایسی مخلوق کے متعلق بتاؤجنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے الہام فرمایا وہ جِنّوں میں سے ہے ،نہ انسانوں میں سے اور نہ ہی فرشتوں میں سے؟ (61)۔۔۔۔۔۔ جب دن نکلتاہے تورات کہاں چلی جاتی ہے اور (62)۔۔۔۔۔۔ جب رات چھا جاتی ہے تو دن کہاں چلا جاتا ہے ؟”
حضرت سیِّدُناابویزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہ، النُّوْرَانِی نے پوچھا :”کیاان کے علاوہ بھی کوئی سوال ہے ؟” تو سب پادریوں نے کہا: ”نہیں ۔” تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:” اگر میں نے ان کے جوابات صحیح طور پر دے دئیے تو کیا تم اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر ایمان لے آؤ گے؟” سب نے کہا:”جی ہاں۔”تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی :”یااللہ عَزَّوَجَلَّ!تو ان کی باتوں پر گواہ ہے۔”پھر فرمایا: ”اب اپنے سوالات کے جوابات سنتے جاؤ: (1)۔۔۔۔۔۔ وہ ایک جس کا دوسرا نہیں تو وہ اللہ واحد قہار ہے(2)۔۔۔۔۔۔ وہ دوجن کا تیسرانہیں تو وہ دن اور رات ہیں۔ جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:” وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ اٰیَتَیْنِ (پ۱۵،بنی اسرائیل:۱۲)ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے رات اور دن کو دونشانیاں بنایا۔”(3)۔۔۔۔۔۔وہ تین جن کا چوتھانہیں تو وہ عرش، کرسی اور قلم ہیں(4)۔۔۔۔۔۔وہ چارجن کا پانچواں نہیں تو وہ آسمانی کتابیں” تورات،انجیل ،زبور اور قرآنِ پاک” ہیں(5)۔۔۔۔۔۔وہ پانچ جن کا چھٹا نہیں تو وہ پانچ نمازیں ہیں جو ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہیں(6)۔۔۔۔۔۔وہ چھ جن کا ساتواں نہیں تو وہ چھ دن ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ان کا ذکر قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:” وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ (پ۲۶،ق:۳۸) ترجمۂ کنزالایمان:اور بے شک ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا۔” (7)۔۔۔۔۔۔وہ سات جن کا آٹھواں نہیں تو وہ سات آسمان ہیں۔ چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:” سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ (پ۲۹،الملک:۳) ترجمۂ کنزالایمان:سات آسمان ایک کے اوپر دوسرا۔” (8)۔۔۔۔۔۔وہ آٹھ جن کا نواں نہیں تو وہ عرش اٹھانے والے آٹھ فرشتے ہیں۔جیساکہ قرآنِ پاک میں ہے : ” وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ ﴿ؕ۱۷﴾ (پ۲۹،الحاقہ:۱۷)ترجمۂ کنزالایمان:اور اس دن تمہارے رب کا عرش اپنے اوپر آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔”(۱) (9)۔۔۔۔۔۔وہ نوجن کادسواں نہیں تو وہ نو افراد کی جماعت تھی جو فساد برپا کرنے والے تھے۔ چنانچہ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ” وَکَانَ فِی الْمَدِیۡنَۃِ تِسْعَۃُ رَہۡطٍ یُّفْسِدُوۡنَ فِی الْاَرْضِ وَ لَا یُصْلِحُوۡنَ ﴿۴۸﴾ (پ۱۹،النمل:۴۸)ترجمۂ کنزالایمان:اور شہر میں نو شخص تھے کہ
