زُہد وتقوئ امامِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
زُہد وتقوئ امامِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
حضرت سیِّدُنا بشر بن ولید علیہ رحمۃاللہ الوحید سے منقول ہے کہ خلیفہ ابوجعفرمنصورنے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف قاصد بھیجا اور عہدۂ قضاء آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کرنے کاارادہ کیا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار فرما دیا۔ابو جعفرنے قسم کھائی کہ تمہیں یہ کام ضرورکرنا پڑے گا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی قسم کھائی کہ میں ہرگز نہیں کروں گا۔حضرت سیِّدُنا ربیع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے عرض کی: ”آپ دیکھتے نہیں کہ خلیفہ قسم کھا رہا ہے۔”تو فرمایا:”خلیفہ اپنی قسم کا کفارہ دینے پر مجھ سے زیادہ قادر ہے۔” چنانچہ، خلیفہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قید کرنے کا حکم دے دیا۔ قید خانہ میں ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیزران کے قبرستان میں سِپُردِخاک کیاگیا۔
(تاریخ بغداد، الرقم۷۲۹۷، النعمان بن ثابت ابوحنیفۃ التیمی،ذکر قدوم ابی حنیفۃ بغدادوموتہ بھا،ج۱۳،ص۳۲۹/۴۲۴)
دوسری روایت میں ہے کہ خلیفہ ابو جعفر منصور نے حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت سیِّدُناسفیان ثوری اور حضرت سیِّدُناشریک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہم کو بلوایا۔تینوں تشریف لے گئے۔ اس نے حضرت سیِّدُناسفیان ثوری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے کہا کہ آپ بصرہ میں عہدۂ قضاء سنبھال لیں۔حضرت سیِّدُناشریک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے کہاکہ وہ کوفہ میں قضا کاعہدہ سنبھال لیں اور امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ میرے شہر اور اس کے قرب و جوار کی قضاء کامنصب آپ کے سپرد کیا جاتاہے۔آپ تینوں اپنی ذِمَّہ داریاں سنبھال لیں۔ پھر اپنے دربان سے کہاکہ ان کے ذمہ دار بن کر ساتھ جاؤ، اگر ان میں سے کوئی انکار کرے تو اس کو سو کوڑے لگانا۔چنانچہ، حضرت سیِّدُناشریک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے تو منصب ِ قضاء قبول کر لیا لیکن حضرت سیِّدُناسفیان ثوری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ یَمَن تشريف لے گئے اور امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی قبول نہ کیا توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سو کوڑے لگائے گئے اور پھر
قید کر دیا گیایہاں تک کہ وہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا۔
(مناقب الامام الاعظم للکردری،الفصل السادس فی وفاۃ الامام،وذکر الشیخ عبد اللہ بن نصر الزاغونی،ج۲،ص۲۱،بتغیرٍ)
حضرت سیِّدُناعبداللہ بن مبارک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ ہوا تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ”کیا تم اس شخص کی بات کرتے ہو جس کے سامنے ساری دنیا پیش کی گئی پھر بھی اس نے ٹھکرا دی ۔”
(التذکرۃ الحمدونیۃ،باب اول،فصل رابع فی اخبار تابعین وسائر طبقات صالحین رضی اللہ عنہم ۔۔۔۔۔۔الخ، ج۱، ص۵۴)
حضرت سیِّدُنامحمد بن شجاع رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں عرض کی گئی: ”خلیفہ ابو جعفر نے آپ کو دس ہزار درہم دینے کا حکم دیاہے ۔”مگر آپ اس پر راضی نہ ہوئے ۔جب مال دینے کادن آیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نمازِ فجر پڑھتے ہی خود کو اپنے کپڑوں سے ڈھانپ لیااور کسی سے کوئی بات نہ کی ۔جب حسن بن قحطبہ کا قاصدمال لے کر آیا توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے بھی کوئی کلام نہ فرمایا۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”جوشخص ہمارے پاس آیا ہے وہ ہم سے یوں کلام کریگا کہ ایک کلمہ کے بعد دوسرا کلمہ بولے گا یعنی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی عادت بتائی۔ پھر فرمایا: ”اس مال کو جراب میں ڈال کر گھر کے کسی کونے میں پھینک آؤ۔” اس کے بعد جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھر کے سامان کے متعلق وصیت کی تو بیٹے کوارشاد فرمایا: ”جب میری وفات ہو اور لوگ مجھے دفن کر دیں تو یہ تھیلی حسن بن قحطبہ کو دے دینا اور کہنا: ”یہ آپ کی امانت ہے جو آپ نے ابوحنیفہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پاس رکھی تھی ۔”صاحبزادے فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ِ محترم کے حکم پر عمل کیا۔ یہ دیکھ کرحسن بن قحطبہ کہنے لگا: ”تمہارے والد پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت ہو، وہ اپنے دین پر کس قدر حریص تھے۔”
(المرجع السابق، ص۵۵)