سر صبح سعادت نے گریباں سے نکالا
سر صبح سعادت نے گریباں سے نکالا
ظلمت کو ملا عالم اِمکاں سے نکالا
پیدائشِ محبوب کی شادی میں خدا نے
مدت کے گرفتاروں کو زِنداں سے نکالا
رحمت کا خزانہ پئے تقسیمِ گدایاں
اللّٰہ نے تہ خانۂ پنہاں سے نکالا
خوشبو نے عنادِل سے چھڑائے چمن و گل
جلوے نے پتنگوں کو شبستاں سے نکالا
ہے حُسنِ گلوئے مہ بطحا سے یہ روشن
اب مہر نے سر ان کے گریباں سے نکالا
پردہ جو تِرے جلوۂ رنگیں نے اُٹھایا
صَرصَر کا عمل صحنِ گلستاں سے نکالا
اُس ماہ نے جب مہر سے کی جلوہ نمائی
تاریکیوں کو شامِ غریباں سے نکالا
اے مہر کرم تیری تجلی کی ادا نے
ذَرَّوں کو بلائے شب ہجراں سے نکالا
صدقے تِرے اے مرد مک دیدۂ یعقوب
یوسف کو تری چاہ نے کنعاں سے نکالا
ہم ڈوبنے ہی کو تھے کہ آقا کی مدد نے
گرداب سے کھینچا ہمیں طوفاں سے نکالا
اُمت کے کلیجہ کی خلش تم نے مٹائی
ٹوٹے ہوئے نشتر کو رَگِ جاں سے نکالا
ان ہاتھوں کے قربان کہ ان ہاتھوں سے تم نے
خارِ رہِ غم پائے غریباں سے نکالا
اَرمان زَدوں کی ہیں تمنائیں بھی پیاری
اَرمان نکالا تو کس اَرماں سے نکالا
یہ گردنِ پر نور کا پھیلا ہے اُجالا
یا صبح نے سر اُن کے گریباں سے نکالا
گلزارِ براہیم کیا نار کو جس نے
اس نے ہی ہمیں آتش سوزاں سے نکالا
دینی تھی جو عالم کے حسینوں کو ملاحت
تھوڑا سا نمک اُن کے نمکداں سے نکالا
قرآں کے حواشی پہ جلالین لکھی ہے
مضموں یہ خطِ عارِضِ جاناں سے نکالا
قربان ہوا بندگی پر لطف رِہائی
یوں بندہ بنا کر ہمیں زِنداں سے نکالا
اے آہ مِرے دل کی لگی اور نہ بجھتی
کیوں تو نے دھواں سینۂ سوزاں سے نکالا
مدفن نہیں پھینک آئیں گے اَحباب گڑھے میں
تابوت اگر کوچۂ جاناں سے نکالا
کیوں شور ہے کیا حشر کا ہنگامہ بپا ہے
یا تم نے قدم گورِ غریباں سے نکالا
لاکھوں تِرے صدقے میں کہیں گے دمِ محشر
زِنداں سے نکالا ہمیں زِنداں سے نکالا
جو بات لب حضرتِ عیسٰی نے دکھائی
وہ کام یہاں جنبش داماں سے نکالا
منہ مانگی مرادوں سے بھری جیب دو عالم
جب دست کرم آپ نے داماں سے نکالا
کانٹا غمِ عقبے کا حسنؔ اپنے جگر سے
امت نے خیالِ سر مژگاں سے نکالا