زمین میں فساد کرتے اور سنوارنہ چاہتے۔” (پ۱۹،النمل:۴۸) (10)۔۔۔۔۔۔ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ (یعنی مکمل دس دن) سے مراد وہ دس دن ہیں جن میں حجِ تمتُّع کرنے والا ہَدِی کا جانور نہ پانے کی صورت میں روزے رکھتاہے۔ چنانچہ، رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ؕ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ؕ ترجمۂ کنزالایمان: تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اورسات جب اپنے گھر پلٹ کر جاؤ یہ پورے دس ہوئے۔ (11)(پ۲،البقرہ:۱۹۶) ۔۔۔۔۔۔وہ گیارہ جن کا بارہواں نہیں تو وہ حضرت سیِّدُنا یوسف علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃو السلام کے بھائی ہیں ۔ چنانچہ، اللہ تعالیٰ حضرت سیِّدُنا یوسف علیہ السلام کا قول حکایت کرتے ہوئے ارشادفرماتا ہے: ”اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَکَوْکَبًا ترجمۂ کنزالایمان: میں نے گیارہ تارے دیکھے۔” (۱) (12) (پ۱۲، یوسف: ۴) ۔۔۔۔۔۔وہ بارہ جن کا تیرہواں نہیں تو وہ مہینوں کی تعداد ہے۔ چنانچہ،رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”اِنَّ عِدَّۃَ ا لشُّھُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ ترجمۂ کنز الایمان: بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہے اللہ کی کتاب میں۔” (13) (پ۱0، التوبۃ:۳۶) ۔۔۔۔۔۔وہ تیرہ جن کا چودہواں نہیں تو وہ حضر ت سیِّدُنا یوسف علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کا خواب ہے۔ جیسا کہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
” اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَ عَشَرَکَوْکَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیۡتُہُمْ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ ﴿۴﴾ ترجمۂ کنزالایمان: میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے دیکھا۔(14)(پ۱۲،یوسف:۴) ۔۔۔۔۔۔وہ قوم جنہوں نے جھوٹ بولا پھر بھی جنت میں داخل کر دئیے گئے تو وہ حضرت سیِّدُنا یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بھائی ہیں۔ جیسا کہ ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”قَالُوۡا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَہَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوۡسُفَ عِنۡدَ مَتَاعِنَا فَاَکَلَہُ الذِّئْبُ ۚ ترجمۂ کنزالایمان:بولے اے ہمارے باپ! ہم دوڑ کرتے نکل گئے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑا تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔”(پ۱۲،یوسف:۱۷) انہوں نے جھوٹ بولا پھر بھی جنت میں داخل کر دئیے گئے۔ (15)۔۔۔۔۔۔وہ قوم جنہوں نے سچ بولالیکن جہنم میں داخل کر دئیے گئے تو وہ یہودونصاریٰ ہیں۔ اور وہ ان کا یہ قول ہے: ”وَقَالَتِ الْیَہُوۡدُ لَیۡسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیۡءٍ ۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیۡسَتِ الْیَہُوۡدُ عَلٰی شَیۡءٍ ۙ ترجمۂ کنزالایمان:اور یہود ی بولے نصرانی کچھ نہیں اور نصرانی
بولے یہودی کچھ نہیں۔” (۱)(پ۱،البقرۃ:۱۱۳) انہوں نے سچ کہا لیکن جہنم میں داخل کر دئیے گئے۔ (16)۔۔۔۔۔۔تمہارے جسم میں تمہارے نام کا ٹھکانہ کان ہیں (یعنی جب کوئی نام بولاجاتا ہے توکان ہی سنتے ہے) (17)۔۔۔۔۔۔ ” وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا ” (یعنی بکھیر کر اڑانے والیاں) سے مراد چار ہوائیں ہیں۔(۲) (18)۔۔۔۔۔۔ ” اَلْحٰمِلٰتِ وِقْرًا ”سے مراد بادل ہیں۔ جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : ” وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرْضِ (پ۲،البقرۃ:۱۶۴)ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کا باند ھا ہے۔”
