islam
سلام کے مسائل
اﷲ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ۔
وَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحْسَنَ مِنْہَاۤ اَوْ رُدُّوۡہَا ؕ اِنَّ اللہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا ﴿۸۶﴾
اور جب تم کو کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو تم اس سے بہتر لفظ میں جواب دو یا وہی لفظ تم بھی کہہ دو بے شک اﷲ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔(پ5،النساء:86)
مسئلہ:۔سلام کرنا سنت اور سلام کا جواب دینا واجب ہے۔
(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۳،۶۸۷)
مسئلہ:۔سلام کرنے والے کے لئے چاہے کہ سلام کرتے وقت دل میں یہ نیت کرے کہ اس شخص کی جان اس کا مال اس کی عزت و آبرو سب کچھ میری حفاظت میں ہے اور
میں ان میں سے کسی چیز میں دخل اندازی کرنا حرام جانتا ہوں۔
(ردالمحتار ، کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۲)
مسئلہ:۔عورت ہو یا مرد سب کے لئے سلام کرنے اور جواب دینے کا اسلامی طریقہ یہی ہے کہ السلام علیکم کہے اور جواب میں وعلیکم السلام کہے اس کے سوا دوسرے سب طریقے غیر اسلامی ہیں۔
مسئلہ:۔اگر دوسرے کا سلام لائے تو جواب میں یہ کہنا چاہے علیک و علیھم السلام
(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب الحظروالاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۵)
مسئلہ:۔ السلام علیکم اور جواب میں وعلیکم السلام کہنا کافی ہے لیکن بہتر یہ کہ سلام کرنے والا السلام علیکم ورحمۃ اﷲوبرکاتہ کہے اور جواب دینے والا بھی یہ کہے سلام میں اس سے زیادہ الفاظ کہنے کی ضرورت نہیں ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ کا لفظ بھی سلام ہے مگر چونکہ یہ لفظ شیعوں میں مذہبی نشان کے طور پر رائج ہوگیا ہے کہ اس لفظ کے سنتے ہی فوراً ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ شخص شیعہ مذہب کا ہے لہٰذا سنیوں کو سلام میں اس لفظ سے بچنا ضروری ہے۔ (بہار شریعت،ج۳،ح۱۶،ص۸۹)
مسئلہ:۔سلام کا جواب فوراً ہی دینا واجب ہے بلاعذر تاخیر کی تو گنہ گار ہوا اور یہ گناہ سلام کا جواب دے دینے سے دفع نہیں ہوگا بلکہ توبہ کرنی ہوگی ۔ (ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۳)
مسئلہ:۔ایک جماعت دوسری جماعت کے پاس آئی اور ان میں سے کسی ایک نے بھی سلام نہ کیا تو سب سنت چھوڑنے کے الزام کی گرفت میں آگئے اور اگر ان میں سے ایک شخص نے بھی سلام کرلیا تو سب بری ہوگئے لیکن افضل یہ ہے کہ سب ہی سلام کریں یوں ہی اگر جماعت میں سے کسی نے بھی سلام کا جواب نہ دیا تو واجب چھوڑنے کی وجہ سے سب گنہ گار ہوئے اور اگر ایک شخص نے بھی سلام کا جواب دے دیا تو پوری جماعت الزام سے بری ہوگئی مگر افضل یہی ہے کہ سب سلام کاجواب دیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔ایک شخص شہر سے آرہا ہے اور دوسرا شخص دیہات سے آرہا ہے دونوں میں سے کون کس کو سلام کرے بعض نے کہا کہ شہری دیہاتی کو سلام کرے اور بعض کا قول ہے کہ دیہاتی شہری کو سلام کرے اور اس مسئلہ میں سب کا اتفاق ہے کہ چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے چھوٹا بڑے کو سلام کرے سوار پیدل کو سلام کرے تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں ایک شخص پیچھے سے آیا یہ آگے والے کو سلام کرے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔کافر کو سلام نہ کرے اور وہ سلام کریں تو جواب دے سکتا ہے مگر جواب میں صرف علیکم کہے اور اگر ایسی جگہ گزرتا ہو جس جگہ مسلمان اور کفار دونوں جمع ہوں تو السلام علیکم کہے اور مسلمانوں پر سلام کرنے کی نیت کرے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے ملے جلے مجمع کو اَلسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدُیٰ کہہ کر سلام کرے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔اذان و اقامت اور جمعہ و عیدین کے خطبہ کے وقت سلام نہیں کرنا چاہے ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵۔۳۲۶)
مسئلہ:۔علانیہ فسق و فجور کرنے والوں کو سلام نہیں کرنا چاہے لیکن اگر کسی کے پڑوس میں فساق رہتے ہوں اور یہ اگر ان سے سختی برتتا ہے تو وہ اس کو پریشان کرتے ہوں اور ایذا دیتے ہوں اور اگر یہ ان سے سلام و کلام جاری رکھتا ہے تو وہ اس کو ایذا پہنچانے سے باز رہتے ہوں تو ایسی صورت میں ظاہری طور پر ان فساق کے ساتھ سلام و کلام کے ساتھ میل جول رکھنے میں یہ شخص معذور سمجھا جائے گا ۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۶)
مسئلہ:۔کسی سے کہہ دیا کہ فلاں کو میرا سلام کہہ دینا اور اس نے سلام پہنچانے کا وعدہ کر لیا تو اس پر سلام پہنچانا واجب ہے اور اگر سلام پہنچانے کا وعدہ نہیں کیا تھا تو سلام پہنچانا اس پر واجب نہیں۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔خط میں سلام لکھا ہوتا ہے اس کو پڑھتے ہی زبان سے وعلیکم السلام کہہ لے تحریری سلام کا جواب ہو گیا۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،ج۹،ص۶۸۵)
اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی علیہ الرحمۃ کا بھی یہ طریقہ ہے۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۲)
مسئلہ:۔انگلی یا ہتھیلی سے سلام کرنا منع ہے ۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۲)
حدیث شریف میں ہے کہ انگلیوں سے سلام کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے اور ہتھیلی سے اشارہ کرکے سلام کرنا یہ نصرانیوں کا طریقہ ہے۔ (جامع الترمذی،کتاب الاستئذان والآداب،باب ماجاء فی کراہیۃ۔۔۔الخ،رقم۲۷۰۴،ج۴،ص۳۱۹)
مسئلہ:۔بعض لوگ سلام کے جواب میں ہاتھ یا سر سے اشارہ کردیتے ہیں بلکہ بعض تو فقط آنکھوں کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا کرتے ہیں یوں سلام کا جواب نہیں ہوا زبان
سے سلام کا جواب دینا واجب ہے ۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۲)
مسئلہ:۔چھوٹے جب بڑوں کو سلام کرتے ہیں تو بڑا جواب میں کہتا ہے کہ جیتے رہو اسی طرح بوڑھی عورتیں بچیوں کے سلام کا جواب اس طرح دیا کرتی ہیں خوش رہو سہاگن بنی رہودودھ پوت والی رہو ان سب الفاظ سے سلام کا جواب نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اور ہر مرد و عورت کو سلام کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا چاہے۔ (بہارشریعت،ج۱۶،ص۹۳)
مسئلہ:۔اس زمانے میں کئی طرح کے سلام لوگوں نے ایجاد کر لئے ہیں جن میں سب سے برے الفاظ نمستے اور بندگی عرض ہیں مسلمانوں کو کبھی ہر گز ہرگز یہ نہیں کہنا چاہے بعض لوگ آداب عرض کہتے ہیں اس میں اگرچہ اتنی برائی نہیں مگر یہ بھی سنت کے خلاف ہے۔ (بہارشریعت ج۱۶،ص۹۲)
مسئلہ:۔کوئی شخص تلاوت میں مشغول ہے یا درس و تدریس یا علمی گفتگو میں ہے تو اس کو سلام نہیں کرنا چاہے اسی طرح اذان و اقامت و خطبہ جمعہ و عیدین کے وقت بھی سلام نہ کرے سب لوگ علمی بات چیت کر رہے ہوں یا ایک شخص بول رہا ہو اور باقی سن رہے ہوں دونوں صورتوں میں سلام نہ کرے مثلاً کوئی عالم و عظ کہہ رہا ہے یا دینی مسئلہ پر تقریر کر رہا ہے اور حاضرین سن رہے ہیں تو آنے والا شخص چپکے سے آکر بیٹھ جائے سلام نہ کرے۔
