سرکار کا وسیلہ راہبوں کے کام آگیا:
سرکار علیہ الصلٰوۃ والسلام کا وسیلہ راہبوں کے کام آگیا:
حضرت سیِّدُناابو یعقوب طبری علیہ رحمۃاللہ الغنی فرماتے ہیں:”ایک دفعہ میں ملکِ شام کے ارادے سے سفر پر نکلا تو ایک بے آب وگیاہ میدان میں چند روز اس طرح گزرے کہ میں ہلاکت کے قریب پہنچ گیا۔اسی حالت میں، مَیں نے دو راہب اس طرح چلتے دیکھے گویا وہ اپنے گھروں سے نکل کرکسی قریبی گرجا گھر کی طرف جا رہے ہوں۔میں ان کی طرف گیااوران سے پوچھا: ”آپ کہاں جا رہے ہیں؟” انہوں نے کہا :”ہم نہیں جانتے ۔” میں نے پوچھا:”کہاں سے آرہے ہیں؟” جواب دیا: ”ہم نہیں جانتے۔”میں نے پوچھا: ”کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کہاں ہیں؟”جواب ملا:”ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ملک میں ہیں اور اس کے حضورحاضر ہیں۔” میں نے اپنے دل میں کہا:”یہ دونوں راہب تجھ سے زیادہ حقیقی متوکل معلوم ہوتے ہیں۔” میں نے ان سے کہا:”کیا آپ مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دیتے ہیں؟” کہنے لگے:”آپ کی مرضی ۔”پھر ہم چلنے لگے۔ جب شام ہوئی تو وہ نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور میں نے بھی تیمم کیا اورنمازِ مغرب اداکی۔وہ مجھے تیمم کرکے نمازپڑھتے دیکھ کر متعجب ہوئے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ایک نے زمین کو کُریدا تو اس سے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا،اور اس کے پہلومیں کھانا رکھا ہوا تھا۔ مجھے اس سے بڑاتعجب ہوا۔پھر انہوں نے مجھے کہا:”قریب آئیں اور کھائیں پئیں۔”ہم نے کھایا اور پانی بھی پیا۔ میں نے پانی سے وضو کیا۔ اس کے بعد وہ پانی رُک گیا۔ پھر وہ دونوں نماز کے لئے کھڑے ہو گئے اور میں علیحدہ نماز پڑھنے لگا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ میں نے نمازِ فجر اداکی پھروہ دونوں اُٹھ کھڑے ہوئے اور رات تک چلتے رہے۔ میں بھی ساتھ ہی تھا۔ جب شام ہوئی توان میں سے ایک آگے بڑھا اور اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر نماز پڑھی اور پھر دعا کر کے زمین کو کُریدا تو پانی ظاہر ہو ا اور کھانا بھی حاضرہوگیا۔ انہوں نے کہا: ”آؤ، کھانا کھائیں۔” کھانے پینے سے فارغ ہو کرمیں نے نماز کے لئے وضو کیا۔ پھر پانی رک گیا۔ جب تیسری رات آئی تو انہوں نے مجھ سے کہا: ”اے مسلمان ! آج رات تمہاری باری ہے۔”حضرت سیِّدُنامحمد بن یعقوب طبری علیہ رحمۃ اللہ الغنی فرماتے ہیں:”مجھے ان کی بات سے بڑی شرم آئی۔میں سخت غم اور عجیب معاملے میں پھنس گیا۔خیر! میں نے دل میں کہا : ”یااللہ عَزَّوَجَلَّ! گناہوں کی وجہ تیری بارگاہ میں میراکوئی مقام و مرتبہ تو نہیں ،لیکن میں تجھے تیرے نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے اس مقام و مرتبے کا واسطہ دیتا ہوں جو تیری بارگاہ میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو حاصل ہے کہ مجھے ان کے سامنے رسوا نہ کرنا اور انہیں میری اور اپنے نبی حضرت سیِّدُنا محمدصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے دین کی تکلیف سے خوش نہ کرنا۔”فرماتے ہیں:”اچانک ایک چشمہ جاری ہو گیا اور کثیر کھانا بھی حاضر ہوگیا۔ہم نے کھایا پیا۔ ہماری یہی حالت رہی یہاں تک کہ رات آگئی اوراس بار جب پانی اور کھانا ظاہر ہوا تومجھ پر رِقت طاری ہو گئی اور میں بے ساختہ روپڑا۔ وہ بھی رونے لگے اور