(19) ۔۔۔۔۔۔ اَلْجٰرِیٰتِ یُسْرًا (یعنی نرم چلنے والیاں) سے مراد دریا میں چلنے والی کشتیاں ہیں (20)۔۔۔۔۔۔ ” فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا ”سے مراد ملائکہ ہیں جو لوگوں کا رزق پندرہ شعبان سے دوسرے سال پندرہ شعبان تک تقسیم کرتے ہیں(21)۔۔۔۔۔۔جن چودہ نے ربُ العٰلمین عَزَّوَجَلَّ سے کلام کیاتو وہ سات آسمان اور سات زمینیں ہیں۔چنانچہ ، ربّ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:” فَقَالَ لَہَا وَ لِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ ﴿۱۱﴾ (پ۲۴،حٰمۤ السجدہ:۱۱) ترجمۂ کنز الایمان:تو اس(آسمان) سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں حاضر ہو خوشی سے چاہے ناخوشی سے ،دونوں نے عرض کی کہ ہم رغبت کے ساتھ حاضر ہوئے۔” (22)۔۔۔۔۔۔وہ قبر جو صاحبِ قبر کو ساتھ لے کر چلی تو وہ حضرت سیِّدُنا یونس علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام کی مچھلی ہے (23)۔۔۔۔۔۔جو چیز بلاروح ہے مگر سانس لیتی ہے تو وہ صبح ہے ۔ جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :” وَ الصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ ﴿ۙ۱۸﴾ (پ۳0، التکویر: ۱۸)ترجمۂ کنز الایمان: اور صبح کی جب دم لے۔” (24)۔۔۔۔۔۔وہ پانی جو آسمان سے اُترا، نہ زمین سے نکلا تو وہ گھوڑوں کا پسینہ ہے جس کو شیشے کی بوتل میں بھر کر ملکۂ بلقیس نے حضرت سیِّدُنا سلیمان بن داؤدعلیہما الصلٰوۃو السّلام کو بھیجا تھا (25)۔۔۔۔۔۔ وہ چار نفوس جو باپ کی پشت سے پیدا ہوئے، نہ ماں
کے بطن سے تو وہ حضرت سیِّدُنا آدم علیہ السلام ، حضرت سیِّدَتُنا حوا رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت سیِّدُنا اسماعیل علیہ السلام کا مینڈھا اور حضرت سیِّدُناصالح علیہ السلام کی اونٹنی ہیں (26)۔۔۔۔۔۔ زمین پر سب سے پہلا خون ہابیل کا بہایا گیا جب قابیل نے اسے قتل کیا (27)۔۔۔۔۔۔ایسی چیز جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے پیدا کیا پھر خرید لیا تو وہ مؤمن کی جان ہے۔ جیسا کہ وہ خود ارشاد فرماتا ہے : ” اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ (پ۱۱، التوبۃ:۱۱۱)ترجمۂ کنزالایمان:بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خرید لئے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لئے جنت ہے۔”(۱) (28)۔۔۔۔۔۔ایسی شئے جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے پیدا کیا اور ناپسند کیا تو وہ گدھے کی آواز ہے۔ جیسا کہ وہ خود ارشاد فرماتا ہے :” اِنَّ اَنۡکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیۡرِ ﴿٪۱۹﴾ (پ۲۱،لقمان:۱۹) ترجمۂ کنزالایمان:بے شک سب آوازوں میں بری آواز،آواز گدھے کی۔”(۲) (29)۔۔۔۔۔۔ایسی چیز جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے پیدا کیا اوراسے بڑاکہا تو وہ عورتوں کا مکر ہے۔ چنانچہ، ارشاد فرمایا :” اِنَّ کَیۡدَکُنَّ عَظِیۡمٌ ﴿۲۸﴾ (پ۱۲، یوسف: ۲۸)ترجمۂ کنزالایمان:بے شک تمہارا چرتّر (فريب) بڑا ہے۔” (30)۔۔۔۔۔۔