سحر چمکی جمالِ فصل گل آرائشوں پر ہے
سحر چمکی جمالِ فصل گل آرائشوں پر ہے
نسیم رُوح پروَر سے مشامِ جاں معطر ہے
قریبِ طیبہ بخشے ہیں تصور نے مزے کیا کیا
مرا دل ہے مدینہ میں مدینہ دل کے اندر ہے
ملائک سر جہاں اپنا جھجکتے ڈرتے رکھتے ہیں
قدم ان کے گنہگاروں کا ایسی سر زمیں پر ہے
اَرے او سونے والے دِل ا رےاو سونے والے دِل
سحر ہے جاگ غافل دیکھ تو عالم منور ہے
سہانی طرز کی طلعت نرالے رنگ کی نکہت
نسیمِ صبح سے مہکا ہوا پرنور منظر ہے
تَعَالَی اللّٰہ یہ شادابی یہ رنگینی تَعَالَی اللّٰہ
بہارِ ہشت جنت دَشت طیبہ پر نچھاوَر ہے
ہوائیں آرہی ہیں کوچۂ پرنورِ جاناں کی
کھلی جاتی ہیں کلیاں تازگی دل کو مُیَسر ہے
منور چشم زائر ہے جمالِ عرشِ اَعظم سے
نظر میں سبز قبہ کی تجلی جلوہ گستر ہے
یہ رفعت دَرگہِ عرش آستاں کے قرب سے پائی
کہ ہر ہر سانس ہر ہر گام پر معراجِ دیگر ہے
محرم کی نویں تاریخ بارہ منزلیں کرکے
وہاں پہنچے وہ گھر دیکھا جو گھر اللّٰہ کا گھر ہے
نہ پوچھو ہم کہاں پہنچے اور ان آنکھوں نے کیا دیکھا
جہاں پہنچے وہاں پہنچے جو دیکھا دل کے اندر ہے
ہزاروں بے نواؤں کے ہیں جمگھٹ آستانہ پر
طلب دل میں صدائے یَارَسُوْلَ اللّٰہ لب پر ہے
لکھا ہے خامۂ رحمت نے دَر پر خطِّ قدرت سے
جسے یہ آستانہ مل گیا سب کچھ میسر ہے
خدا ہے اس کا مالک یہ خدائی بھر کا مالک ہے
خدا ہے اس کا مولیٰ یہ خدائی بھر کا سروَر ہے
زمانہ اس کے قابو میں زمانے والے قابو میں
یہ ہر دفتر کا حاکم ہے یہ ہر حاکم کا اَفسر ہے
عطا کے ساتھ ہے مختار رحمت کے خزانوں کا
خدائی پر ہے قابو بس خدا ہی اس سے باہر ہے
کرم کے جوش ہیں بذل و نعم کے دور دَورے ہیں
عطائے بانوا ہر بے نوا سے شیر وشکر ہے
کوئی لپٹا ہے فرطِ شوق میں روضہ کی جالی سے
کوئی گردن جھکائے رعب سے بادیدۂ تر ہے
کوئی مشغولِ عرضِ حال ہے یوں شادماں ہو کر
کہ یہ سب سے بڑی سرکار ہے تقدیر یاوَر ہے
کمینہ بندۂ دَر عرض کرتا ہے حضوری میں
جو موروثی یہاں کا مدح گستر ہے ثنا گر ہے
تری رحمت کے صدقے یہ تری رحمت کا صدقہ تھا
کہ ان ناپاک آنکھوں کو یہ نظارہ میسر ہے
ذلیلوں کی تو کیا گنتی سلاطین زمانہ کو
تری سرکار عالی ہے ترا دَربار برتر ہے
تری دولت تری ثروَت تری شوکت جلالت کا
نہ ہے کوئی زمیں پر اَور نہ کوئی آسماں پر ہے
مطاف و کعبہ کا عالم دکھایا تو نے طیبہ میں
ترا گھر بیچ میں چاروں طرف اللّٰہ کا گھر ہے
تجلی پر تری صدقے ہے مہر و ماہ کی تابش
پسینے پر ترے قربان روحِ مشک و عنبر ہے
غم و افسوس کا دافع اِشارہ پیاری آنکھوں کا
دلِ مایوس کی حامی نگاہِ بندہ پروَر ہے
جو سب اچھوں میں ہے اچھا جو ہر بہتر سے ہے بہتر
ترے صدقے سے اچھا ہے ترے صدقے میں بہتر ہے
رکھوں میں حاضری کی شرم ان اَعمال پر کیونکر
مرے اِمکان سے باہر مری قدرت سے باہر ہے
اگر شانِ کرم کو لاج ہو میرے بلانے کی
تو میری حاضری دونوں جہاں میں میری یاوَر ہے
مجھے کیا ہو گیا ہے کیوں میں ایسی باتیں کرتا ہوں
یہاں بھی یاس و محرومی یہ کیونکر ہو یہ کیونکر ہے
بلا کر اپنے کتے کو نہ دیں چمکار کر ٹکڑا
پھر اس شانِ کرم پر فہم سے یہ بات باہر ہے
تذبذب مغفرت میں کیوں رہے اس دَر کے زائر کو
کہ یہ درگاہِ والا رحمت خالص کا منظر ہے
مبارک ہو حسنؔ سب آرزوئیں ہو گئیں پوری
اب اُن کے صدقے میں عیش اَبد تجھ کو میسر ہے