روتے روتے ہماری آوازیں بلند ہو گئیں۔ جب مجھے کچھ افاقہ ہوا تو ان دونوں نے پوچھا:”آپ کیوں رو رہے ہیں ؟” میں نے کہا:”میں بہت گنہگارہوں، میرا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں خاص مقام ومرتبہ نہیں جو اس کرامت کو پہنچ سکے ۔” انہوں نے پوچھا:”توپھر یہ سب کیسے تمہارے لئے ظاہر ہوا؟”میں نے کہا:”میں نے اپنے پیارے نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی عزت ووجاہت کا وسیلہ پیش کیا اور عرض کی : ”یااللہ عَزَّوَجَلَّ!اگرچہ میں بہت گنہگارہوں ، اوریہ تیرے نبی محترم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے دین کے دشمن ہیں، مجھے ان کے سامنے دین کے معاملے میں رسوا نہ فرما۔” تو اس کی بدولت وہ کچھ ظاہرہوا جو تم دیکھ چکے ہو،اس لئے اس میں میری کوئی کرامت نہیں بلکہ یہ سب میرے نبئ محترم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کامعجزہ ہے۔”
یہ سن کر وہ کہنے لگے :”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!ہم بھی ایسے ہی تھے۔ جب ہم نے تمہیں دیکھا تو تمہاری حالت دیکھ کر متأثر ہوئے۔ جب وضو اور کھانے کاوقت ہوا توہم نے تمہاری جیسی دعا کی اور کہا:” یااللہ عَزَّوَجَلَّ! اگر اس کا دین حق ہے اوراس کے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم برحق ہیں تو اس کے نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے ہمارے لئے پانی اور کھانا ظاہر فرما دے۔” اس دعا سے کھانا حاضر ہوگیا جو تم نے دیکھا ۔یہ سب تمہارے نبی محترم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کامعجزہ اور برکت ہے۔اب ہم نے جان لیا کہ یہ دین حق ہے اورنبئ آخر الزماں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں عظیم ہیں۔ اپنا ہاتھ بڑھائیے، ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ہم مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَکْرِیْماً کی طرف اکٹھے نکلے اور ایک مدّت تک وہاں رہے۔ پھر جب ہم شام کی طرف روانہ ہوئے تو جدا ہو گئے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! جب بھی مجھے یہ واقعہ یاد آتا ہے دنیامیری نظروں میں حقیر ہو جاتی ہے ۔”
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ دونوں راہب تھے، ان کے لئے سوئی کے سرے کے برابر ایمان چمکا تو انہوں نے سیدھا راستہ دیکھ لیا اور سچائی کے راستے پر چل پڑے۔ اور اے مسکین!غور کر!تیری عمر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانیوں میں کٹ گئی،تیری زندگی خسارے میں گزرگئی، پھر بھی تو دریائے غفلت میں غوطہ زن ہے؟ قبولیت کے خوشگوار جھونکے چل چکے اور توابھی تک نافرمانی کی شراب سے نشے میں چور ہے؟ اورتجھے ہوش ہی نہیں آتا؟ ہماری بارگاہ میں اخلاص و تصدیق لئے جلدی سے حاضر ہو جا۔ بے شک ہم نے تیرے لئے راہِ ہدایت کھول دیا اور توفیق کی طرف تیری رہنمائی کی ۔