وہ چیز جسےاللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا پھر اس کے متعلق سوال کیا تو وہ حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلامکا عصا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ پاک فرماتا ہے: ” وَمَا تِلْکَ بِیَمِیۡنِکَ یٰمُوۡسٰی ﴿۱۷﴾قَالَ ہِیَ عَصَایَ ۚ اَتَوَکَّؤُا عَلَیۡہَا وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیۡ وَلِیَ فِیۡہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰی ﴿۱۸﴾ (پ۱۶،طٰہ: ۱۷۔۱۸)ترجمۂ کنزالایمان:اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیاہے اے موسیٰ! عرض کی یہ میرا عصا ہے، میں اس پر تکیہ لگاتاہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں۔”(۳) (31)۔۔۔۔۔۔ سب سے افضل عورتیں اُمُّ البشر حضر ت سیِّدَتُنا
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ” حدیث شریف میں ہے کہ حاملینِ عرش آج کل چار ہیں، روزِ قیامت اُن کی تائید کیلئے چار کا اور اضافہ کیا جائے گا آٹھ ہوجائیں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اس سے ملائکہ کی آٹھ صفیں مراد ہیں، جن کی تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانے۔”
حواء رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،حضرت سیِّدَتُناخدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، حضرت سیِّدَتُنا آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااورحضرت سیِّدَتُنامریم بنت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں (32)۔۔۔۔۔۔سب سے افضل دریا سیحون ،جیحون ،دجلہ ، فرات اور مصر کا دریائے نیل ہیں (33)۔۔۔۔۔۔سب سے افضل پہاڑ طور ہے (34)۔۔۔۔۔۔سب سے افضل چوپایہ گھوڑا ہے (35) ۔۔۔۔۔۔ سب سے افضل مہینہ ماہِ رمضان المبارک ہے۔ جیساکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :” شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ (پ۲، البقرۃ:۱۸۵)ترجمۂ کنز الایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآ ن اُترا۔” (36)۔۔۔۔۔۔سب سے افضل رات شبِ قَدْر ہے۔ چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ” لَیۡلَۃُ الْقَدْرِ ۬ۙ خَیۡرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾ (پ۳0، القدر:۳)ترجمۂ کنزالایمان: شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر۔” (37)۔۔۔۔۔۔”اَلطَّامَّۃ”سے مراد قیامت ہے (38)۔۔۔۔۔۔ وہ درخت جس کی بارہ(12)شاخیں ہیں، ہر شاخ میں تیس (30) پتے،ہر پتے میں پانچ رنگ، دو سورج کی روشنی میں اور تین سائے میں ، تو و ہ درخت سال ہے ، بارہ مہینے اس کی بارہ شاخیں ہیں، تیس پتے تیس دن ہیں اورپانچ رنگ پانچ نمازیں ہیں،تین سائے میں یعنی مغرب، عشاء اور فجر ،دو روشنی میں یعنی ظہر اور عصر (39)۔۔۔۔۔۔ وہ ایسی چیز جس میں روح نہیں اور نہ ہی اس پر حج واجب تھا پھر بھی اس نے کعبۂ مبارکہ کا طواف کیا تو وہ حضرت سیِّدُنا نوح نجی اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کشتی ہے (40)۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار (1,24,000) انبیاء پیدا فرمائے (41)۔۔۔۔۔۔ ان میں سے تین سو تیرہ (313) رسول ہیں (42)۔۔۔۔۔۔چار اشیاء جن کا ذائقہ اور رنگ مختلف ہے مگر اصل ایک ہے تو وہ آنکھ ،ناک، منہ اور کان ہے۔آنکھ کا پانی نمکین، منہ کا پانی میٹھا، ناک کا پانی ترش اور کان کا پانی کڑوا ہوتا ہے (43)۔۔۔۔۔۔نَقِیْر ایک جھلی ہے جو گٹھلی کے اوپر ہوتی ہے (44)۔۔۔۔۔۔قِطْمِیْر انڈے کے چِھلکے کو کہتے ہیں (45)۔۔۔۔۔۔ فَتِیْل سے مراد گٹھلی کے اندر کاگُودا ہے (46)۔۔۔۔۔۔ اَلسَّبَد او ر(47)۔۔۔۔۔۔ اَللَّبَد بھیڑ اور بکری کے بالوں کو کہتے ہیں۔ (48)۔۔۔۔۔۔اَلطِّمّ اور (49)۔۔۔۔۔۔اَلرِّمّ ہمارے باپ حضرت سیِّدُنا آدم صفی اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ و السلام سے پہلے کی جنات قومیں ہیں (50) ۔۔۔۔۔۔گدھا جب شیطا ن کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ(ناجائز) ٹیکس لینے والے پر لعنت فرمائے۔” (51)۔۔۔۔۔۔کتا اپنے بھونکنے میں کہتا ہے،” وَیْلٌ لِاَھْلِ النَّارِ مِنْ غَضَبِ الجَبَّارِ یعنی دوزخیوں کے لئے ہلاکت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں ہیں۔” (52)۔۔۔۔۔۔ بیل اپنے ڈکرانے میں کہتا ہے : ”سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ۔” (53)۔۔۔۔۔۔ گھوڑا اپنے ہنہنانے میں کہتا ہے: ”پاک ہے میری حفاظت فرمانے والا جب جنگجو لڑتے ہیں اور مردانِ کار لڑا ئی میں مصروف ہوتے ہیں۔” (54)۔۔۔۔۔۔ اونٹ اپنے بلبلانے میں کہتا ہے: ” حَسْبِیَ اللہُ وَکَفٰی بِہٖ وَکِیْلًا یعنی میرے لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کافی اوروہی میراکارساز ہے۔” (55)۔۔۔۔۔۔ مور اپنی چیخ وپکار میں کہتا ہے: ” اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی ﴿۵﴾ (پ۱۶، طٰہٰ: ۵) ترجمۂ کنز الایمان: وہ بڑی مہروالا اس نے عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔” (56)۔۔۔۔۔۔ تیتر اپنی سیٹی میں کہتا ہے، ” بِالشُّکْرِ تَدُوْمُ النِّعَمُ
یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر ادا کرنے سے نعمتیں ہمیشہ رہتی ہیں۔” (57)۔۔۔۔۔۔ بلبل اپنے نغموں میں یوں گویا ہوتا ہے:” فَسُبْحٰنَ اللہِ حِیۡنَ تُمْسُوۡنَ وَ حِیۡنَ تُصْبِحُوۡنَ ﴿۱۷﴾ (پ۲۱،الروم:۱۷) ترجمۂ کنزالایمان: تو اللہ کی پاکی بولو جب شام کرواور جب صبح ہو۔” (۱) (58)۔۔۔۔۔۔ مینڈک اپنی تسبیح میں کہتاہے: ” سُبْحَانَ الْمَعْبُوْدِ فِی الْبَرَارِیْ وَالْقِفَارِ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْجَبَّارِ یعنی پاک ہے جنگلوں اور چٹیل میدانوں میں عظیم معبود، پاک ہے خدائے جبّار۔” (59)۔۔۔۔۔۔ نا قوس اپنی آواز میں کہتا ہے:”اللہ عَزَّوَجَلَّ پاک ہے،وہ حق ہے، اے ابن آدم!اس دنیا کے مشرق و مغرب میں دیکھ! کسی کو ہمیشہ باقی رہنے والا نہ پائے گا۔”(60)۔۔۔۔۔۔ ایسی مخلوق جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے الہام فرمایا، وہ جنوں میں سے ہے، نہ انسانوں میں سے اورنہ ہی ملائکہ میں سے تو وہ شہد کی مکھی ہے۔چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: ” وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوۡنَ ﴿ۙ۶۸﴾ (پ۱۴ ، النحل :۶۸) ترجمۂ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو اِلہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنااوردرختوں اور چھتوں میں۔” (61)۔۔۔۔۔۔ جب دن آتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے؟ اور (62)۔۔۔۔۔۔ جب رات چھا جاتی ہے تودن کہاں چلاجاتاہے ؟ یہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پوشیدہ علم میں ہے، کسی نبی یا مقرّب فرشتے پر بھی ظاہر نہیں۔