(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔جو شخص پیشاب پاخانہ کر رہا ہو یا کبوتر اڑا رہا ہو یا گانا گا رہا ہو یا ننگا نہا رہا ہو یا پیشاب کے بعد ڈھیلا لے کر استنجا سکھا رہا ہو اس کو سلام نہ کیا جائے۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۶)
مسئلہ:۔جب اپنے گھر میں جائے تو گھر والوں کو سلام کرے بچوں کے سامنے گزرے تو ان بچوں کو سلام کرے ۔ (الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراہیۃ،الباب السابع فی السلام۔۔۔الخ،،ج۵،ص۳۲۵)
مسئلہ:۔مرد عورت کی ملاقات ہو تو مرد عورت کو سلام کرے اور اگر کسی اجنبیہ عورت نے مرد کو سلام کیا اور وہ بوڑھی ہو تو اس طرح جواب دے کہ وہ بھی سنے اور وہ جوان ہو تو اس طرح جواب دے کہ وہ نہ سنے ۔ (فتاوی قاضی خان،کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی التسبیح والتسلیم۔۔۔الخ،ج۴،ص۳۷۷)
مسئلہ:۔بعض لوگ سلام کرتے وقت جھک جاتے ہیں اگر یہ جھکنا رکوع کے برابر ہو جائے تو حرام ہے اور اگر رکوع کی حد سے کم ہو تو مکروہ ہے۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۲)
مسئلہ:۔کسی کے نام کے ساتھ علیہ السلام کہنا یہ حضرات انبیاء اور ملائکہ کے ساتھ خاص ہے مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی اورفرشتے کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کے ساتھ علیہ السلام نہیں کہنا چاہے ۔ (بہارشریعت،ج۳،ح۱۶،ص۹۳)
مسئلہ:۔سلام محبت پیدا ہونے کا ذریعہ ہے حدیث شریف میں ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم ہے کہ جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ تم لوگ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگے یہاں تک کہ تم مومن بن جاؤ اور تم لوگ مومن نہیں بنو گے یہاں تک کہ تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو لہٰذا میں تم لوگوں کو ایک ایسے کام کی رہنمائی کرتا ہوں کہ جب تم لوگ وہ کام کرنے لگو گے تو تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے وہ کام یہ ہے کہ تم لوگ آپس میں سلام کا چرچا کرو ۔ (سنن ابی داؤد ،کتاب الادب،باب فی افشاء السلام،رقم۵۱۹۳،ج۴،ص۴۴۸)
مسئلہ:۔سلام خیر و برکت کا سبب ہے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے خادم خاص حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے پیارے بیٹے! جب تو گھر میں داخل ہوا کرے تو گھر والوں کوسلام کر کیونکہ تیرا سلام تیرے اور تیرے گھر والوں کے لئے برکت کا سبب ہوگا ۔ (جامع الترمذی،کتاب الاستئذان والآداب،باب ماجاء فی التسلیم۔۔۔الخ، رقم۲۷۰۷، ج۴،ص۳۲۰)
مسئلہ:۔سوار پیدل چلنے والوں کو سلام کرے اور چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ (صحیح البخاری،کتاب الاستئذان،باب تسلیم الماشی علی القاعد،رقم۶۲۳۳،ج۴،ص۱۶۶)
مسئلہ:۔ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان کے اوپر چھ حقوق ہیں (۱)جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے (۲)جب وہ مرجائے تواس کے جنازہ پرحاضر ہو (۳) جب دعوت کرے تواس کی دعوت قبول کرے (۴)جب وہ ملاقات کرے تو اس کو سلام کرے (۵)جب وہ چھینکے تو یرحمک اﷲ کہہ کر اس کی چھینک کا جواب دے (۶) اس کی غیر حاضری اور موجودگی دونوں صورتوں میں اس کی خیر خواہی کرے۔
(جامع الترمذی،کتاب الأدب،باب ماجاء فی تشمیت العاطس،رقم۲۷۴۶،ج۴،ص۳۳۸)