مذکورہ تمام جوابات دینے کے بعدحضرت سیِّدُنا ابویزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہ، النُّوْرَانِی نے پوچھا:”کیاتمہارا کوئی سوال باقی ہے؟” انہوں نے کہا : ”نہیں۔” تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بڑے پادری سے فرمایا:بتاؤ” آسمانوں اور جنت کی چابی کیا ہے؟” ان کابڑا پادری خاموش رہا تو سب نے اسے کہا:”آپ نے اتنے سوال پوچھے اور انہوں نے سب کے جواب دئيے ،اب انہوں نے ایک ہی سوال کیا اور آپ جواب دینے سے عاجز آگئے۔” پادری نے کہا:”میں عاجز نہیں آیالیکن مجھے ڈر ہے کہ میں جواب دوں گا تو تم تسلیم نہیں کرو گے۔”انہوں نے کہا:”کیوں نہیں، ہم مانیں گے، کیونکہ آپ ہمارے بزرگ ہیں،آپ جو بھی فرمائیں گے ہم سرِ تسلیم خم کریں گے۔” تو بڑے پادری نے کہا:”آسمانوں اور جنت کی چابی کلمۂ طیبہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ” ہے۔” جب دیگر پادریوں اور راہبوں نے سنا تو وہ سب کے سب مسلمان ہو گئے۔انہوں نے گرجا گھر توڑ کر اسے مسجد میں تبدیل کر دیاور اپنے اپنے زنار بھی تو ڑ دئیے۔ حضرت سیِّدُنا ابویزید بسطامی قُدِّسَ سِرُّہ، النُّوْرَانِی کو غیب سے آواز آئی :”اے ابو یزید !تو نے ہمارے لئے ایک زنّار باندھا توہم نے تیری خاطر پانچ سو زنار توڑ دئیے۔”
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ” حضرت یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خواب دیکھا کہ آسمان سے گیارہ ستارے اُترے اور ان کے ساتھ سورج اور چاند بھی ہیں، ان سب نے آپ کو سجدہ کیا۔ یہ خواب شب ِ جمعہ کو دیکھا، یہ رات شبِ قدر تھی۔ ستاروں کی تعبیرآپ کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج آپ کے والد اور چاند آپ کی والدہ یا خالہ۔ آپ کی والدۂ ماجدہ کا نام راحیل ہے۔ سدی کا قول ہے کہ چونکہ راحیل کا انتقال ہوچکا تھا اس لئے قمر سے آپ کی خالہ مراد ہیں اور سجدہ کرنے سے تواضع کرنا اور مطیع ہونا مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ حقیقتاً سجدہ مراد ہے کیونکہ اس زمانہ میں سلام کی طرح سجدۂ تحیّت تھا۔حضرت یوسف علیہ السلام کی عمرشریف اس وقت بارہ سال کی تھی اور سات اور سترہ کے قول بھی آئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت تھی۔اس لئے ان کے ساتھ ان کے بھائی حسد کرتے تھے اور حضرت یعقوب علیہ السلام اس پر مطلع تھے اس لئے جب حضرت یوسف علیہ السلامنے یہ خواب دیکھا تو حضرت یعقوب علیہ ا لسلام نے کہا:اے میرے بچے! اپنا خواب اپنے بھائیوں سے نہ کہنا۔”
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ” شانِ نزول: نجران کے نصاریٰ کا وفد سید عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت میں آیا تو علمائے یہود آئے اور دونوں میں مناظرہ شروع ہوگیا۔ آوازیں بلند ہوئیں، شور مچا۔ یہود نے کہا کہ نصاریٰ کا دین کچھ نہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انجیل شریف کا انکار کیا۔ اسی طرح نصاریٰ نے یہود سے کہا کہ تمہارا دین کچھ نہیں اور توریت شریف و حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا۔ اس باب میں یہ آیت نازل ہوئی ۔”
2 ۔۔۔۔۔۔ان چار ہواؤں کے نام یہ ہیں :(1)۔۔۔۔۔۔پُروَا یعنی مشرق سے مغرب کی طرف چلنے والی ہوا(2)۔۔۔۔۔۔پَچْھوَا یعنی مغرب سے مشرق کی طرف چلنے والی ہوا (3)۔۔۔۔۔۔جنوبی یعنی جنوب سے شمال کی طرف چلنے والی ہوا اور(4)۔۔۔۔۔۔شمالی یعنی شمال سے جنوب کی طرف چلنے والی ہوا۔ نیز حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، ”ہوائیں آٹھ قسم کی ہیں۔ ان میں چار باعث ِ رحمت ہیں:(۱)۔۔۔۔۔۔اَلنَّاشِرَات:بادلوں کو اٹھانے اور اڑانے والی ہوائیں (۲)۔۔۔۔۔۔اَلْمُبَشِّرَات:بارش کی خبر دینے والی ہوائیں (۳)۔۔۔۔۔۔اَلذّٰرِیَات:خاک وغیرہ اڑانے والی ہوائیں اور (۴)۔۔۔۔۔۔اَلْمُرْسَلَات:مسلسل چلنے والی ہوائیں۔ اور چار باعث زحمت ہیں: (۱)۔۔۔۔۔۔اَلْعَاصِفَات:تیز ہوائیں آندھیاں(۲)۔۔۔۔۔۔اَلْقَاصِب:زوردار گرج والی ہوائیں،یہ دونوں تری میں چلتی ہیں (۳)اَلصَّرْصَر:انتہائی سرد برفیلی ہوائیں یا شدیدآواز والی ہوائیں اور (۴)۔۔۔۔۔۔اَلْعَقِیْم:بے بارش ہوا۔ آخری دونوں ہوائیں خشکی میں چلتی ہیں۔”
(الموسوعۃ لابن ابی الدنیا ،کتاب المطر والرعد والبرق والریح ،باب فی الریح ،الحدیث:۱۷۴،ج۸،ص۴۵۱)
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”راہِ خدا میں جان و مال خرچ کرکے جنت پانے والے ایمان داروں کی ایک تمثیل ہے جس سے کمالِ لطف و کرم کا اظہار ہوتا ہے کہ پروردگارِ عالم نے انہیں جنّت عطا فرمانا اُن کے جان و مال کا عوض قرار دیا اور اپنے آپ کو خریدا ر فرمایا۔ یہ کمال عزّت افزائی ہے کہ و ہ ہمارا خریدار بنے اور ہم سے خریدے کس چیز کو جو نہ ہماری بنائی ہوئی نہ ہماری پیدا کی ہوئی۔ جان ہے تو اس کی پیدا کی ہوئی، مال ہے تو اس کا عطا فرمایا ہوا۔ شانِ نزول: جب انصار نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم سے شب ِعقبہ بیعت کی تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ! اپنے رب کے لئے اور اپنے لئے کچھ شرط فرمالیجئے جو آپ چاہیں۔ فرمایا: میں اپنے رب کے لئے تو یہ شرط کرتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے لئے یہ کہ جن چیزوں سے تم اپنے جان و مال کو بچاتے اور محفوظ رکھتے ہو اس کو میرے لئے بھی گوارا نہ کرو۔” انہوں نے عرض کیا کہ ” ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟” فرمایا: ” جنّت۔”
2۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ” مدعا یہ ہے کہ شور مچانا اور آواز بلند کرنا مکروہ و ناپسندیدہ ہے اور اس میں کچھ فضیلت نہیں ہے گدھے کی آواز باوجود بلند ہونے کے مکروہ اور وحشت انگیز ہے نبئ کریم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کو نرم آواز سے کلام کرنا پسند تھا اور سخت آواز سے بولنے کو ناپسند رکھتے تھے ۔ ”
3۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”اس سوال کی حکمت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے عصا کو دیکھ لیں اور یہ بات قلب میں خوب راسخ ہوجائے کہ یہ عصا ہے تاکہ جس وقت وہ سانپ کی شکل میں ہو تو آپ کی خاطر مبارک پر کوئی پریشانی نہ ہو یا یہ حکمت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مانوس کیا جائے تاکہ ہیبتِ مکالمت کا اثر کم ہو۔”(مدارک وغیرہ) اس عصا میں اُوپر کی جانب دو شاخیں تھیں اور اس کا نام”نبعہ” تھا۔”
1۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیرِ خزائن العرفان میں اس آیۂ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”پاکی بولنے سے یا تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح وثناء مراد ہے اور اس کی احادیث میں بہت فضیلتیں وارد ہیں یا اس سے نماز مراد ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے دریافت کیا گیا کہ کیاپنجگانہ نمازوں کا بیان قرآنِ پاک میں ہے؟” فرمایا:” ہاں۔” اور یہ آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا کہ ان میں پانچوں نمازیں اور اُن کے اوقات مذکور ہیں۔”